بنی اسرائیل اور دعوت قرآن - ابوالبشر احمد طیب

بنی اسرائیل اور دعوت قرآن
بنی اسرائیل ایک قومی و نسلی اصطلاح ہے ۔ اسرائیل حضرت یعقوب کا لقب ہے ، جو اسحاق ؑ کے بیٹے اور ابراہیم ؑ کے پوتے تھے ۔ اسرائیل کے معنی ہیں بندۂ خدا ۔ بنی کے معنی اولاد ، نسل ہیں ۔ حضرت یعقوب ؑ کے بارہ بیٹے تھے، انہی کی اولاد اور نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں ۔ قرآن میں اسی نام سے اس قوم کا تذکرہ ملتا ہے ۔ البتہ یہ لوگ مذہبی حیثیت سے یہودی یا اہل کتاب تھے ۔ قرآن میں ان کا ذکر دیگر اقوام کے مقابلےمیں سب سے زیادہ تکرار و تفصیل سے آیا ہے ۔ تقریبا حضرت یوسفؑ کے دور سے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی بعثت تک سلسلہ نبوت ان میں جاری رہا ۔ اس سلسلہ میں کوئی قوم ان کی برابری کا دعوی نہیں کرسکتی ۔ لیکن جو کوئی بنی اسرائیل کا تذکرہ قرآن مجیدمیں پڑھتا ہے وہ حیران رہ جاتاہےکہ باری تعالی نے اس قوم کو کن کن نعمتوں اور فضیلتوں سے نواز، مثلا کئی جگہ ارشاد ہوا کہ " میں نے تمہیں دنیا جہاں والوں پر فضیلت دی ہے ۔ " (بقرہ : 47) لیکن اس کے باجود وہ کس مکارانہ انداز میں بار بار حق کا انکار کرتی رہے ۔ 


بنی اسرائیل کے تاریخی واقعات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک عجیب طرح کا تلون پایاجاتا ہے۔ سرکشی ، احسان فراموشی ، فساد انگیزی ، اور بغض و حسد ان کا قومی مزاج تھا ۔ غالبا یہ مزاج مصر میں صدیوں غلامانہ زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہوگا ۔ اللہ تعالی نے ان کی اصلاح کے لیے مختلف انبیاء ، رسولوں اور بادشاہوں کا انتخاب فرمایا ۔ انہوں نے اپنی قوم کی اصلاح کے لیے سخت سے سخت مصائب کو برداشت کیا ۔ خاص کر ان کے جلیل القدر، اولوالعزم رسول حضرت موسیؑ کلیم اللہ و اور ان کے آخری نبی حضرت عیسی ؑ روح اللہ نے تورات وانجیل کے علاوہ بڑی کثرت سے آیات اللہ (معجزات ) کا مظاہرہ کیا ۔ تاکہ ان کے تلون مزاجی میں اعتدال پیدا ہو ۔ قبول حق اور استقامت کی استعداد و صلاحیت پیدا ہو ۔ 


قرآن مجید میں کئی جگہ پر ان نعمتوں اور فضیلتوں کا ذکر موجود ہے جو ان کو ملی تھیں ۔ مثلا سورہ بقرہ کی آیت 47 میں ذکر ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو دنیا کی سیادت و امامت عطافرمائی ۔ پھر سورہ مائدہ کی آیت 7میں اس معاہدہ شریعت کا ذکر ہے جس کی پابندی پر اللہ نے ان سے خصوصی انعام و اکرام کا وعدہ کیا اور دنیا و آخرت کی فوز و فلاح کی ضمانت دی ۔ اسی سورۃ کی آیت 20 میں ان کو یاد دلایا کہ اللہ نے ان کے لیے جلیل القدر انبیاء اور بادشاہ مقرر کئے ۔ مگر بنی اسرائیل ان تمام نعمتوں اور فضیلتوں کی ناقدری اور ناشکری کرتے رہے ۔ ان فضیلتوں کو انہوں نے اپنی نسلی اہلیت و قومی استحقاق سمجھ لیا تھا ۔ 

 قرآن مجید میں اس عہد کا بھی ذکر ہے جو بنی اسرائیل سے خاتم النبیین کے متعلق لیا گیا تھا ۔ جس کا ذکر توراۃ میں بھی ہے ۔ ( کتاب استثنا: 15-19) اور قرآن مجید میں بھی ( سورۃ الاعراف : 156-157) وہ آخری نبی پر اس لیے ایمان لا نے پر خوف زدہ تھے کہ کہیں ان کی دنیاوی اور مذہبی سیادت و ریاست ختم نہ ہوجائے اس سے عرب کے امیوں کو ان پر فضیلت حاصل ہوجائے گی ۔ اور اس نام نہاد قیادت سےجو فوائد عوام سے حاصل کر رہے تھےان کے دروازے بند ہوجائیں گے ۔ خاص کر علماء بنی اسرائیل اس لیے خوف زدہ تھے کہ اگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو ان کے عقیدت مند وں کا ہجوم ان سے منتشر ہوجائےگا اوران کی مالی منفعت جو انہیں حاصل ہورہی تھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی ۔ قرآن نے ان کے اس غلط رویہ کا پردہ چاک کیا ۔ ( بقرہ : 41) 

قرآن نے مدینہ میں موجود یہودی اہل کتاب  اور دیگر بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے اعلان کیا کہ یہ تمہارے اس عہد کی تصدیق کررہا ہے ۔ جو تمہارے پاس ہے ۔ قرآن مجید اس پیشن گوئی کو سچی ثابت کررہا ہے ۔ جو توراۃ میں آخری نبی کی بعثت سے متعلق ہے ۔ اس لیے قرآن نے ان سے مطالبہ کیا کہ " وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ"  (بقرۃ : 41)  سب سے پہلے اس کے انکار کرنے والے نہ بنو " مفسرین نے اس آیت میں کفر سے کفران حق اور کفران نعمت دونوں معانی مراد لیے ہیں ۔ کیونکہ قرآن پر ایمان لانے کا ان سے عہد لیا جا چکاتھا اس وجہ سے اس کا حق ہونا ان پر اچھی طرح واضح تھا ۔ اس بناپر یہ ایک عظیم حق کا انکار ہوا ۔ پھر قرآن مجید ان کے لیے ایک عظیم نعمت بن کر نازل ہواتھا ۔ اس پر ایمان لانے کی صورت میں اللہ کی طرف سے ان کے لیے ابدی نعمتوں کے وعدے تھے ۔ اس وجہ سے اس سے اعراض درحقیقت ایک بہت بڑا کفران نعمت بھی ہے ۔ 


غرض قرآن میں  بنی اسرائیل کو دعوت دی گئی کہ ان معاہدوں کا تقاضا پوراکرتے ہوئے وہ اللہ کی نازل کردہ کتاب قرآن پر ایمان لائیں ۔ جو ان کی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے ۔ وہ اس کے انکار میں جلدبازی سے کام نہ لیں ۔ حقیقت میں قرآن کی دعوت کوئی نئی دعوت نہیں تھی بلکہ وہی لازوال دین کی دعوت ہے جو ہمیشہ اللہ کی جانب سے انبیاء لیکر آتے رہے ۔ یہ سلسلہ دعوت دراصل انسان کو اس عہد الست سے ملاتا ہے جو انسانیت نے خدائے جل جلال کے بارگاہ میں اس سے کرچکا ہے ۔ گویا یہ قرآن پوری انسانیت کو ایک لڑی میں پروتا ہے ۔ انہیں باہم بھائی بھائی قرار دیتا ہے ۔ وہ انسانیت کو مختلف گروہوں ، جماعتوں ، نسلوں اور اقوام کی صورت میں تقسیم نہیں کرتا ابلکہ ان سب کو اللہ کے ایسے بندوں کی صورت میں منظم کرتا ہے جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے جو رسی ناقابل انفصال ہے ۔