یوم الحساب کا دستور قرآن کی روشنی میں

قرآن میں قیامت کو " یوم الحساب "بھی کہاگیا ، اور قرآن میں اطلاع دی گئی کہ ہر انسان سے ان کی دنیاوی زندگی کے بارے میں حساب لیا جائے گا ، یہ حساب کن بنیادوں پر لیا جائے گا ؟ قرآن کے مطابق اس کی دو ہی بنیاد ہیں:

ایک انسان کی ذاتی یاداخلی بنیاد ہے کہ اللہ تعالی نے اس کو عقل، شعور اور دیگر بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تاکہ وہ خیر اور شر میں فرق کرسکے جیسے قرآن میں ارشاد ہے :

" اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ، وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ، وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ " (البلد:8- 10) 
(کیا ہم نے اُسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟ اور دونوں نمایاں راستے اُسے ﴿نہیں ﴾ دکھا دیے؟ )

نجدین کی تفسیر مفسرین نے" طریق الخیر" اور "طریق الشر "سے کی ہے۔ 
اس کی مزید صراحت یوں ملتی ہے کہ فرعون نے موسیؑ اور ہارون ؑ سے سوال کرنے پر کہ تم دونوں کا رب کون ہے ؟ جواب میں ارشاد ہوا " قَالَ رَبُّنَا الَّـذِىٓ اَعْطٰى كُلَّ شَىْءٍ خَلْقَهٝ ثُـمَّ هَدٰى (سورہ طہ : 40- 50)
(موسیٰؑ نے جواب دیا” ہمارا ربّ وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔“ )

کبھی یہ ھدایت پوری قوم کو دی جاتی ہےتاکہ ان کو معلوم ہو کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے ؟ ارشاد باری تعالی ہے ۔

" وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى " (فصلت:17)
(اور قوم ثمود، تو ان کے سامنے ہم نے راہ راست پیش کی مگر انہیں نے راستہ دیکھنے کے بجائے اندھا بنا رہنا پسند کیا۔)

یہی وجہ ہے کہ ہدایت انبیا سے نہیں بلکہ اللہ کی توفیق سے ملتی ہے فرمایا : 
لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ (البقرة:272)
(لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمّےداری آپ پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے ۔ )

قیامت کے دن حساب کی دوسری بنیاد خارجی ہے کہ اللہ تعالی نے پیغامبروں کے ذریعے انسان کی رھنمائی کا انتظام کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا پیغام جان لینے کے بعد انسان خود ذمہ دار ہے تاکہ قیامت کے دن وہ خارجی اسباب کا بہانہ بناکر اپنی گمراہی کا جواز نہ پیش کرسکے ۔
انسان جطرح انفرادی یا قومی سطح پر اپنی ذات کا ذمہ دارہے اسی طرح خارجی اسباب کے متعلق بھی انسان خود جوابدہ ہے ، اللہ کی عدالت میں خارجی اسباب کو انسان اپنی معذرت خواہی کے لیے حجت نہیں بنا سکتا ۔

سورہ اسراء میں ایک ہی جگہ پر" یوم الحساب " کی ان دونوں بنیادوں کا ذکر آیا ہے اس سے اللہ کی عدالت کا دستور واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ ارشاد فرمایا :

وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا (13) اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (14) مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا (15) وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا (16) وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا (17) ( الاسراء )

(ہر انسان کا شگون ہم نے اُس کے اپنے گلےمیں لٹکا رکھا ہے، اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اُس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھُلی کتاب کی طرح پائے گا۔۔۔۔پڑھ اپنا نامہٴ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تُو خود ہی کافی ہے۔
جو کوئی راہِ راست اختیار کرے اس کی راست روی اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گُمراہ ہو اُس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے۔ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔ اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ ﴿لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے﴾ ایک پیغام بر نہ بھیج دیں۔

جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ دیکھ لو، کتنی ہی نسلیں ہیں جو نُوحؑ کے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں۔ تیرا ربّ اپنے بندوں کے گناہوں سے پُوری طرح باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔)