رسالت اور دعوت محمدی ﷺ کی حقیقت سورہ براءۃ کی روشنی میں از مولانا وحید الدین خان

قسط (ا)

آیت : 1۔ تا ۔4:۔ موجودہ دنیا میں انسان کو رہنے بسنے کا جو موقع دیا گیا ہے وہ کسی حق کی بنا پر نہیں ہے بلکہ محض آزمائش کے لیے ہے۔ خدا جب تک چاہتا ہے کسی کو اس زمین پر رکھتا ہے اور جب اس کے علم کے مطابق اس کی مدت امتحان پوری ہوجاتی ہے تو اس پر موت وارد کرکے اس کو یہاں سے اٹھا لیا جاتا ہے ۔

یہی معاملہ پیغمبر کے مخاطبین کے ساتھ دوسری صورت میں کیا جاتا ہے۔ پیغمبر جن لوگوں کے درمیان آتا ہے ان پر وہ آخری حد تک کی گواہی دیتا ہے۔ پیغمبر کے دعوتی کام کی تکمیل کے بعد جو لوگ ایمان نہ لائیں وہ خدا کی زمین پر زندہ رہنے کا حق کھو دیتے ہیں۔ وہ آزمائش کی غرض سے یہاں رکھے گئے تھے۔ اتمام حجت نے آزمائش کی تکمیل کردی۔ پھر اس کے بعد زندگی کا حق کس لیے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کے کام کی تکمیل کے بعد ان کے اوپر کوئی نہ کوئی ہلاکت خیز آفت آتی ہے اور ان کا استیصال کردیا جاتا ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطبین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ مگر ان پر کوئی آسمانی آفت نہیں آئی۔ ان کے اوپر خد اکی مذکورہ سنت کا نفاذ اسباب کے نقشہ میں کیا گیا۔ اولاً قرآن کے برتر اسلوب اور پیغمبر کے اعلیٰ کردار کے ذریعہ ان کو دعوت پہنچائی گئی۔ پھر اہل توحید کو مکہ کے اہل شرک پر غالب کرکے ان کے اوپر اتمام حجت کردیا گیا۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا اور اس کے باوجود وہ انکار کی روش پر قائم رہے تو ان کو مسلسل خیانت اور عہد شکنی کا مجرم قرار دے کر ان کو الٹی میٹم دیا گیا کہ چار ماہ کے اندر اپنی اصلاح کرلو، ورنہ مسلمانوں کی تلوار سے تمہاری خاتمہ کردیا جائے گا۔

پھر یہ سارا معاملہ تقوی کے اصول پر کیا گیا نہ کہ قومی سیاست کے اصول پر۔ مشرکین کو دلائل کے میدان میں لاجواب کردیا گیا۔ ان کو پیشگی انتباہ کے ذریعہ کئی مہینے تک سوچنے کا موقع دیا گیا۔ آخرت وقت تک ان کے لیے دروازہ کھلا رکھا گیا کہ جو لوگ توبہ کرلیں وہ خدا کے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہوجائیں۔ جن بعض قبائل نے معاہدہ نہیں توڑا تھا ان کے معاملہ کو معاہدہ توڑنے والوں سے الگ رکھا گیا، وغیرہ ۔


آیت : 5۔ تا ۔6:۔ مہلت کے چار مہینے گزرنے کے بعد یہاں جس جنگ کا حکم دیا گیا وہ کوئی عام جنگ نہ تھی یہ خدا کے قانون کے مطابق وہ عذاب تھا جو پیغمبر کے انکار کے نتیجہ میں ان پر ظاہر کیا گیا۔ انہوں نے اتمام حجت کے باوجود خدا کے پیغمبر کا انکار کرکے اپنے کو اس کا مستحق بنا لیا تھا کہ ان کے لیے تلوار یا اسلام کے سوا کوئی اور صورت باقی نہ رکھی جائے۔ یہ خدا کا ایک خصوصی قانون ہے جس کا تعلق پیغمبر کے مخاطبین سے ہے نہ کہ عام لوگوں سے۔ تاہم اتمام حجت کے بعد بھی اس حکم کا نفاذ اچانک نہیں کیا گیا بلکہ آخری مرحلہ میں پھر انہیں چار ماہ کی مہلت دی گئی۔ 
انتقام معاف کرنا نہیں جانتا۔ انتقامی جذبہ کے تحت جو کارروائی کی جائے اس کو صرف اس وقت تسکین ملتی ہے جب کہ وہ اپنے حریف کو ذلیل اور برباد ہوتے ہوئے دیکھ لے۔ مگر عرب کے مشرکین کے خلاف جو کارروائی کی گئی اس کا تعلق کسی قسم کے انتقام سے نہیں تھا بلکہ وہ سراسر حقیقت پسندانہ اصول پر مبنی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے شدید حکم کے باوجود ان کے لیے یہ گنجائش ہر وقت باقی تھی کہ وہ دین اسلام کو اختیار کرکے اپنے اس سزا سے بچالیں اور اسلامی برادری میں عزت کی زندگی حاصل کرلیں۔ کسی کی توبہ کے قابل بقول ہونے کے لیے صرف دو عملی شرط کا پایا جانا کافی ہے۔ نماز اور زکوۃ۔

جنگ کے دوران میں دشمن کا کوئی فرد یہ کہے کہ میں اسلام کو سمجھنا چاہتا ہوں تو مسلمانوں کو حکم ہے کہ اس کو امان دے کر اپنے ماحول میں آنے کا موقع دیں اور اسلام کے پیغام کو اس کے دل میں اتارنے کی کوشش کریں۔ پھر بھی اگر وہ قبول نہ کرے تو اپنے حفاظت میں اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچا دیںَ عام حکم کے تحت اگرچہ وہ گردن زدنی ہے مگر ایسا نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے دین کی بات نہیں مانی ہے تو اس کو قتل کردیا جائے، جب کوئی شخص امان میں ہو تو امان کے دوران اس پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں ۔

جنگ کے زمانہ میں دشمن کو اس قسم کی رعایت دینا انتہائی نازک ہے۔ کیونیکہ عین ممکن ہے کہ دشمن کا کوئی جاسوس اس رعایت سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے اندر گھس آئے اور ان کو فوجی راز معلوم کرنے کی کوشش کرے۔ مگر اسلام کی نظر میں دعوت و تبلیغ کا مسئلہ اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس ناز خطرہ کے باوجود اس کا دروازہ بند نہیں کیا گیا۔ 
ایک شخص اگر بے خبری اور لاعلمی کی بنا پر ظلم کرے تو اس کا ظلم خواہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر اس کے ساتھ ہر ممکن رعایت کی جائے گی تا وقتیکہ اس کی لاعلمی اور بے خبری ختم ہوجائے ۔

آیت : 7۔ تا ۔11:۔ مسلمانوں کو جب زور حاصل ہوگیا تو قریش نے ان سے معاہدے کرلیے۔ تاہم وہ ان معاہدوں سے خوش نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے "دشمن" سے یہ معاہدہ انہوں نے اپنی بربادی کی قیمت پر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت اس انتظار میں رہتے تھے کہ جہاں موقع ملے معاہدہ کی خلاف ورزی کے مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں یا کم از کم انہیں بدنام کریں۔ ظاہر ہے کہ جب ایک فریق کی طرف سے اس قسم کی خیانت کا مظاہرہ ہو تو دوسرے فریق کے لیے کسی معاہدہ کی پابندی ضروری نہیں رہتی ۔

یہ قریش کا حال تھا جن کو مسلمانوں کے عروج میں اپنی قیادت چھنتی ہوئی نظر آتی تھی۔ تاہم کچھ دوسرے عرب قبائل (بنوکنانہ، بنو خزاعہ، بنو ضمرہ) جو اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا نہ تھے، انہوں نے مسلمانوں سے معاہدے کیے اور اپنے معاہدے پر قائم رہے۔ جب چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیا گیا تو ان کے معاہدہ کی میعاد پوری ہونے میں تقریباً نومہینے باقی تھے۔ حکم ہوا کہ ان سے معاہدہ کو آخر وقت تک باقی رکھو، کیونکہ تقوی کا تقاضا یہی ہے۔ مگر اس مدت کے ختم ہونے کے بعد پھر کسی اس قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا اور تمام مشرکین کے سامنے صرف دو صورتیں باقی رکھی گئیں یا اسلام لائیں یا جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔

معاشرتی زندگی کی بنیاد ہمیشہ دو چیزوں پر ہوتی ہے۔ رشتہ داری یا قول و قرار۔ جن سے رحمی رشتے ہیں ان کے حقوق کا لحاظ آدمی رحمی رشتوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اور جن سے قول و قرار ہوچکا ہے۔ ان سے قول و قرار کی بنا پر۔ مگر جب آدمی کے اوپر دنیا کے مفاد اور اس کی مصلحت کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ دونوں باتوں کو بھول جاتا ہے۔ وہ اپنے حقیر فائدہ کی خاطر رحمی حقوق کو بھی بھول جاتا ہے اور قول و قرار کو بھی۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں۔ وہ خدا کی نظر میں مجرم ہیں۔ دنیا میں اگر وہ چھوٹ گئے تو آخرت میں وہ خدا کی پکڑ سے بچ نہ سکیں گے۔ الا یہ کہ وہ توبہ کریں اور اپنی سرکشی سے باز آئیں۔ کوئی شخص ماضی میں خواہ کتنا ہی برا رہا ہو مگر جب وہ اصلاح قبول کرلے تو وہ اسلامی برادری کا ایک معزز رکن بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔

آیت : 12۔ تا ۔15:۔ ائمہ کفر سے مراد قریش ہیں جو اپنے قائدانہ مقام کی وجہ سے عرب میں اسلام کے خلاف تحریک کی امامت کر رہے تھے۔ قریش کے اس کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی تحریک جب اٹھتی ہے تو اس کا پہلا مخالف کون گروہ بنتا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس کو بے آمیز حق کے پیغام میں اپنی بڑائی پر زد پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہی وہ سربرآوردہ طبقہ ہے جس کے پاس وہ ذہن ہوتا ہے کہ وہ اسلامی دعوت میں شوشے نکال کر لوگوں کو اس کی طرف سے مشتبہ کرے۔ اسی کے پاس وہ وسائل ہوتے ہیں کہ وہ اسلام کے داعیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ان کو طرح طرح کی مشکلات میں ڈالے۔ اسی کے پاس وہ زور ہوتا ہے کہ وہ حق پرستوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کی تدبیریں کرے۔ حتی کہ اسی کو یہ مواقع حاصل ہوتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کی آگ بھڑکا سکے ۔

"ان کے عہد کچھ نہیں" بہت معنی خیز فقرہ ہے۔ جو لوگ دشمنی اور ضد کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہوں ان کے وعدے اور معاہدے بالکل غیر یقینی ہوتے ہیں۔ ان کی نفسیات میں اپنے حریف کے خلاف مستقل اشتعال برپا رہتا ہے۔ ان کے اندر ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ وہ اگر معاہدہ بھی کرلیں تو اپنے مزاج کے اعتبار سے اس کو دیر تک باقی رکھنے پر قادر نہیں ہوتے۔ زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ اپنے منفی جذبات سے مغلوب ہوکر وہ معاہدہ کو توڑ دیتے ہیں اور اس طرح اہل حق کو یہ موقع دیتے ہیں کہ اپنے اوپر پہل کا الزام لیے بغیر وہ ان کے خلاف مدافعانہ کارروائی کریں اور خدا کی مدد سے ان کا خاتمہ کردیں ۔

تمام حکمت اور دانائی کا سرا اللہ کا ڈر ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کے اندر اعتراف کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر وہ شعور جگاتا ہے کہ وہ حقیقتوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے کے لیے خدائی منصوبہ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔ وہ خدا کی منشا کو جان کر پورے اعتماد کے ساتھ اپنے آپ کو اس میں لگا دیتا ہے۔ وہ اس صحیح ترین راستہ پر چل پڑتا ہے جس کی آخری منزل صرف کامیابی ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کی آنکھوں کو اشک آلود کردیتا ہے۔ مگر اللہ کے لیے بھیگی ہوئی آنکھ ہی وہ آنکھ ہے جس کے لیے یہ مقدر ہے کہ اس کو ٹھنڈک حاصل ہو، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔

آیت : 16:۔ موجودہ دنیا میں آدمی جب کسی چیز کو اپنی زندگی کا مقصد بناتا ہے تو اس کو حاصل کرنے میں طرح طرح کے مسائل اور تقاضے سامنے آتے ہیں۔ اگر آدمی کو اپنا مقصد عزیز ہے تو وہ ان مسائل کو عبور کرنے اور ان تقاضوں کو پورا کرنے میں اپنی ساری قوت لگا دیتا ہے۔ اسی کا نام جہاد ہے۔ یہ جہاد اس دنیا میں ہر ایک کو پیش آتا ہے۔ ہر آدمی کو جہاد کی سطح پر اپنی طلب کا ثبوت دینا پڑتا ہے اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی طلب میں کامیاب ہو۔ فرق یہ ہے کہ غیر ومن دنیا کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور مومن آخرت کی راہ میں ۔

یہی جہاد یہ ثابت کرتا ہے کہ آدمی اپنے مقصد میں کتنا سنجیدہ ہے۔ ایک شخص جو ایمان کا مدعی ہو اس کے سامنے بار بار مختلف مواقع آتے ہیں جو اس کے دعوے کا امتحان ہوں۔ کبھی اس کا دل کسی کے خلاف بغض و حسد کے جذبات سے متاثر ہونے لگتا ہے اور اس کا ایمان اس سے کہتا ہے کہ اس قسم کے تمام جذبات کو اپنے اندر سے نکال دو۔ کبھی اس کی زبان پر ناپسندیدہ کلمات آتے ہیں اور ایمان کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ اس وقت اپنی زبان کو پکڑ لیا جائے۔ کبھی معاملات کے دوران کسی کو ایسا حق دینا پڑتا ہے جو قلب کو بالکل ناگوار ہو مگر ایمان یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ حق دار کو انصاف کے مطابق اس کا پورا حق پہنچایا جائے۔ اسی طرح اسلام کی دعوت کبھی ایسے موڑ پر پہنچ جاتی ہے کہ ایمان یہ کہتا ہے کہ اس کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی جان و مال قربان کردو۔ ایسے تمام مواقع پر گریز یا فرار سے بچنا اور ہر قیمت پر ایمان و اسلام کے تقاضے پورے کرتے رہنا، اسی کا نام جہاد ہے۔

جب کوئی شخص اسلام کے لیے مجاہد بن جائے تو اس کا تمام تر نفسیاتی تعلق اللہ اور رسول اور اہل ایمان سے ہوجاتا ہے۔ وہ ان کے سوا کسی کو اپنا ولیجہ نہیں بناتا۔ وَلَجَ کے معنی ہیں داخل ہونا۔ ولیجہ کسی وادی کے اس غار کو کہتے ہیں جہاں بارش وغیرہ سے پناہ لیں۔ اسی سے ولیجہ ہے، یعنی ولی دوست ۔

موجودہ دنیا میں جب بھی آدمی کسی وسیع تر مقصد کو اپناتا ہے تو اس کو لازماً ایسا کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کی مرکزیت سے وابستہ ہو۔ وہ اپنے قائد کا مکمل وفادار بنے۔ وہ اس راہ کے ساتھیوں سے پوری طرح جڑ جائے۔ مقصدیت کے احساس کے ساتھ یہ چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ ان کے بغیر بامقصد زندگی کا دعوی بالکل جھوٹا ہے۔ اسی طرح آدمی جب دین کو سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی میں داخل کرے گا تو لازمی طور پر ایسا ہوگا کہ خدا اور رسول اور اہل ایمان اس کا "ولیجہ" بن جائیں گے۔ وہ ہر اعتبار ان کے ساتھ جڑ جائے گا۔ سنجیدگی کے ساتھ دین اختیار کرنے والے کے لیے اللہ اور رسول اور اہل ایمان، عملی طور پر، ایسی وحدت کے اجزاء ہیں جن کے درمیان تقسیم ممکن نہیں۔ 
اس معاملہ کی نزاکت بہت بڑھ جاتی ہے جب یہ سامنے رکھا جائے کہ اس کی جانچ کرنے والا وہ ہے جس کو کھلے اور چھپے کا علم ہے، وہ ہر آدمی سے اس کی حقیقت کے اعتبار سے معاملہ کرے گا نہ کہ اس کے ظاہری رویہ کے اعتبار سے ۔

آیت : 17۔ تا ۔22:۔ نزول قرآن کے وقت عرب میں یہ صورت حال تھی کہ مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد جمع تھے اور مشرکین بیت اللہ کے گرد۔ اس وقت تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عظمتوں کی وہ تاریخ وابستہ نہیں ہوئی تھی جس کو آج ہم جانتے ہیں۔ لوگوں کو آپ عام انسانوں کی طرح ایک انسان دکھائی دیتے تھے۔ دوسری طرف مسجد حرام ہزاروں برس کی تاریخ کے نتیجہ میں عظمت و تقدس کی علامت بنی ہوئی تھی۔ مشرکین کی نظر میں اپنی تسویر تو یہ تھی کہ وہ ایک مقدس ترین مرکز کے خادم اور آباد کار ہیں۔ دوسری طرف جب وہ مسلمانوں کو دیکھتے تو اس وقت کے حالات میں ان کو ایسا معلوم ہوتا جیسے کچھ لوگ بس ایک دیوانہ کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔

مگر مشرکین کا یہ خیال سراسر باطل تھا۔ وہ ظواہر کا تقابل حقائق سے کرنے کی غلطی کر رہے تھے۔ مسجد حرام کے زائرین کو پانی پلانا، اس کے اندر روشنی اور صفائی کا انتظام۔ کعبہ پر غلاف چڑھا دینا۔ مسجد کے فرش اور دیوار کی مرمت، یہ سب ظاہری نمائش کی چیزیں ہیں۔ یہ بھلا ان اعمال کے برابر ہوسکتی ہیں جب کہ آدمی اللہ کو پا لیتا ہے اور آخرت کی فکر میں جینے لگتا ہے۔ وہ اپنی زندگی اور اپنے اثاثہ کو خد اکے حوالے کردیتا ہے۔ وہ دوسری تمام بڑائیوں کا انکار کر کے ایک خدا کو اپنا بڑا بنا لیتا ہے۔ سچائی کو پانے والے در اصل وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کو معافی کی سطح پر پایا ہو نہ کہ ظواہر کی سطح پر۔ جو قربانی کی حد تک سچائی سے تعلق رکھنے والے ہوں نہ کہ محض سطحی اور نمائشی کارروائیوں کی حد تک ۔

اللہ سے تعلق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تعلق وہ ہے جو رسمی عقیدہ کی حد تک ہوتا ہے، جس میں آدمی کچھ دکھاوے کے اعمال تو کرتا ہے مگر اپنے اور اپنے مال کو خدا کی راہ میں نہیں دیتا۔ دوسرا تعلق وہ ہے جب کہ آدمی اپنے ایمان میں اتنا سنجیدہ ہو کہ اس راہ میں اس کو جو کچھ چھوڑنا پڑے وہ اس کو چھوڑ دے اور جو چیز دینی پڑے اس کو دینے کے لیے تیار ہوجائے۔ یہی دوسری قسم کے بندے ہیں جو مرنے کے بعد خدا کے یہاں اعلی ترین انعامات سے نوازے جائیں گے ۔

آیت : 23۔ تا ۔24:۔ لوگوں کے لیے اپنا خاندان، اپنی جائداد، اپنے معاشی مفادات سب سے قیمتی ہوتے ہیں۔ انہیں چیزوں کو وہ سب سے زیاہ اہم سمجھتے ہیں۔ ہر دوسری چیز کے مقابلہ میں وہ ان کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنا سب کچھ ان کے اوپر نثار کردیتے ہیں۔ اس قسم کی زندگی دنیادارانہ زندگی ہے۔ ایسا آدمی جو کچھ پاتا ہے بس اسی دنیا میں پاتا ہے۔ موت کے بعد والی ابدی دنیا میں اس کے لیے کچھ نہیں۔ اس کے برعکس دوسری زندگی وہ ہے جب کہ آدمی اللہ اور رسول کو اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کو سب سے زیادہ اہمیت دے اور اس کی خاطر دوسری ہر چیز چھوڑنے کے لیے تیار رہے۔ یہی دوسری زندگی خدا پرستانہ زندگی ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لیے آخرت میں ابدی جنتوں کے دروازے کھولے جائیں گے ۔

ایک زندگی وہ ہے جو دنیوی تعلقات اور دنیوی مفادات کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ دوسری زندگی وہ ہے جو ایمان کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ دونوں میں سے جس چیز کو بھی آدمی اپنی زندگی کی بنیاد بنائے، وہ ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ اس کی خاطر دوسری چیزوں کو چھوڑ دے۔ وہ کچھ لوگوں سے تعلق قائم کرے اور کچھ دوسرے لوگوں سے بے تعلق ہوجائے۔ وہ کچھ چیزوں کی بقاء اور ترقی میں اپنی ساری توجہ لگادے اور کچھ دوسری چیزوں کی بقاء اور ترقی کے معاملہ میں بے پروا بنا رہے۔ کچھ نقصانات اس کو کسی قیمت پر گوارا نہ ہوں، وہ جان پر کھیل کر اور اپنا بہترین سرمایہ خرچ کرکے ان کو بچانے کی کوشش کرے اور کچھ دوسرے نقصانات کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ مگر ان کے بارے میں اس کے اندر کوئی تڑپ پیدا نہ ہو۔ دنیا ہمیشہ ان لوگوں کو ملتی ہے جو دنیا کی خاطر اپنا سب کچھ لگا دیں۔ اسی طرح آخرت صرف ان لوگوں کے حصہ میں آئے گی جو آخرت کی خاطر دوسری چیزوں کو قربان کردیں ۔

ترجیح (ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرنے کا معاملہ) انتہائی سنگین ہے۔ حتی کہ وہی آدمی کے کفر و ایمان کا فیصلہ کرتا ہے۔ خدا کی دنیا میں جس طرح کھلے کافروں کے لیے کامیابی مقدر نہیں ہے اسی طرح ان لوگوں کے لیے بھی یہاں کامیابی کا کوئی امکان نہیں جو ایمان کا دعوی کریں اور جب نازک موقع آئے تو وہ آخرت پسندانہ روش کے مقابلہ میں دنیا دارانہ روش کو ترجیح دیں۔ ایسے مدعیان ایمان اگر اپنے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہوں تو ان کو اس وقت معلوم ہوجائے گا جب اللہ اپنا فیصلہ ظاہر کردے گا ۔

آیت : 25۔ تا ۔28:۔ مسلمانوں کا غلبہ کافروں کو ان کے کفر کی سزا کا اگلا نتیجہ ہے۔ مگر کافروں کا کفر مسلمانوں کے اسلام کی نسبت سے متحقق ہوتا ہے۔ اگر مسلمان اپنی اسلامیت کھو دیں تو کافروں کا کفر کس چیز کے مقابلہ میں ثابت ہوگا اور کس بنیاد پر خدا وہ تفریقی معاملہ کرے گا جو ایک کے لیے انعام بنے اور دوسرے کے لیے سزا۔

رمضان 8 ھ میں مسلمانوں نے قریش کو کامیاب طور پر مغلوب کرکے مکہ کو فتح کیا۔ مگر اگلے ہی مہینہ شوال 8 ھ میں ان کو ہوازن و ثقیف کے مشرک قبائل کے مقابلہ میں شکست ہوئی، جب کہ فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی اور ہوازن و ثقیف سے مقابلہ کے وقت بارہ ہزار۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش سے مقابلہ کے وقت مسلمان صرف اللہ کے بھروسے پر نکلے تھے۔ مگر ہوازن و ثقیف کے مقابلہ پر نکلتے ہوئے انہٰں یہ ناز ہوگیا کہ اب تو ہم فاتح مکہ ہیں۔ ہمارے ساتھ بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر ہے، آج ہم کو کون شکست دے سکتا ہے۔ جب وہ خد اکے اعتماد پر تھے تو انہیں کامیابی ہوئی، جب ان کو اپنی ذات پر اعتماد ہوگیا تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔

اپنی ذات پر بھروسہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا جذبہ ابھارتا ہے جس کے نتیجہ میں خارجی حقیقتوں سے بے پروائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ نظم کی پابندی میں کوتاہ ہوجاتا ہے۔ وہ بے جا خود اعتمادی کی وجہ سے غیر حقیقت پسندانہ اقدام کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ اس عالم اسباب میں لازمی شکست ہے۔ اس کے برعکس خدا پر بھروسہ سب سے بڑی طاقت پر بھروسہ ہے۔ اس سے آدمی کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ انتہائی حقیقت پسند بن جاتا ہے۔ اور حقیقت پسندی بلاشبہ تمام کامیابیوں کی جڑ ہے ۔

ابتداء جب یہ حکم آیا کہ حرم میں مشرکوں کا داخل بند کردو تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی کیونکہ غیر زرعی ملک ہونے کی وجہ سے عرب کی اقتصادیات کا انحصار تجارت پر تھا اور تجارت کی بنیاد ہمیشہ مشترکہ تعلقات پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے سوچا کہ جب حرم میں مشرکین کا آنا بند ہوگا تو ان کے ساتھ تجارتی رشتے بھی ٹوٹ جائیں گے۔ مگر ان کی نظر اس امکان پر نہیں گئی کہ آج کل کے مشرک کل کے مسلمان ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ یہی ہوا۔ عربوں کے عمومی طور پر اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں دوبارہ نئی صورت سے بحال ہوگئیں۔ نیز اس ابتدائی قربانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر اسلام ایک بین الاقوامی دین بن گیا۔ جو معاشی دروازے مقام سطح پر بند ہوتے نظر آتے تھے وہ عالمی سطح پر کھل گئے ۔(جاری )