قرآن مجید پر تاریخی اعتراضات - علامہ سید سلیمان ندوی

آزر (کی تاریخی حیثت )

آج مدارس اور خانقاہوں میں غوغا ہے کہ سائنس نے مذہب کے ایوان میں تزلزل ڈال دیا ہے، لیکن شاید یہ خبر نہ ہو کہ نہ صرف سائنس اور علوم عقلی کی موجوں نے زدرق ایمان کو تلاطم میں مبتلا کر رکھا ہے، بلکہ یورپ کا ہر علم و فن منافع عامہ کے ساتھ کچھ نہ کچھ اپنی تہ میں زہر کی آمیزش ضرور رکھتا ہے۔ تاریخ اب سے پہلے ایک معصوم علم تھا، لیکن اب وہ ہر قسم کے جرائم کا مجموعہ ہو گئی ہے۔
قرآن مجید پر تاریخی اعتراضات - علامہ سید سلیمان ندوی ؒ 

تاریخ کی اب دو قسمیں ہو گئی ہیں: جدید تاریخ (ماڈرن ہسٹری) اور قدیم تاریخ (انیشنٹ ہسٹری)۔ قرآن مجید میں جن اشخاص اور قوموں کا ذکر ہے، ان کا تعلق زیادہ تر دنیا کی قدیم تاریخ سے ہے۔ قدیم تاریخ کا ابتدائی حصہ عموماً افسانہ مذہبی (میتھالوجی) سمجھا جاتا ہے۔ قرآن میں قوم نوح، عاد، ثمود کے متعلق جو واقعات عبرت انگیز مذکور ہیں، عموماً اب ان کو یورپین علماے تاریخ میتھالوجی اور افسانہ کہن سمجھتے ہیں۔ ہم نے اس موضوع پر ’’ارض القرآن‘‘ کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں بدلائل تاریخ و آثار اقوام کی حقیقت و اصلیت اور قرآن میں ان کے متعلق جو کچھ مذکور ہے، یورپ کے مسلم تحقیقات اور علم الآثار سے اس کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔

اس مضمون میں اسی قسم کے ایک اور سلسلۂ اعتراضات کی طرف ہم کو توجہ کرنا ہے، یورپ کے علماے مشرقیات اور مسیحیت کے حامیان دین نے قرآن مجید کے متعلق ایک عجیب و غریب اصول موضوعہ بنا لیا ہے جن کے مطابق قرآن مجید کا کوئی نقطہ بھی اپنی جگہ پر صحیح نہیں، اصول مذکورہ یہ ہے کہ قرآن کا ہر واقعہ تاریخی یا تو کسی دوسری مذہبی کتاب میں مذکور ہے یا وہ اس سے خاموش ہے۔ صورت اول میں قرآن کا سرقہ ثابت اور وہ حکایت اس سے ماخوذ اور اگر وہ بدقسمتی سے تنہا قرآن کی روایت ہو تو وہ افسانہ محض اور میتھالوجی، لیکن اس اصول کے مطابق تو دنیا کی کوئی مذہبی تاریخ حملۂ ایراد سے محفوظ نہیں۔


نہ منِ   دل  زدہ   ازدستِ تو   خونیں   جگرم

از غمِ عشقِ تو پُر خوں جگرے نیست کہ نیست۱؂

ان ہی اصناف اعتراضات میں سے قرآن مجید کی تاریخی غلطیوں (نعوذ باللہ) کا مسئلہ بھی ہے، ان غلطیوں کا مدار زیادہ تر چند ناموں کا تورات و انجیل اور قرآن میں اختلاف ہے۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ ان اختلافات کے موقع پر تورات و انجیل کو صحت کا معیار قرار دیا گیا ہے، حالاں کہ تاریخ جس بلند آہنگی سے اس دعویٰ کی تکذیب کرتی ہے، شاید کسی اور صحیفۂ آسمانی کو وہ عزت نصیب نہ ہو۔ بہرحال حریف کے مسلمات کو مان کر بھی کیا اسلام کی صف دفاعی میں ان لوگوں سے کوئی رخنہ پڑ سکتا ہے۔

قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے باپ کا نام آزر مذکور ہے:

اِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ.(الانعام ۶: ۷۴)
’’ابراہیم نے جب اپنے باپ آزر سے کہا۔‘‘

بائیبل میں تارح اور ترح مذکور ہے۔ اس اختلاف نے بہت سے علمی جاہلوں کے لیے اعتراض کا موقع پیدا کر دیا ہے۔ سب سے اول یہ جاننا چاہیے کہ تورات اور قرآن میں کم از کم دو ہزار برس کا فصل ہے۔ اصل تورات کی زبان عبری تھی۔ یہودیوں کے سیاسی انقلابات کے ساتھ ان کے مذہب کی زبان بھی بدلتی رہی۔ موجودہ عبرانی تورات اصل عبری نہیں، آرامی یا یونانی کا ترجمہ ہے۔ ان حالات کے ساتھ اس فصل زمانہ کے باوجود اس اختلاف السنہ کے الٹ پھیر میں اگر نام مختلف قوموں اور زبانوں میں کچھ سے کچھ ہو جائیں، تو کیا کوئی محل اعتراض ہے؟ انگریزی بائیبل کے ناموں کا تلفظ بالکل یونانی اور لاطینی ہے، جو اصل عبرانی سے بمراحل دور ہے، لیکن کیا یہ اختلاف حرف گیری کا مرکز بن سکتا ہے؟

حکماے اسلام پر ابھی دس صدیاں بھی نہیں گزری ہیں، عربی تصنیفات کے تراجم کے ذریعہ سے ان کا نام مدت تک یورپ کے ایک ایک طالب العلم کی زبان پر رہا ہے، ابوعلی بن سینا، ابوالقاسم زہراوی، ابن رشد، ابن ھیثم کو ہم سب جانتے ہیں، لیکن اوسنا، البقاسیس اورس، الہزین کو ہم میں سے کون جاتا ہے؟ اور یہ کون تسلیم کرے گا کہ یہ مشرقی فلاسفر کے عربی نام ہیں۔

مسیح یورپ کا خدا ہے، تاہم اس کا جو نام یورپ کی زبانوں میں مستعمل ہے۔ وہ اصل سے کہاں تک مطابق ہے، اصل عبری نام یہشوع ہے، جو مخفف ہو کر ’’یشوع‘‘ ہو گیا ہے، یونانی میں یونانی طریق تلفظ پر ’’جیسیوس‘‘ ہو گیا، لاطینی میں یہ صرف ’’جینرس‘‘ رہ گیا، اور اب تمام یورپ میں یہی حضرت مسیح کا نام ہے، اکبر کے زمانہ میں جب پرتگالی پادریوں نے انجیل کا فارسی میں ترجمہ کیا تو جینرس ژژد ہو گیا:

اے نامِ تو ژژد کر ستو۲؂

یہ مغربی انقلابات ہیں۔ عرب میں یہی نام عیسیٰ کی شکل میں بدل گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یسوع، جیسیوس، جینرس، ژژد اور پھر عیسیٰ کیا ایک ہی چیز ہے، اور ایک ہی شخصیت کے نام ہیں؟ مسیح کے استاد کا نام عبرانی میں یحنا، لاطینی میں جان اور عربی میں یحییٰ ہے، کیا یحییٰ، یوحنا اور جان تین چیزیں ہیں؟ اسی طرح تمام عبرانی پیغمبروں کے ناموں کا مختلف زبانوں میں یہی حال ہے۔

اس اعتراض سے ہمارے مفسرین بھی واقف تھے، امام طبری، قاضی بیضاوی، زمخشری اور رازی نے اس کے مختلف جوابات دیے ہیں، ان جوابات کا تمام تر دار و مدار سدّی اور مجاہد کے اقوال ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ آزر، حضرت ابراہیم کے باپ تارح کا دوسرا نام تھا، جس طرح حضرت یعقوب کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔

۲۔ آزر تارح کا نام نہیں لقب یا وصف تھا۔

۳۔ آزر، تارح کے بت کا نام تھا۔

ان جوابات کا دوسرا اور تیسرا نمبر تقریباً صحیح ہے۔ تارح بابل کا باشندہ تھا، ایرانی مذہب، ایرانی زبان، ایرانی حکومت اسی بابل کی یادگار ہے، اور خود اہل عجم کو اس کا دعویٰ ہے۔ آزر قدیم ایرانی زبان میں آگ کو کہتے ہیں۔ آگ ستارۂ مریخ کا مظہر ہے، اس بنا پر مریخ کو بھی آزر کہتے ہیں۔ آگ اور ستارۂ مریخ ایرانیوں کا مسجود ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بابل کے قدیم بت پرستوں میں بھی اس کی پرستش جاری ہو گی، اور اسی سے منتقل ہو کر آذر گسسپ ایک فرشتہ موکل کا نام قرار پایا۔ عجب نہیں، اگر قدیم بابل میں موبد یعنی پرستار آتش خانہ کا آزر کے انتساب سے کوئی نام یا لقب قرار پایا ہو اور عربی میں آکر وہ صرف آزر رہ گیا ہو۔

بہرحال یہ قیاس ہے، اب اس کے متعلق ایک اور تازہ تحقیق پیش نظر ہے، اصل عبرانی تورات میں یہ نام ’’ترح‘‘ ہے، ترگوم تورات کے آرامی ترجمہ میں تارح اور تاراح ہے۔ ’’تالمود‘‘ میں جو یہودیوں کے ہاں حدیث کا درجہ رکھتی ہے، زاراح ۳؂ ہے۔ بائیبل کا ایک نہایت قدیم ترجمہ عربی میں اصل عبرانی سے پندرھویں صدی میں رومہ میں ہوا تھا، اس کے بعد وہی ترجمہ دوبارہ انگلینڈ سے شائع ہوا، اس ترجمہ میں لوقا کی انجیل میں (نسب نامہ مسیح) زارا ہے۔ ہر زبان میں اجنبی الفاظ کو اپنے ذخیرۂ لغت میں ضم کرنے کے لیے اس کو صورۃً اور وزناً اپنے الفاظ کے مطابق کرنا پڑتا ہے، اسی کا نام تعریب و تفریس وغیرہ ہے۔ اردو میں انگریزی کے سیکڑوں الفاظ مستعمل ہیں، ان میں سے کن میں اب انگریزی لب و لہجہ باقی ہے۔ عربی زبان میں فارسی، یونانی، لاطینی وغیرہ کے ہزاروں الفاظ آ کر مل گئے ہیں، مگر اس اختلاط اور دفع بے گانگی کے لیے اپنی اصلی ہیئت چھوڑ کر ان کو پہلے ٹھیٹھ عرب بن جانا پڑا ہے۔ موسیٰ دراصل موشے ہے، عیسیٰ یشوع ہے، یحییٰ یوحنا ہے، ایوب اوب ہے، یونس یوناہ ہے، اسی طرح زاراح اور زارا عربی وزن و تلفظ میں آزر ہو گیا ہے۔

آزر کے متعلق قرآن مجید میں مذکور ہے کہ وہ بت پرست تھا۔ تفسیروں میں ہے کہ بت تراشی اس کا پیشہ تھا۔ حضرت ابراہیم نے جس بت خانہ کو ویران کیا تھا، وہ خود آزر کا تھا، لیکن تورات کی سفر تکوین میں بلکہ موسیٰ کے پانچوں کتابوں میں سے کسی میں بھی، جہاں آزر کا ذکر ہے، ان واقعات کا مطلق ذکر نہیں، اس بنا پر کوتاہ نظروں کے لیے اعتراض کا موقع ہے۔

سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن مجید میں صرف اسی قدر مذکور ہے کہ آزر اور آزر کا خاندان بت پرست تھا۔ آزر کی بت تراشی کا ذکر قرآن میں مطلق نہیں ہے، اس واقعہ کے متعلق قرآن کی حسب ذیل آیتیں ہیں:
اِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِھَۃً.(الانعام۶: ۷۴)
’’جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ کیا تم بتوں کو خد اٹھہراتے ہو۔‘‘

اس آیت میں صرف آزر کا ذکر ہے، لیکن دوسری آیتوں میں خاندان کا ذکر بھی ہے:
اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَہَا عٰکِفُوْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۵۲)
’’جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا: کیا یہ مورتیں ہیں جن کو تم گھیرے بیٹھے رہتے ہو۔‘‘

ایک اور آیت میں یہ تصریح ہے:
وَاِبْرٰہِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ ذٰلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ، اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا.(العنکبوت ۲۹: ۱۶۔۱۷)
’’اور ابراہیم جب اس نے اپنی قوم سے کہا: خدا کو پوجو، اور اس سے ڈرا کرو،اگر تم کو علم ہو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے، تم خدا کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہو، اور جھوٹی بات گھڑتے ہو۔‘‘

اس امر کا ثبوت کہ آزر اور آزر کی قوم بت پرست تھی، دو طریقہ سے بہم پہنچایا جا سکتا ہے، تورات کے دو سرے صحیفوں میں جو معترضین کے نزدیک صحت ہیں، موسیٰ کی پانچ کتابوں کے برابر ہے، اور بائیبل یعنی کتب الٰہی کا جزء ہے، مذکور ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جس ملک میں یہ سکونت پذیر تھے، وہاں کی مذہبی تاریخ سند میں پیش کی جائے۔

آزر کا خاندان نہر (فرات) پار (یشوع ۲۴۔۲) کلدانیوں کے ملک (اور کسدیم) میں رہتا تھا (تکوین ۱۱۔۱)۔ کلدانی ستارہ پرست تھے، ستاروں کے نام کا ہیکل بناتے تھے، ان میں ستاروں کے خیالی بت نصب کرتے تھے، ان پر نذریں چڑھائی جاتی تھیں، قربانیاں کی جاتی تھیں۔ دانیال کے زمانہ میں جو غالباً مسیح سے چھ سو برس پہلے تھے، اور جب کلدانیوں میں نبو خرنذر (بخت نصر) کا خاندان فرماں روا تھا، اسی قسم کی پرستش جاری تھی، سونے کے بت ہوتے تھے، ان کو لوگ سجدہ کرتے تھے (دانیال ۳۔۱۱)۔ علم الآثار کی روشنی نے اس ملک کے تمام مذہبی رسوم، بتوں کے نام، پرستش گاہیں، ایک ایک چیز آئینہ کر دی ہے، جس کو زیادہ تفصیل منظور ہو، وہ انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس میں لفظ ببلو نیا (بابل) دیکھے۔

حران و بابل میں اور خود اسی خاندان میں حضرت ابراہیم کے بعد بھی بت پرستی کا اس قدر رواج تھا کہ حضرت ابراہیم کے بھائی کا گھرانا بت پوجتا تھا۔ حضرت یعقوب جو حضرت ابراہیم کی دوسری پشت میں تھے، یعنی پوتے تھے، جب کنعان (شام) کے ملک سے حران (بابل) میں اپنے خاندان میں اپنے ماموں کی لڑکی سے بیاہ کرنے گئے تو یہ بت ایسی نادر چیز تھی کہ صاحبزادی جب بیاہ کر گھر سے رخصت ہوئیں تو باپ کے بت بھی چپکے سے چرا لائیں (تکوین ۳۱۔۳۳۔۳۴)۔ ایسی بیش قیمت چیز کے ہاتھ سے چلے جانے پر باپ سے صبر نہ ہو سکا، بیٹی اور داماد کے تعاقب میں گہار لے کر دوڑے، آخر صلح ہوئی، حضرت یعقوب کو بیت ایل کے قریب پہنچ کر جب ان بتوں کا حال معلوم ہوا تو ان سب کو خیمہ کے باہر پھنکوا دیا (تکوین ۳۵۔۲)۔

اب ان دور دور کے استدلالات کو چھوڑ کر، ہم خود تورات کے اس سفر کا حوالہ دیتے ہیں، جو حضرت موسیٰ کے خلیفۂ اول یوشع کا نتیجۂ الہام ہے۔ حضرت موسیٰ کے وفات کے بعد سکیم کے مقام میں بنی اسرائیل کے سامنے جو سب سے پہلا خطبۂ خلافت انھوں نے دیا ہے، اس میں وہ کہتے ہیں:
’’تمھارے باپ دادے تارح (آزر) ابراہیم کا باپ اور ناخور (حضرت ابراہیم کے دادا کا نام) قدیم زمانہ میں نہر (فرات) کے پار رہتے تھے، اور غیر معبودوں کی بندگی کرتے تھے۔‘‘ (۲۴۔۲)

کیا ہمارے دوستوں کو اس مقدمہ میں اس سے بھی واضح تر شہادت مطلوب ہے۔ تفسیر کی کتابوں میں آزر کے متعلق مذکور ہے کہ وہ بت بنا کر بیچا کرتا تھا، ایک دفعہ وہ حضرت ابراہیم کو دکان میں بٹھا کر کسی ضرورت سے باہر گیا، اتنے میں ایک گاہک آیا، حضرت ابراہیم نے اس کو توحید کی دعوت دی، اور بت پرستی کے معائب بیان کیے، اور دکان میں جتنے بت اور دیوتاؤں کے مجسمے بنے ہوئے رکھے تھے، سب توڑ پھوڑ کر رکھ دیے۔ یہ واقعہ اس سے بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ ’’تالمود‘‘ میں مذکور ہے۔ قرآن مجید میں صرف حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا ذکر ہے، ’’تالمود‘‘ کی تفصیل جزئیات سے وہ خالی ہے، اور اس لیے ہم کو اس کے لیے مزید ثبوت پہنچانے کی ضرورت نہیں۔
مریم بنت عمران، اخت ہارون

مریم، قرآن مجید کے دیگر مقدس ناموں کی طرح، عبرانی زبان کا لفظ ہے، اس کے لغوی معنی ’’ستارہ بحر‘‘ کے ہیں۔ بائیبل میں یہ دو عورتوں کا نام ہے، حضرت موسیٰ اور ہارون بن عمران کی بہن کا نام بھی مریم تھا، اور حضرت عیسیٰ کی ماں کا نام بھی مریم ہے۔ پرستاران مریم کا بیان ہے کہ قرآن نے ان دونوں شخصیتوں کو ایک سمجھ کر دونوں کے نام و نسب باہم مختلط کر دیے ہیں۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ کی ماں مریم کو عمران کی بیٹی اور ہارون کی بہن قرار دیا ہے، جیسا کہ اس کی حسب ذیل آیتیں ظاہر کرتی ہیں:
مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا.(التحریم ۶۶: ۱۲)
’’عمران کی بیٹی مریم جو پاک دامن اور عفیف تھی۔‘‘
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا.(آل عمران۳: ۳۵)
’’عمران کی بیوی نے جب کہا کہ جو کچھ میرے شکم میں ہے، میں خدا کے نام پر اس کو چڑھاتی ہوں۔‘‘
یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا.(مریم ۱۹: ۲۸)
’’اے ہارون کی بہن، تیرا باپ برا اور تیری ماں بدکردار تو نہ تھی۔‘‘

تحقیقی جواب تو الگ ہے، لیکن ہم اپنے معترضین سے دست بستہ عرض کریں گے کہ خدارا جو جی چاہے، کہیے مگر اسلام پر ’’دو کو ایک اور ایک کو دو۔‘‘ کہنے کا الزام تو نہ قائم کیجیے، اس لاینحل فلسفۂ اعداد کو اپنے ہی تک محدود رکھیے، تو بہتر ہے۔ مورخین اسلام میں ایک مصنف کا نام حمزہ ہے، جس کی تاریخ ملوک الارض ہے، یورپ کا مایۂ ناز مشرقی محقق دی ہاربیلاٹ جانتے ہو، اس کو کیا سمجھتا ہے، حمزہ ابن عبدالمطلب سید الشہداء۔

بہر سوئے متاعِ عقل و دانش ابتر افتاد است

بہ غارت برد باز آں چشم پُر فن کار دانے را۴؂

ہم کو یہ تسلیم ہے کہ حضرت موسیٰ اور ہارون کی بہن کا نام بھی مریم تھا، اورا ن کے باپ کا نام عمران (عبری عمرا ۵؂م) تھا، لیکن یہ کیوں کر معلوم ہو سکا کہ حضرت مسیح کی ماں مریم کے باپ کا نام عمران اور ان کے بھائی کا نام ہارون نہ تھا؟ حضرت مریم کے خاندانی حالات کے متعلق انجیلوں میں ایک حرف مذکور نہیں، ۶؂ ان کے متعلق صرف اسی قدر معلوم ہے، کہ ’’وہ خداوند کی ماں‘‘ تھیں۔ پھر وہ کون سی شہادتیں ہیں جن کی بنا پر قرآن مجید کے دعوے کی تردید کی جاتی ہے، اگر مسیح سے ۳۰۰ برس پہلے ایک مقدونیہ کا الگزنڈر تھا، جس کے باپ کا نام فلیپ تھا، تو کیا اس واقعہ سے اس کی تکذیب کرنا چاہتے ہو کہ بیسویں صدی کے لندن میں اب کوئی الگزنڈر نامی شخص ایسا نہیں ہو سکتا، جس کے باپ کا نام فلیپ ہو؟ تاریخ میں ایسے بیسیوں خاندانوں کا ہم پتا دے سکتے ہیں جو گذشتہ تاریخی اور مذہبی اکابر کے نام تبرکاً استعمال کرتے ہیں۔

اسلام پر آج جتنے اعتراضات کیے جاتے ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ گو الفاظ کسی قدر بدل جائیں، تعبیر اور طرز ادا میں کتنا ہی فرق آجائے، لیکن مفہوم اور مغز سخن کے لحاظ سے وہ وہی ہیں، جو تیرہ صدی پہلے خود انھی کے برادران ملت کی زبانی بارہا دہرایا جا چکا ہے۔ چھٹی صدی مسیحی میں نجران جو یمن کا ایک ضلع ہے خالص عیسائی آبادی تھی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ بن شعبہ کو وہاں دعوت اسلام کے لیے بھیجا تھا، وہ بیان کرتے ہیں:
بعثنی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی نجران فقالوا لی الستم تقرؤن یا اخت ھارون وقد کان بین موسٰی وعیسٰی ما کان فلم ادر رما اجیبھم فرجعت الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاخبرتہ فقال الا اخبرتھم انھمکانوا یسمون بأنبیاءھم والصالحین قبلھم. (صحیح ترمذی تفسیر سورۂ مریم)
’’مجھ کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران بھیجا ان لوگوں نے کہا کہ تم لوگ یہ آیت نہیں پڑھتے کہ ’’اے ہارون کی بہن‘‘ اور حضرت موسیٰ وعیسیٰ کے درمیان کتنا زمانہ حائل ہے، میں نہ سمجھ سکا کہ ان کو کیا جواب دوں۔ جب لوٹ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُن کا اعتراض عرض کیا، فرمایا: تم نے یہ نہیں کہا کہ یہ لوگ اپنے پیغمبروں اور گذشتہ بزرگوں کے نام پر نام رکھا کرتے تھے۔‘‘

اور آج بھی ہم یہی جواب دیتے ہیں، اور یہی کافی ہے۔

مزید تفصیل کے لیے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہے، اس نے ہر جگہ حضرت عیسیٰ کا نام حضرت موسیٰ کے بعد اور انجیل کا ذکر تورات کے بعد کیا ہے۔ سورۂ مائدہ کے پانچویں رکوع میں بہ تصریح اس نے بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ کے ایک مدت کے بعد حضرت عیسیٰ مبعوث ہوئے، ’وَ قَفَّیْْنَا عَلآی اٰثَارِہِمْ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ‘، اسی قسم کی تصریح سورۂ صف سے سمجھی جاتی ہے۔

اس عام بحث و نزاع کے بعد، اب ہم اعتراض کے الگ الگ ٹکڑوں پر گفتگو کرتے ہیں۔

مریم بنت عمران

قرآن مجید نے سورۂ مریم اور تحریم، دو مقام پر حضرت مریم کے باپ کا نام عمران بتایا ہے۔ یہ واقعہ ہے، اس واقعہ کے خلاف تمام عالم امکان میں کیا شہادت موجود ہے، کیا دنیا کی عظیم الشان لائبریریوں، وسیع کتب خانوں، غیر محدود کتابوں اور لامتناہی اوراق کا ایک حرف بھی اس کی تردید کے لیے پیدا ہے، سعدی کا دعویٰ جھوٹا نہیں:
یتیمے کہ ناکردہ قرآن درست
کتب خانہ چند ملت بہ شست۷؂

اناجیل، اعمال، خطوط، عیسائیت کے بے پایاں دفتر کے یہی تین اصول ہیں، لیکن ان میں یہ کہیں مذکور ہے کہ مریم کے باپ کا نام کیا تھا، بلکہ ہم اور آگے بڑھتے ہیں، کیا ان میں یہ بھی مذکور ہے کہ ان کا باپ کون تھا، ہمارے چیلنج کا ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے، کیا ان میں یہ بھی مذکور ہے کہ ان کا کوئی باپ بھی تھا، اور حق بھی یہ ہے کہ ’’خداوند کی ماں‘‘ کا کوئی باپ نہ ہو۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مصنفین لکھتے ہیں:
’’پہلی صدی مسیحی کی کسی تاریخی یادداشت میں ان کے والدین کے متعلق کچھ مذکور نہیں ہے۔‘‘

ان حالات کے ساتھ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی اولاد کا نام عموماً والدین کے نام سے کسی تناسب کی بنا پر رکھتے ہیں، تو اگر بیٹی کا نام مریم تھا، توقرینہ دلالت کرتا ہے کہ گذشتہ مقدس مریم کے باپ عمران کی مناسبت سے ان مریم کے باپ کا نام بھی عمران ہو، اور عجب نہیں کہ اسی تاریخی تناسب کی بنا پر حضرت مریم کے باپ عمران نے اپنی بیٹی کا نام مریم رکھا ہو۔
اخت ہارون

گذشتہ بے ثبوت نام کی طرح، اس نام کے متعلق بھی ہماری تحدی اور چیلنج کا صور اسی زور اور شدت کے ساتھ بلند ہے، اگر قرآن میں اس موقع پر ’’اخت‘‘ سے واقعاً بہن مراد ہے تو تمام انجیل میں اس کے خلاف ایک حرف بھی موجود نہیں ہے، لیکن اصل یہ ہے کہ یہاں ’’اخت‘‘ سے بہن کا رشتہ مراد نہیں ہے۔ چنانچہ آل عمران میں حضرت مریم کی جو دعا مذکور ہے کہ ’’خداوند! میرے شکم میں جو اولاد ہے، اس کو تیری خدمت کے لیے نذر کرتی ہوں، جب وضع حمل ہوا تو لڑکی (مریم) پیدا ہوئی، بولیں کہ خداوند لڑکی پیدا ہوئی، اور لڑکی لڑکے کے برابر نہیں۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مریم کے کوئی بھائی نہ تھا، ورنہ وہی قربان گاہ پر نذر کیا جاتا۔ اصل یہ ہے کہ ’’اخت ہارون‘‘ کی حقیقت سمجھنے میں لوگوں نے غلطیاں کی ہیں۔ استعمال عرب کے مطابق ’’ہارون‘‘ سے مراد خاندان و قبیلہ ہارون ہے، بکر، سعد، وائل، اسد، نزار سے مقصود اشخاص نہیں، قبائل و خاندان ہیں۔ قبائل کی طرف عموماً اہل عرب جب ’’تاخ‘‘ یا ’’اخت‘‘ کا لفظ مضاف کرتے ہیں، تو اس سے مقصود اس قبیلہ کا ایک فرد ہوتا ہے، یا اخا قریش جب عرب بولے گا تو شخص قریش کا بھائی مراد نہ ہو گا،بلکہ قبیلہ قریش کے ایک ممبر کو خطاب سمجھا جائے گا، حدیث میں ہے، ’ابن اخت القوم منہم‘ ’’قبیلہ کی بہن کے بیٹے کا شمار اسی قبیلہ میں ہو گا‘‘وہ کون طرفۃ العجائب عورت ہو گی جو کل قبیلہ کے قبیلہ کی بہن ہو، اس سے مقصود قبیلہ کی ایک عورت ہے اور بس! یہ استعمال عرب میں اس قدر شائع و ذائع ہے کہ ذی روح سے نکل کر غیر ذی روح تک کے لیے استعمال ہوتا ہے، مثلاً ’اخا العلم اخا الجہل‘ وغیرہ۔

لوقا کی انجیل (۱۔۳۶) میں ہے کہ الزبتھ حضرت یحییٰ کی ماں اور حضرت مریم رشتہ دار تھیں، (۵) میں ہے کہ وہ ہارون کی بیٹی تھیں، اس سے واضح ہو گا کہ حضرت مریم بھی خاندان ہارون سے تھیں، دیکھو انجیل کی اس اصطلاح میں بھی بیٹی سے حقیقی بیٹی مراد نہیں، ورنہ کہا جا سکتا ہے کہ انجیل مریم اور حضرت ہارون کو ہم عہد قرار دیتی ہے۔

(معارف اگست و ستمبر ۱۹۱۶ء)

_______

۱؂ صرف میں ہی دکھیا دل والا ایسا نہیں ہوں جس کا جگر تیرے ہاتھوں زخمی اور خون خون ہے؛ بلکہ کوئی جگر بھی ایسا نہیں ہے جو تیرے عشق کے غم کے ہاتھوں خون خون نہ ہو۔

۲؂ وہ ذات گرامی جس کا اسم گرامی یسوع مسیح (Jesus Christ)۔

۳؂ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام اور جوئش انسائیکلو پیڈیا لفظ ابراہیم۔

۴؂ ہر طرف متاع عقل و دانش بدحال اور منتشر گری پڑی ہے۔ وہ فن کار آنکھیں ان کی مزید غارت گری کے لیے کسی ماہر کاریگر کو لے آئی ہیں۔

۵؂ تورات سفر العدد ۲۶۔۵۹۔

۶؂ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا آرٹیکل میری۔

۷؂ جس یتیم نے قرآن کو درست نہ کیا اس نے متعدد قوموں کے کتب خانے سنوار دیے