کائنات میں انسان کا مقام - ابوالبشر احمد طیب

کائنات میں انسان کا مقام 
انسان کے لیے یہ سوالات ہمیشہ انتہائی اہم رہے ہیں کہ اس وسیع کائنات میں اس کا مقام اور مرتبہ کیا ہے اور اس کے لیے دنیا میں زندگی گزار نے کا صحیح رویہ کیا ہے ۔ اس پر ہر زمانہ میں دانشوروں اور فلسفیوں نے مختلف جوابات دیے ہیں ۔ اس بارے میں ہمیں قرآن مجید سے بھی رہنمائی ملتی ہے ۔ 

جہاں تک فلسفیوں کا تعلق ہے تو سقراط سے پہلے دو مکتب فکر نمایا ں ہیں ۔ ان میں ایک کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس کائنات میں انسان دیگر حیوانات کی طرح کی ایک مخلوق ہے ، جو انجام ان حیوانات کا ہے وہی انجام اس کا بھی ہے ۔ 

دوسرا مکتبہ فکر سو فسطائیوں کا ہے جن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان کائنات کا محور اور مرکز ہے یہی اس کائنات میں گل سرسبد کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے اندر جو صلاحیتیں اور قوتیں پوشیدہ ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت نے اس کوبڑا مقام اور مرتبہ دیا ہے ۔ وہ انسان میں ایک عقل یزدانی (Divine Reason) کے وجود کے قائل ہیں ۔ جہاں تک سقراط کا تعلق ہے تو تمام فلسفیوں میں اس کا مقام اونچا ہے اس کا مشہور کلمہ کہ " اے انسان تو اپنے آپ کو پہنچان " ایتھنز کے معبد ڈلفی پر منقش ہے ۔ سقراط نے سب سے پہلے توجہ دلائی کہ دیگر مخلوقات سے اہم خود انسان ہے وہ خود اپنے کو پہنچانے کہ وہ کیا ہے اور قدرت نے اس کو کس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ سقراط کے ہاں انسان کو ہی اصل اہمیت حاصل ہے ، دوسری چیزوں کی حیثیت اس کے ہاں ثانوی تھی ۔ اس کے شاگر افلاطوں نے اسی فکر کو آگے بڑھایا ۔ اس کو زندگی کے مختلف شعبوں : اخلاقیات ، سیاسیات ، نفسیات اور اجتماعیات وغیرہ میں اطلاق کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے نزدیک انسان حیوان نہیں اگرچہ اس کی پیدائش حیوان کے طریقہ پر ہوئی ہے ۔ انسان کے اندر ایک روح بھی ہے جو ملکوتی عقل کا حصہ ہے ۔ جس کے ذریعے انسان اس کائنات کے ابدی کلیات کو معلوم کر سکتا ہے ۔ انسان کا ایک جسم بھی ہے وہ اس ملکوتی عقل پر کمنڈ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اس پر قابو پائے اور اس کمنڈ کو توڑ کر مادی جسم سے بلند ہوکر غور و فکر کرے ۔ 

سقراط کے بعد ارسطو پہلا فلسفی ہے جس نے انسان کی منطقی تعریف " حیوان ناطق " کی ہے ۔ انسان اور حیوان میں فرق یہی ہے ۔ اس نے یہ بھی کہی کہ انسان کے اندر ایک نور یزدانی بھی جس کی بدولت یہ بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیتا ہے ۔ ظاہر اور باطن کی تحقیق کی صلاحیت اسی نور یزدانی کا نتیجہ ہے ۔ 

اس کے بعد فلسفہ کا اہم مکتب رواقیوں کا ہے ۔ ان کے نزدیک انسان عالم اصغر ہے ۔ جو کچھ عالم اکبر یعنی کائنات کے اندر ہے وہ سب کچھ انسان کے اندر بھی ہے ۔ اس لیے لیے انسان پر لازم ہے کہ جس نہج پر کائنات کا نظام چل رہا ہے اسی طریقہ پر انسان اپنی زندگی کا نظام بنائے ۔ جس طرح کائنات پر عقل کی حکمرانی ہے اسی طرح انسان کو بھی اس عقل یزدانی کی رہنمائی میں زندگی بسر کرے ۔ اس طرح رواقی فلسفہ نے انسان کو فطرت کے تابع بنا دیتے ہیں ۔ 

اس کے بعد فلسفہ کی دنیا میں ایک بڑا خلا نظر آتا ہے ۔ قرون وسطی میں کلیسا نے فلسفہ اور عقل کا گلاگھونٹ دیاتھا ۔ یہ کوپر لیکس ، گلیلیو، کپلر اور نیوٹن وغیرہ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ لوگوںکو قوانین فطرت کی جستجو ہوئی ۔ کوئی سمندر میں ، کوئی صحراء میں ، توکسی نے دوربین کی مددسے افلاک کی پہنائیوں میں جھانکنے کی کوشش کی ۔ لوہے سے سونا بنانے کی جدوجہد علم کیمیا میں بدل گئی ۔ علم نجوم سے علم ہیئت تک جا پہنچا ۔ جانوروں کی کہانیوں سے حیاتیات کا علم ابھرا ۔ اس طرح طبعی قوانین کے متعلق انسان کی معلومات میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔ 

جب ہم جدید دور میں داخل ہوتے ہیں تو فلسفیوں میں سب سے پہلا مفکر فرانس بیکن ( Francis Bacon) ( 1561ء –1626ء ) اس نے عقل کو کلیسا کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش کی ۔ اس نے کائنات پر غور و فکر کی دعوت دی ۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مذہب کی باتوں پر دھیان دینے کا مشورہ دیا ۔ چاہے ہماری عقل اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے ۔ اس کے بعد ہابس نے سارا زور ہی سائنس پر دیا ہے اس نے انسان کو اس مادی کائنات کا ایک جزو قرار دیا ہے ۔ اس کے نزدیک انسان کا م یہ ہے کہ جس طرح کائنات میں ہر چیز حرکت میں ہے و ہ بھی اس قانون فطرت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالے ۔ ڈیکارٹ کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ جس طرح یہ دنیا گھڑی کی طرح بخود چل رہی ہے اسی طرح انسان بھی ان مشینی اصول کا ایک حصہ ہے ۔ اگرچہ عقل روحانی ہے لیکن اس کو مادی قوانین کے مطابق ڈھال لینا چاہیے ۔ ڈیکارٹ کی طرح سپینوزا کے نزدیک خدا اور انسان دونوں اس کائنات کے جزو ہیں ۔ کائنات میں اصل اہمیت مشین کی ہے ۔ یہ مشین جبر محض پر چل رہی ہے ۔ سپینوزا کے نزدیک خدا کا رادہ اور فطرت کے قوانین دراصل ایک چیز ہیں ۔ سپینوز ا کے نزدیک انسانی افعال ایسے قوانین کے پابند ہیں جو ہندسی قوانین کی طرح اٹل ہیں ۔ اس فلسفہ کا بعد کے ادوار پر بڑا اثر پڑا ہے اور انسان کے متعلق جبر محض کا تصور اسی فلسفہ سے آیا ہے ۔ 

اس کے بعد برکلے ، لاک اور ہیوم ہیں ان لوگوں کے نزدیک انسانی ذہن سے خارج کوئی چیز نہیں جو کچھ ہے انسان کے ذہن ہی میں ہے ۔ پوری کائنات کو انہوں نے محض انسان کا تخیل قرار دیا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غالب نے بھی کہیں یہ فلسفہ سن لیاتھا اس پر انہوں نے یہ شعر کہا ہوگا : 

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد 

عالم  تمام  حلقہ   دام   خیال ہے ! 

جان لاک کے نزدیک کائنات وہی ہے جو کچھ ہمیں احساسات اور تجربات سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس نظریہ کو ڈیوڈ ہیوم نے منطقی انجام تک پہنچایا ۔ اس نے کہا کہ انسان اور صرف انسان ہی اس پوری کائنات کا مرکز اور محور ہے۔ ہم جس چیزسے واقف ہیں وہ اپنے خیالات ہی ہیں ۔ البتہ یہ خیالات ہمارے ذہن میں کہا ں سے پیدا ہوتے ہیں ہیوم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ۔ اس کا کہنا ہے کہ بعض نامعلوم اسباب کی بنا پر یہ خیالات ہمارے ذہن میں جنم لیتے ہیں ۔ لیکن ہم ان کو عقلی استدلال سے ثابت نہیں کرسکتے ۔ 

روسو نے اس نقطہ نظر سے اختلاف کیا اس کا کہنا ہے کہ انسان احساسات اور جذبات کا پتلاہے ۔ سائنس اور ثقافت نے انسان کو زنجیروں میں باندھ دیا ہے جدید آلات نے اس کے احساسات و مروت کو کچل دیا ہے ۔ اس لیے تمدن کے اس خول کو اتار پھینکاجائے اور انسان کو آزاد کر دیا جا ئے تاکہ اس کی صلاحیتیں ابھر سکیں ۔ 

اس کے بعد عمانویل کانٹ آیا اس عظیم فلسفی نے مادیت ، جبریت اور مشینیت کا ابطال کیا ۔ اس نے کہا تمام علوم سے برتر ایک حقیقت اور بھی ہے وہ ہے انسان کا اخلاقی وجود ۔ تمام نیکیاں انسان کے اندر موجود ہیں۔ اس کے لیے کسی خارجی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ یہی اخلاقی وجود دلیل ہے کہ خدا موجود ہے وہی انسان او ر دنیا کا خالق ہے ۔ کانٹ کا کہنا ہے کہ عقل خداکی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے اور ہمار ااخلاقی وجود ہمیں خدا کو ماننے پر مجبور کر تا ہے کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ سچ بولنے سے نقصان اور جھوٹ بولنےسے فائدہ ہوگا لیکن اس کے باوجود ہم سچ بولتے ہیں ۔ دنیا ہرروز ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ کبوتر کی نرم خوئی کی نسبت سانپ کی ہوشیاری اور چالاکی زیادہ سود مند ہے ، اس کے باوجود ہم نیکی کو اختیار کر تے ہیں ۔ جب سے دنیا قائم ہے اس وقت سے انسانوں کی یہی روش ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کے علاوہ بھی کوئی اور دنیا ہے جہاں نیکی کا راج ہے اور نیکی کا راج ہوگا کیونکہ انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ فانی نہیں ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دنیا ایک اور زندگی کا حصہ ہے ۔ 


اس کے بعد جرمنی کے دو فلسفیوں نے انتہائی مایوس کن فلسفہ پیش کیا ۔ ایک آتھر شوپنہائر (1788ء – 1860ء ) اس کے نزدیک انسان ہے تو مافوق الطبیعی حیوان ، لیکن وہ اپنی خواہشوں کا غلام ہے ، اور عقل کا کام اس کی اس کی خواہشوں کی تکمیل کرنا ہے۔ اس کے نزدیک صرف ارادہ یا خواہش ہی انسان کے اندر ایک ایسی چیز ہے جو مستقل نوعیت کی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اس لیے انسان خواہش کی غلامی سے کبھی آزاد نہیں ہوسکتا ۔ اس کے نزدیک یہ آزادی اس وقت ممکن ہو سکتی تھی جب خواہش علم اور عقل کے تابع ہو جائے ۔ لیکن اس کا کوئی امکان نہیں ۔ چنانچہ اس کے نزدیک زندگی ایک شر ہے ۔ یہ ایک مسلسل جنگ اور کشمکش سے عبارت ہے ۔ دوسرا نٹشے ہے اس کے نزدیک انسان ایک سفاک جانور ہے جو طاقت حاصل کرنے لیے جو جی میں آئے کر گزر تا ہے۔ انسان کے اس ولولہ کے سامنے عقل اور نیکی کی کوئی حیثیت نہیں ، بلکہ یہ دونوں اس کے ہتھیار ہیں ، جو نیکیاں مشہورہیں ان کے اندر بھی حصول طاقت کا جذبہ کا رفرما ہوتا ہے ۔ اس لے انسان کی جد وجہدکا مقصد نیک بننا نہیں بلکہ طاقت ور یعنی سپر مین بننا ہونا چاہئے۔ اس کا کہنا کہ دنیا میں جو معاشرہ سپر مین تیار نہیں کرسکتا اس کو مٹ جانا چاہئے ۔ 

کومٹ ( 1798ء – 1857ء ) اثباتیت کا قائل ہے ، اس کا کہنا ہے کہ کائنات اور انسان کا اصلی جوہر کیا ہے وہ ہمیں معلوم نہیں ہوسکتا ۔ ہم جب اس کائنات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک خاص اندازے سے چل رہی ہے۔ انسان گرمی ، سردی ، سیلاب ، خشک سالی ، بیماریوں اور مصائب میں مبتلاہوتا رہتا ہے ، لیکن وہ بعض چیزوں کو اپنے فائدے لے لیے استعمال کر لیتا ہے ۔ اس لیے جو چیز نقصان دہ ہوتی اس میں بھی اس کے لیے ایک فائدہ کا پہلو ہوتا ہے ۔ 

جان سٹوار ٹ مل ( 1806ء – 1873ء ) اس نے کومٹ کے نقطہ نظر کو آگے بڑھایا ، اس کا کہنا ہے کہ کائنات کا جو حصہ ہمارے تجربہ میں آتاہے اس میں قرینہ پا یا جاتا ہے ۔ اس کے واقعات کی کڑیا ں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور چونکہ انسان اس دنیا کا حصہ ہے اس لیے انسان کی زندگی میں یہی قرینہ ہونا چاہیئے ۔ اس کا عمل بھی مر بوط ہونا چاہیے ۔ مل کا کہنا ہے کہ انسان ایک انتہائی پیچیدہ مخلوق ہے ۔ اس کے ہر عمل کے پس پردہ بے شمار عوامل کا رفرما ہوتے ہیں ۔ ان تمام بنیادی اصولوں کا اطلاق دنیا اور انسان ، دونوں پر یکساں ہوتا ہے ۔ دنیامیں رونما ہونے والے واقعات میں ان کو آسانی سے پہنچانا جا سکتا ہے لیکن انسان کے معاملہ میں ان کو معلوم کرنا بہت دشوار ہے ۔ اس کی مثال وہ یوں دیتا ہے کہ ایک ماہر فلکیات اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر بتا سکتا ہے کہ آج سے کتنا عرصہ بعد اور کس وقت دمدار ستارہ نظر آئے گا ۔ لیکن یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ آج جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ بڑا ہوکر ڈاکٹر ، وکیل ، انجنیئر یا کیا بنے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دمدار ستارہ نمودار ہونے کے کے پیچھے جو عوامل ہیں وہ آسان ہیں اور انسان میں یہ بہت پیچیدہ ہیں ۔ 

ہر برٹ سپنسر ( 1820ء – 1903ء ) اس کا کہنا ہے کہ ہمیں جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ تجربات کی بدولت معلوم ہو ا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ ان تجربات کی کوئی علت ضرور ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے تجربات سے بھی کوئی ایسی دنیا موجود ہے جو ہمارے تجربات کا سبب بنتی ہے ۔ اس دنیا کو وہ نامعلوم کہتا ہے ۔ جس طرح انسان کے داخلی جذبات و احساسات ہیں اسی طرح یہ نامعلوم دنیا ہے ۔ اس کے نزدیک یہ نامعلوم دنیا طاقت ہے جو تخلیقی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس وجہ سے انسان اس تخلیقی ترقی کا نتیجہ ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ انسان اس ارتقائی عمل کا حصہ ہے جو اس کائنات میں پا یا جاتا ہے ۔ اور انسان جو ترقی کرتا جاتا ہے وہ اسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے ۔ اس لیے ارتقاء کا قانون ہی اس دنیا کا بنیادی کلیہ ہے ۔ 

ایک اور مشہور فلسفی ولیم جیمز(William James) ( 1842ء – 1910ء ) وہ بھی اثباتیت یعنی تجربہ اور مشاہدہ کی دنیا کا قائل ہے ۔ وہ بھی انسان کو اس کائنات کا مرکز اور محور تصور کرتا ہے ۔ لیکن اس کا کہنا ہے کہ انسان کےتجربہ میں جو کچھ آتا ہے وہی حقیقت ہے ۔ اس لیے دنیا دراصل انسانی تجربات ہی کی دنیا ہے ۔ 

جان ڈیوی کا کہنا ہے کہ انسان ارتقائی عمل کی پیداوار ہے جو اس کائنات میں ہر جگہ جاری ہے ۔ فرق یہ ہے کہ انسان اس دنیا کا ادراک کر سکتا ہے ۔ اس لیے ہمارے پاس صرف انسان کا تجربہ ہی وہ واحد پیمانہ ہے جس کے ذریعہ ہم دنیا کے متعلق جا سکتے ہیں ۔ 

برٹرنڈرسل (Bertrand Russell)( 1872ء 1970ء ) اس کا کہنا ہے کہ یہ دنیا ایک عظیم حسابی مشین ہے جو سائنس کے کلیات پر چل رہی ہے ۔ جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔انسان اس نظام کا ایک حقیر سا حصہ ہے ۔ انسان بھی اس کے اندر پس رہا ہے ۔ دنیا کی اس مشین کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اس کے اندر کون آکر پس گیا ہے ۔ اس لحاظ سے انفرادی طور پر کسی انسان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ جہاں تک اجتماعی حیثیت کا تعلق ہے تو اس کے نزدیک اس کی مثال ان ملاحوں کی ہے جن کا جہاز طوفان میں غرق ہوچکا ہو اور وہ تختہ پر بیٹھے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سمندر کی موجوں کے رحم و کرم پر ہوں اور رفتہ رفتہ ایک ایک کرکے سمندر کے اندر گرتے جائیں ۔ ان کے گرنے سے ذرا سی دیر کے لیے سطح سمندر پر بلبلہ سا پیدا ہو جس کے بعد سمندر کی سطح برابر ہو جائے ۔ رسل کا کہنا ہے کہ قدرت کو انسان کی کوئی پروا نہیں ۔ 

اہل فلسفہ کی آراء پر تنقید 

اوپر اہل فلسفہ کی جو آراء پیش کی گئی ہیں اگر ان کا تجزئیہ کیا جائے تو وہ تین گروہوں میں تقسیم ہیں ۔ 

ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو سمجھتے ہیں کہ انسان بھی دوسرے جانوروں کی طرح ایک جانور ہے ۔ جو حشر ان کا ہوگا وہی انسان کا بھی ہوگا ۔ دوسرا گروہ ان فلسفیوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ انسان مشین کا ایک پرزہ ہے ۔ اصل اہمیت مشین کی ہے پرزہ کی کوئی اہمیت نہیں ۔ تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جن کے نزدیک کائنات کا مقصود اور اس کی غایت ہی انسان ہے ۔ گویا کائنات اسی کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ۔ اس گروہ میں تمام قابل ذکر بڑے فلسفی شامل ہیں ۔ سو فسطائیوں سے لے کر سقراط ، افلاطون ، ارسطو، اور کانٹ سب اس گروہ میں شامل ہیں ۔ 

جہاں تک پہلے گروہ کی بات ہے کہ ان کے نزدیک اس کائنات کی کوئی غایت اور نہایت نہیں ہے ، ان کے نزدیک اس انسان جو کمرے میں بیٹھے بیٹھے اپنی عقل کی مدد سے سورج کتنے فاصلہ پر ہے اس کی شعائیں کتنے وقت میں زمین تک پہنچتی ہیں بتاسکتاہے ۔ اس کو ایک گدھا کے برابر سمجھنا جس کو اپنی بھی خبر نہیں یہ گدھا پن نہیں تو اور کیا ہے ۔ کیونکہ یہ نقطہ نظر تمام کائنات کی قدروقیمت اور انسان کی قدر و قیمت دونوں کی نفی کر دیتا ہے ۔ 

ارشاد باری تعالی ہے : 

ربنا ما خلقت ہذا باطلا   :  اے رب تو نے یہ کارخانہ عبث پیدا نہیں کیا ! 

دوسرے گروہ کا نقطہ نظر کہ انسان ایک مشین کا پرزہ ہے ۔ اصل اہمیت مشین کی ہے ۔ ان کو اصل میں مشاہدہ شدید مغالطہ ہوا ہے ۔ کائنات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ہر چیز ، سورج ، چاند ، گرمی ، سردی ، رات ، دن انسان کی کسی نہ کسى نوعیت کی خدمت کر رہی ہے ۔ لیکن انسان کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ وہ کس کی خدمت کر تا ہے یا کس کی خدمت پر طبعا اور عقلا مجبور ہے ۔ اس کے سوا اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ انسان بھی کسی کی خدمت پر مامور ہے ۔ وہ رب کائنات ہی ہے جو غنی ہے ۔ 

تیسرے گروہ کی رائی کہ انسان کائنات کا مرکز اور محور ہے نہایت معقول بات ہے ۔ یہ رائے تمام بڑے فلسفیوں کی ہے ۔ موجودہ دور کے ملحدین بھی اس رائی سے اختلاف نہیں کرسکتے ۔ کیونکہ انسان ہی اکیلا اس کائنات کا ماسٹر بننے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔ 

قرآن میں بھی اشارہ ملتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : 

إِنَّا عَرَضْنَا الأمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الإنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولا ( الاحزاب : ٧٢) 

اور ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈرے اور انسان نے اس کو اٹھالیا ۔ 

یعنی کائنات کی دیگر مخلوق کے اندر یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ اس اختیار اور آزادی کی امانت کو اٹھا سکیں چنانچہ صرف انسان ہی تھا جو اس اختیار کا حامل ہو سکتا تھا ۔ 

دوسری جگہ ارشاد ہوا : 

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلا ( بنی اسرائل : ٧٠) 

اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور خشکی اور تری ، دونوں میں ان کو سواری عطا کی ۔ اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت دی ۔ 

--------------