قوم نوحؑ کے معبودوں میں سے یہاں ان معبودوں کے نام لیے گئے ہیں جنہیں بعد میں اہل عرب نے بھی پوجنا شروع کر دیا تھا اور آغاز اسلام کے وقت عرب میں جگہ جگہ ان کے مندر بنے ہوئے تھے۔ بعید نہیں کہ طوفان میں جو لوگ بچ گئے تھے ان کی زبان سے بعد کی نسلوں نے قوم نوحؑ کے قدیم معبودوں کا ذکر سنا ہو گا اور جب از سر نو ان کی اولاد میں جاہلیت پھیلی ہو گی تو انہی معبودوں کے بت بنا کر انہوں نے پھر ا نہیں پوجنا شروع کر دیا ہو گا۔
ود قبیلہ قضاعہ کی شاخ بنی کلب بن وبرہ کا معبود تھا جس کا استھان انہوں نے دومتہ الجندل میں بنا رکھا تھا۔ عرب کے قدیم کتبات میں ان کا نام ودم ابم (ود باپو) لکھا ہوا ملتا ہے۔ کلبی کا بیان ہے کہ اس کا بہت ایک نہایت عظیم الجثہ مرد کی شکل کا بنا ہوا تھا۔ پریش کے لوگ بھی اس کو معبود مانتے تھے اور اس کا نام ان کے ہاں ود تھا۔ اسی کے نام پر تاریخ میں ایک شخص کا نام عبد ود ملتا ہے۔
سواع قبیلہ ہذیل کی ویوی تھی اور اس کا بت عورت کی شکل کا بنایا گیا تھا۔ ینبوع کے قریب رہاط کے مقام پر اس کا مندر واقع تھا۔
یغوث قبیلہ طے کی شاخ انعم اور قبیلہ مذحج کی بعض شاخوں کا معبود تھا۔ مذحج والوں نے یمن اور حجاز کے درمیان جرش کے مقام پر اس کا بت نصب کر رکھا تھا جس کی شکل شیر کی تھی۔ قریش کے لوگوں بھی بھی بعض کا نام عبد یغوث ملتا ہے۔
یعوق یمن کے علاہ ہمدان میں قبیلہ ہمدان کی شاخ خیوان کا معبود تھا اور اس کا بت گھوڑے کی شکل کا تھا۔
نسر حمیر کے علاقے میں قبیلہ حمیر کی شاخ آل ذوالکلاع کا معبود تھا اور بلخع کے م قام پر اس کا بت نصب تھا جس کی شکل گدھ کی تھی۔ سبا کے قدیم کتبوں میں اس کا نام نسور لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس کے مندر کو وہ لوگ بیت نسور ۔ اور اس کے بجاریوں کو ا ہل نسور کہتے تھے۔ قدیم مندروں کے جو آثار عرب اور اس کے متصل علاقوں میں پائے جاتے ہیں ان میں سے بہت سے مندروں کے دروازوں پر گدھ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔