جدید لسانیات اور فہم قرآن - ابوالبشر احمد طیب

فہم قرآن کے لیے لسانیاتِ قرآن کا مطالعہ بہت اہم بھی ہے اور نازک بھی ، دور حاضر میں جدید لسانیات نے " نص " ( متن) کے مطالعہ سے متعلق بہت سے گوشے سامنے لائے ہیں ۔

مغربی ماہرین لسانیات و ادبیات سے ہمارے شعراء و ادباء کی طرح ہمارے کچھ مفسرین بھی متاثر ہوئے ، انہوں نے انہیں کے وضع کردہ اصول و ضوابط کی روشنی میں قرآنی لسانیات و ادبیات کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، اس فہرست میں بر صغیر کا مشہور نام غلام احمد پرویز ہے ، انہوں نے صرف عربی لغت کے ذریعہ قرآن کے معانی و مطالب بیان کرنے کی ناکام کو شش کی تھی، اسی طرح مکتبہ فراہی کے کچھ طالب علموں نے لسانیات کے جدید نظریات " ساختیات" اور "پس ساختیات" کو لسانیات قرآن پر اطلاق کرنے کو شش کی ہے۔ 

درحقیقت ،انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب میں وسیع پیمانہ پر لسانیات پر تحقیق ہوئی ان میں سے بعض ماہرین نے جدید اصول لسانیات کی روشنی میں انجیل اور دیگر قدیم مذہبی کتب کے متن کا مطالعہ کیاتھا ، ان کے طریقہ کار کو بعض مسلم علماء نے قرآن پر اطلاق کرنے کی کوشش کی تھی ، بر صغیر میں مولانا حمید الدین فراہی ؒ انہیں علماء میں سے ایک ہے، وہ جدید لسانیات و ادبیات سے متاثر تھے ، انہوں نے جدید لسانیات پر مصری علماء کی کتب کا مطالعہ کیا تھا ، جو فرانسیسی انگریزی اور جرمن زبان سے ترجمہ ہوکر عربی میں منتقل ہوئی تھیں۔


خاکسار عربی زبان وادب کا ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے یہ جانتا ہے کہ ہر زبان کا ایک خاص مزاج اور اسلوب ہے اور قرآن عربی " مبین " میں ہے ، اس کا خیال رکھے بغیر قرآنی متن کا مطالعہ ایک فعل عبث ہے ۔ اور یہ بھی ہے کہ قرآن کا متن ایک منفرد اور مقدس حیثیت رکھتا ہے اس کو انسانی کلام اور اس کی خصوصیات کی روشنی میں مطالعہ کرنا درست نہیں۔ 


قرآنی متن کے مطالعہ کے لیے ہمارے آئمہ کرام نے اہم اصول و ضوابط وضع کردئے ہیں ان کو بھی نظر میں رکھنا لازمی ہے ۔ ان کو نظر انداز کرکے صرف جدید لسانیات کی روشنی میں قرآنی متن کا مطالعہ خطرے سے خالی نہیں، اس سے قرآن کے تقدس اور اس کی صداقت پر بھی سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ 


اس اہم مسئلہ کے بارے میں ہمارے علماء کرام اور ماہرین قرآن کو تحقیق کرنا چاہیئے کہ مغربی لسانیات و ادبیات کے ماہرین کے وضع کردہ اصول و ضوابط کی روشنی میں قرآن کے متن کا تجزیہ اور اس کی تفہیم و تشریح کس حد تک درست ہے ؟