خدا کی ذات و صفات کی معرفت - ابوالبشر احمد طیب

خدا کی ذات و صفات کی معرفت 
مذہب اور فلسفہ دونوں اپنے اصل مقصد کے لحاظ سے زندگی کی رہنمائی کے لیے وجود میں آئے ہیں ۔ اس لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ فلسفہ عقل پر اعتماد کرتا ہے جبکہ مذہب وحی الہی سے رہنمائی لیتا ہے ۔ بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ مذہب کا عقل سے کوئی تعلق نہیں اس غلط فہمی کے ازالہ کے لیے ضروری ہے کہ زندگی اور کائنات کے متعلق قرآن مجید اور فلسفہ کے بنیادی مسائل کا تقابلی مطالعہ کیا جائے درج ذیل مضمون اسی مقصد لیے لیے ترتیب دیا گیا اس کے لیے ہم نے مولانا امین احسن اصلاحی کی کتاب " فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن حکیم کی روشنی میں " سے استفادہ کیا ۔ 

ابتدائی دور کے یونانی فلسفیوں نے زندگی اور کائنات کی مختلف طریقوں سے توجیہ کی ہے بعض یونانی فلسفیوں جیسے تھیلیز(624 ق م - 554ق م ) انیکسی مانڈر (610 ق م - 546ق م) کا کہنا ہے کہ کائنات کو کسی دیوی یا دیوتا نے پیدا نہیں کیا ، چھٹی صدی قبل مسیح کے فلسفی شاعر زینو فینسز(Zenophanes) نے دیوتاؤں پر سخت تنقید کی اس کا کہنا ہے کہ لوگوں نے اپنی شکلوں پر دیوتاؤں کو بنایا ہے جبکہ خدا ہر لحاظ سے انسان سے مختلف ہے خدا ایک وحدت ہے جس کی ابتدا ہے نہ انتہا ۔۔اس کے نزدیک خدا ہی کائنات ہے ۔ عظیم فلسفی سقراط (470 ق م - 399 ق م) نے خدا کی وحدانیت کا تصور دیا اس جرم میں اس کو زہر کا پیالہ پینا پڑا ۔ افلاطون (428 ق م -347 ق م) کا کہنا ہے کہ خدانے تمام کائنات کو پید ا کیا اور انسان میں اپنی روح پھونکی ۔ البتہ ان تمام فلسفیوں میں ارسطو (384 ق م – 322 ق م ) خد ا کی وحدانیت پر پختہ یقین رکھتاتھا ، اس کے نزدیک خدا کائنات کا خالق ہے، وہی محرک اول ہے ، کائنات کو چلانے والا بھی وہی ہے ۔ اسی طرح رواقی فلسفی خدا کی وحدانیت کے شدت سے قائل ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ خدا نے ہر چیز پیدا کی ہے ، برائی پر سزا اور نیکی پر جزا دیتا ہے ، رواقیوں کا فلسفہ وحدت الوجود کے تصور پر مبنی ہے۔ 

اس کے بعد فلسفہ مذہب سے متاثر ہوا، اس میں مذہب کو شامل کردیا گیا پھر فلسفیوں نے توحید کا وہی تصور پیش کیا جو تورات میں ہے ، اس دور کے ایک قابل ذکر فلسفی فیلو (Philo ) (50ق م – 30 ق م )ہے ، اس کے نزدیک خدا انسانی فہم سے بالا تر ہے لیکن خدا کا وجود یقینی ہے ، اس کے نزدیک خدا علت العلل (Cause of Causes) ہے ۔ جس طرح شمع پورے ماحول کو روشن کر تی ہے اسی طرح خدا کے نور سے پوری کائنات منور ہے ۔ پلو ٹینس (269 ء ق م - 204 ق م )کا کہنا ہے کہ دنیا کو تو خدا کی ضرورت ہے لیکن خدا دنیا سے بے نیاز ہے ۔ 


اس کے بعد سینٹ آگسٹائن (354ء - 430ء) عیسائی متکلم نے عیسائیت اور یونانی فلسفہ میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن جس وقت عیسائی متکلمین عیسائیت کو عقلی بنیادوں پر ثابت کرنے کی کو شش کر رہے تھے انہی دنوں ایک تحریک ابھری جس نے کہا کہ خدا کو عقل کی مدد سے نہیں سمجھا جا سکتا اس کے لیے مشاہدۂ ذات ہی واحد راستہ ہے ۔ اس کو بعد میں تصوف کا نام دیا گیا ۔ ان صوفیوں نے کہا کہ مشاہدۂ ذات سے جو معرفت حاصل ہوسکتی ہے وہ عقل سے حاصل نہیں ہو سکتی ۔ 

یورپ میں جب کلیسا کا زور ٹوٹا اور نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا تو پھر سے عقل کی روشنی پھیلی ، اور فلسفیوں نے خدا کی ذات اور صفات کو سمجھنے کی کوشش جاری رکھیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فلسفیوں نے جس خدا کا تصور دیا وہ کلیسا کے تصور سے بہت مختلف تھا ۔ اس لے فرانسس بیکن(1561ء- 1626ء ) نے دونوں کلیسا اور فلسفیوں کے تصور خدا میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ اس نے کہا الہیات کی دو قسمیں ہیں : ایک فکری اور دوسری الہامی ، آفاق اور انفس پر غور و فکر کے بعد خدا کی جو معرفت حاصل ہوتی ہے وہ فکری الہیات ہے اور خد کے متعلق جو کچھ مذہب بتا تا ہے وہ الہامی الہیات ہے ۔ لیکن ساتھ مشورہ دیا کہ عقل کی چھوٹی سی کشتی کو چھوڑ کر کلیسا کے جہاز پر سوار ہوجانا چا ہیئے ۔ در حقیقت بیکن نے ہی دین اور دنیا کو دو الگ الگ خانہ میں رکھنے کا فلسفہ گھڑا ۔ مگر تھامس ہابس ( 1588ء - 1679ء ) بیکن سے مختلف رائی دی اس نے کہا کہ عقل خدا کو مانتی ہے اس لیے میں بھی خدا کو مانتا ہوں ۔ خدا نے یہ کائنات بنائی اس نے ہر چیز کو حرکت دی، خدا انسانوں کے ذریعہ دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے ۔ ہم اس سے زیادہ خدا کے متعلق کچھ نہیں جا ن سکتے اس لیے ہمیں اس پر قانع رہنا چا ہیئے ۔ ڈیکارت (1596ء-1650ء) اس کے برعکس کہتا ہے کہ یہ عقل انسان کی راہنمائی کے لیے کافی ہے اور انسان کا فرض ہے کہ وہ ان اصولوں کی پابندی کرے جوغور و فکر، کائنات کے مشاہدہ اور تاریخ کے مطالعہ سے حاصل ہوتے ہیں ، گویا ان اصولوں کو شریعت کا درجہ دینا چاہیئے ۔ 

سپینوزا (1632ء-1677ء ) معروف مغربی صوفی ہے اس کے نزدیک ہر جگہ اللہ ہی اللہ ہے ، وہ کائنات کو ایک مجموعی مشین مانتا ہے، یہ مشین جن فطری قوانین پر چل رہی ہے ان کا نام خدا ہے ، خدا سے الگ کوئی چیز نہیں ہے سب اس کے اندر یعنی سب خدا ہے ۔ اس طرح سپینوزا نے وحدۃ الوجود کا فلسفہ پیش کیا جس کا اثر بعد کے تمام صوفی فلسفیوں نے بھی قبول کیا ۔ 


جان لاک ( 1632ء- 1704ء ) کا کہنا ہے کہ خدا ایک حقیقت ہے انسان اپنی خلقت پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ وہ آپ سے آپ وجود میں نہیں آیا بلکہ اس کا کوئی خالق ہے ، اس نے دنیا بنائی، انسان کو پیدا کیا، کائنات میں اپنے قوانین جاری کیے، یہ قوانین آفاق و انفس میں پر غور و فکر کرنے کے بعد معلوم کیے جا سکتے ہیں ۔ ان قوانین کی پابندی کرنے والے جزا اور اس کے خلاف ورزی کرنے والے سزا کے مستحق ہیں ۔ ڈیوڈ ہیوم ( 1711ء 1776ء ) ارتیابی فلسفی ہے وہ ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کے نزدیک ہر چیز دھوکہ دیتی ہے آنکھ بھی دھوکا دیتی ہے اس لیے انسانی عقل بھی خدا کو نہیں سمجھ سکتی ۔لیکن خدا کو ماننا ضروری ہے ۔ خدا کے تصور کے بغیر انسان اپنے معاشرتی اور اخلاقی نظام کو قائم نہیں رکھ سکتا ۔ عمانویل کانٹ ( 1764ء -1804ء ) ان فلسفیوں کا سخت مخالف ہے جو عقل اور تجربہ سے باہر کسی چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ کانٹ کہتا ہے کہ ہم پوری کائنات کا تجربہ تو نہیں کر سکتے لیکن اس کو مانتے ہیں ، اس لیے خدا عقل و تجربہ میں نہیں آتا تو اس کے معنی یہ نہیں کہ خدا موجود نہیں ۔ اس کا کہنا ہے کہ خدا ہماری فطری اور اخلاقی ضرورت ہے ۔ ہیگل ( 1770ء - 1831ء ) کا خدا اس کے نظریہ ارتقاء کا حصہ ہے اس کے نزدیک دنیا ترقی کر رہی ہے اس لیے خدا بھی ترقی پذیر ہے ہیگل کا کہنا ہے کہ خدا تخلیقی دانش کا نام ہے جس کا اظہار دنیا میں ہو رہا ہے ۔ 


اس کے بعد فلسفیوں نے خدا کو سمجھنے کی کوششیں تقریبا ترک کردیں جیسے آگسٹ کو مٹ ( 1798ء 1857ء ) کا کہنا ہے کہ انسانی ذہن جب پختہ ہوجا تا ہے تو وہ خدا کو تلاش کرنے کی کو شش ترک کر دیتا ہے ، سرولیم ہملٹن ( 1788ء -1856ء )کے نزدیک خدا کے متعلق کچھ جاننا نا ممکنات میں سے ہے کیونکہ انسان کی عقل صرف محدود چیزوں کو جان سکتی ہے خدا لامحدود ہے ۔ ہر برٹ سپنسر ( 1820ء - 1903ء ) نے بھی یہی کہا ہے ۔ سرولیم جیمز ( 1824ء - 1910ء ) کا کہنا ہے کہ ہم خدا کے وجود اور اس کے متعلق کسی چیز کو بھی ثابت نہیں کر سکتے لیکن خدا کو ماننے پر مجبور ہیں کیونکہ ہماری فطرت کا تقاضا یہی ہے ۔ جان ڈیوی ( 1859ء - 1952ء ) کا کہنا ہے کہ چونکہ دنیا میں شر بہت زیادہ ہے۔ انسان نے شر سے محفوظ رہنے کے لیے کائنات کی مختلف توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے اس کے لیے انسان نے مختلف نظریات گھڑے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ خدا کے متعلق مختلف تصورات پائے جا تے ہیں ۔ 


اوپر اہل فلسفہ کی جو آراء بیان کی گئی ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سقراط ، افلاطون ، ارسطو، رواقی فلسفی ، کانٹ وغیرہ سب خدا کو بالصراحت مانتے ہیں ۔ کچھ متشککین خدا کے وجود کے منکرتو ہیں لیکن خدا کی ضرورت ان کے نزدیک موجود ہے ۔ ان کے امام ڈیوڈ ہیوم ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان اپنے معاشرتی اور اخلاقی نظام کو قائم رکھنے کے لیے خدا کو ماننے پر مجبور ہے ۔ اس لیے تمام فلسفیوں کے نزدیک خدا کا وجود ایک بدیہی حقیقت ہے۔ اس لیے ان کی اکثریت شروع سے آخر تک یہ مانتی چلی آئی ہے کہ خدا ہے تمام بڑے فلاسفر یہی رائے رکھتے ہیں اور اسی فلسفہ پر زندگی کی بنیاد رکھتے ہیں حد یہ ہے کہ ہیوم جیسا ارتیابی فلسفی بھی خدا کی ضرورت کا قائل ہے صرف وہ فلاسفر خدا کے قائل نہیں جنہوں نے بحیثیت مجموعی زندگی کا فلسفہ پیش نہیں کیا جیسے بعض نے نظریہ ارتقاء کو خدا کا بدل سمجھ لیا ، فرائڈ نے جنس کو اور مارکس نے بطن اور بھوک کو اپنے فلسفہ کا محور بنالیا ۔ 


البتہ یہ سوال کہ کیا انسان کو خدا کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے یا خدا انسانی عقل کی رسائی سے بالاتر ہے۔ عقل کی نا رسائی کا یہ نوحہ بے بنیاد ہے ایک طرف تو انسان کی عقل کا یہ حال ہے کہ اگر اس کو آؑثار قدیمہ سے کوئی ٹوٹا ہوا مرتبان مل جائے تو اس کے اوپر آڑھی ترچھی لکیروں کے ذریعہ وقت کی تہذیب ، وقت کا کلچر اور ثقافت سب کچھ معلوم کر لیا جاتا ہے ۔ لیکن دوسری طرف ان کی عقل کی نا رسائی کا یہ عالم ہے کہ یہ پوری صحیفہ کائنات ان کے سامنے ہے آسمان ہے زمین ہے سمندر ہیں پہاڑ ہیں ستارے ہیں کہکشاں ہے قوموں کے عروج و زوال کے واقعات ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر صرف گرد و پیش کی اشیاء پر غور کرے تو خدا کی معرفت کے لیے کافی ہے اس لیے ان تمام اشیاء کو آیات الہی سے تعبیر کیا گیا ۔ خدا کی معرفت حاصل کرنے کیے لے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان صحیفہ کائنات کو کھلی آنکھوں کے ساتھ پڑھے اور اس کے تقاضوں کو سمجھے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ خدا کو سمجھنے کا بھی ایک دائرہ ہے مثلا ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت نہیں کہ خدا کس چیز کا بنا ہوا ہے اس کی ذات کیسی ہے اس کی شکل کیسی ہے و کس طرح اٹھتا ہے اور بیٹھتا ہے اس طرح کے سوالات انسان کی ذہنی استعداد سے باہر کے دائرہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ البتہ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خدا کی مرضی کیا ہے ، اس کے احکام کیا ہیں ، اس کی پسند و ناپسند کیا ہے، وہ کیا چاہتا ہے، ہم کس طرح دنیا میں رہیں ، ہمارے سیاسی نظام کیا ہو ،ہماری معاشرتی زندگی کیسی ہو، حلال و حرام کے پیمانے کیا ہوں ، غرضکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہمیں خدائی پسند و ناپسند جاننے کی ضرورت ہے ۔ ان تمام باتوں پر ہماری زندگی کا انحصار ہے اس کا انتظام بھی اللہ تعالی نے بڑے اہتمام سے کیا ہے اس کے لیے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری کیا ۔ خدا کی ذات کے متعلق ہمارے پاس کچھ نہیں ہے صفات کے متعلق ہمارے پاس بہت کچھ ہے خواہ وہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو مثلا خدا علیم ہے تو کچھ علم ہمیں بھی دیا ہے، خدا قادر ہے تو کچھ قدرت ہمیں بھی دی ہے ۔ 


جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ اس فطری اور بدیہی حقیقت یعنی خدا کے وجود پر کوئی دلیل نہیں دی اگر کوئی بدیہی چیز کا انکار کردے تو اس کو اس کی حماقت پر توجہ دلائی جاتی ہے ۔ اس لیے مشرکین مکہ جو قرآن مجید کے اولین مخاطبین تھے ظاہر بات ہے یہ خدا کے وجود کے منکر نہیں تھے اس لیے مشرکین سے خدا کے وجود پر بحث کرنا بے سود ہے ۔ اسی طرح نصاری تین خداؤں کو مانتے تھے اس لیے قرآن نے ان کے مسلمات کو بنیاد بناکر ان کے غلط نظریات کی تردید کی ہے ۔ اسی لیے قرآن نے مشرکین کو بار بار چیلنج کیا ہے کہ تم جن خداؤں کو مانتے ہو اس کی کوئی دلیل تمہارے پاس نہیں ۔ اگر ہے تو پیش کرو ۔ 

وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ (المؤمنون : ١١٧) 

اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور الہ کو بھی پکار ے گا جس کے حق میں اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ، تو اس کا حساب اس کے رب کے ہاں ہوگا ۔ 

مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ أَمَرَ أَلا تَعْبُدُوا إِلا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ  (یوسف : ٤٠) 

تم اس کے سوا نہیں پوجتے ہو مگر چند ناموں کو جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ چھوڑے ہیں ۔ اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری ۔ 

قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الأرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ اِئْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (الاحقاف : ٤) 

ان سے کہو کہ کبھی تم نے غور بھی کیا ان چیزوں پر جن کو اللہ کے سوا تم پوجتے ہو ! مجھے دکھاؤ کہ زمین کی چیزوں میں سے انہوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے یا ان کا آسمانوں میں کون سا ساجھا ہے!میرے سامنے اس سے پہلے کی کوئی کتاب پیش کرو یا کوئی ایسی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو ، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ۔ 

نبی ﷺ کی زبان سے اہل کتاب کے لیے یوں پیغام دیا : 

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ  (آل عمران : ٦٤) 

کہہ دو اے اہل کتا ب ! اس چیز کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں مشترک ہے ۔ یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب ٹھہرائے ۔ اگر وہ اس چیز سے اعراض کریں تو کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو مسلم ہیں ۔ 

اسی طرح قرآن مجید میں جگہ جگہ اس قسم کے سوالات کیے گئے ہیں کہ آسمان اور زمین کا خالق کون ہے ؟ سورج کس نے نکالا ؟ اور چاند کوکس نے چمکایا ہے ؟ آسمان کو کسی سہارے کے بغیر کس نے قائم کیا ہے ؟ اکثر ان سوالوں کا جواب بھی خود ہی دے دیا ہے کہ اللہ نے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین مکہ کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں تھا ۔ مثلا سورہ مومنون میں آتا ہے : 

قُلْ لِمَنِ الأرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (٨٤) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلا تَذَكَّرُونَ (٨٥) قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (٨٦)سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلا تَتَّقُونَ (٨٧) قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (٨٨) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ ( المؤمنون  : ٨٩) 

ان سے پو چھو ، یہ زمین اور جو اس میں ہیں کس کے ہیں ، اگر تم جانتے ہو ! کہیں گے اللہ کے ۔ کہو تو کیا تم اس سے یا د دہانی نہیں حاصل کرتے ! پوچھو، ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا خداوند کون ہے ؟ کہیں گے یہ سب اللہ کے ہیں ۔ کہوں تو کیا تم اس اللہ سے ڈرتے نہیں ! پو چھو ، وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور وہ جانتا ہے ، لیکن اس کے مقابل میں پناہ نہیں دی جا سکتی ، اگر تم جانے ہو ! وہ کہیں گے یہ باتیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں ۔ کہو، پھر تمہارے مت کہاں ماری جاتی ہے ۔ 

قرآن مجید کا اصل موضوع صفات باری تعالی ہے ۔ کیونکہ ذات باری انسان کے فہم سے ماوراء ہے ۔ جیسے کسی فلسفی نے کہا کہ " ہم یہ تو بتا سکتے ہیں کہ خدا کیا نہیں مگر یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ خدا کیا ہے " ذات کے مسئلہ پر قرآن مجید نے حضرت موسی ؑ کا قصہ سناکر بات ختم کردی ہے ، جب وہ کوہ طور پر تھے تو خدا کی ذات کا مشاہدہ کرنے کی خواہش کی ۔ فرمایا : 

وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ( الاعراف: ١٤٣) 

اے میرے رب ، مجھے موقع دے کہ میں تجھے دیکھ لوں ۔ فرمایا ، تم مجھے ہر گز نہ دیکھ سکوگے ۔ البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر ا یہ اپنی جگہ پر ٹکا رہ سکے تو تم بھی مجھے دیکھ سکوگے ۔ تو جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسی ؑ بے ہوش ہوکر گرپڑے ۔ 


اصل سوال یہ ہے کہ خدا ہے تو اس کے ہمارے اوپر حقوق کیا ہیں اور ہمارے فرائض کیا ہیں ۔ یہی قرآن مجید کا اصل موضوع ہے ۔ قرآن نے بتایا کہ خدا کو ماننے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی صفات کے تقاضے بھی تسلیم کیے جائیں ۔ خدا خبیر ہے ، علیم ہے ، سمیع ہے ، رب ہے ، تو اس صفات کے تقاضے قرآن مجید نے تفصیل سے بیان کیے ہیں ۔ اسی سے دین بنتا ہے اور اسی سے شریعت بنتی ہے ۔ خدا اصل ماننا وہی ہے کہ انسان خدا کے حقوق تسلیم کرے اور اس کے فرائض کو مانے ، مسلم اور کافر میں فرق اسی سے واضح ہوتا ہے ۔

-----------------