قرآنی مکالمات : جن کا ایک مکالمہ

قرآنی مکالمات : جن کا ایک مکالمہ 
یہ مکالمہ سورۃ الجن میں ہے " الجن" اس سورت کا نام بھی ہے،  اس میں جنوں کے قرآن سن کر  اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ کرنے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ (1)
ارشاد باری تعالی ہے : 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا : 

اے نبی ؐ ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جِنّوں کے ایک گروہ نے غور سے سُنا پھر ﴿جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے ﴾ کہا:

 اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾ یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ وَ لَنۡ نُّشۡرِکَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا ۙ﴿۲﴾

” ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سُنا ہے  جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اِس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔“

 وَّ اَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّ لَا وَلَدًا ۙ﴿۳﴾ 

اور یہ کہ” ہمارے ربّ کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے ، اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے۔“

وَّ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوۡلُ سَفِیۡہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًا ۙ﴿۴﴾

اور یہ کہ” ہمارےنادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں۔“

 وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ تَقُوۡلَ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۙ﴿۵﴾ 

اور یہ کہ ”ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جِن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے“

وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الۡاِنۡسِ یَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الۡجِنِّ فَزَادُوۡہُمۡ رَہَقًا ۙ﴿۶﴾

اور یہ کہ”انسانوں میں سے کچھ لوگ جِنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اِس طرح اُنہوں نے جِنّوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا۔“

 وَّ اَنَّہُمۡ ظَنُّوۡا کَمَا ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ لَّنۡ یَّبۡعَثَ اللّٰہُ اَحَدًا ۙ﴿۷﴾ 

اور یہ کہ” انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا  کہ اللہ کسی کو رسُول بنا کر نہ بھیجےگا۔“

وَّ اَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰہَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِیۡدًا وَّ شُہُبًا ۙ﴿۸﴾

اور یہ کہ”ہم نے آسمان کوٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پَٹا پڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے۔“

 وَّ اَنَّا کُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ ؕ فَمَنۡ یَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ یَجِدۡ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا ۙ﴿۹﴾ 

اور یہ کہ”پہلے ہم سُن گُن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے ، مگر اب جو چوری چھُپے سُننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔“

وَّ اَنَّا لَا نَدۡرِیۡۤ اَشَرٌّ اُرِیۡدَ بِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اَمۡ اَرَادَ بِہِمۡ رَبُّہُمۡ رَشَدًا ﴿ۙ۱۰﴾ 

اور یہ کہ”ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا اُن کا ربّ اُنہیں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے۔“

وَّ اَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوۡنَ وَ مِنَّا دُوۡنَ ذٰلِکَ ؕ کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا ﴿ۙ۱۱﴾ 

اور یہ کہ”ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فرو تر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔“


وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ نُّعۡجِزَ اللّٰہَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَنۡ نُّعۡجِزَہٗ ہَرَبًا ﴿ۙ۱۲﴾

اور یہ کہ”ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اُسے ہرا سکتے ہیں۔“

 وَّ اَنَّا لَمَّا سَمِعۡنَا الۡہُدٰۤی اٰمَنَّا بِہٖ ؕ فَمَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِرَبِّہٖ فَلَا یَخَافُ بَخۡسًا وَّ لَا رَہَقًا ﴿ۙ۱۳﴾ 

اور یہ کہ”ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سُنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اب جو کوئی بھی اپنے ربّ پر ایمان لے آئے گا اسے کسی حق تلفی یا ظلم کا خوف نہ ہوگا۔“

وَّ اَنَّا مِنَّا الۡمُسۡلِمُوۡنَ وَ مِنَّا الۡقٰسِطُوۡنَ ؕ فَمَنۡ اَسۡلَمَ فَاُولٰٓئِکَ تَحَرَّوۡا رَشَدًا ﴿۱۴﴾  وَ اَمَّا الۡقٰسِطُوۡنَ فَکَانُوۡا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا ﴿ۙ۱۵﴾ 

اور یہ کہ”ہم میں سے کچھ مسلم﴿اللہ کے اطاعت گزار﴾ ہیں اور کچھ حق سے منحرف۔ تو جنہوں نے اسلام ﴿اطاعت کا راستہ﴾ اختیار کر لیا انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈلی، اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنّم کا ایندھن بننے والے ہیں۔“


--------------------------
(1)  " بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ بازارِ عکاظ تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں نخلہ کے مقام پر آپ نے صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت جنوں کا ایک گروہ ادھر سے گذر رہا تھا، تلاوت کی آواز سن کر ٹھہر گیا اور غور سے قرآن سنتا رہا۔ اسی واقعے کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔

اکثر مفسرین نے اس روایت کی بنا پر یہ سمجھا ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مشہور سفر طائف کا واقعہ ہے جو ہجرت سے تین سال پہلے 10 نبوی میں پیش آیا تھا لیکن یہ قیاس متعدد وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ طائف کے اس سفر میں جنوں کے قرآن سننے کا جو واقعہ پیش آیا تھا اس کا قصہ سورۂ احقاف آیات 29 – 32 میں بیان کیا گیا ہے۔ ان آیات پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس موقع پر جو جن قرآن مجید سن کر ایمان لائے تھے وہ پہلے سے حضرت موسٰی اور سابق کتب آسمانی پر ایمان رکھتے تھے۔

 اس کے برعکس اس سورت کی آیات 2 – 7 میں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس موقع پر قرآن سننے والے جن مشرکین اور منکرینِ آخرت و رسالت میں سے تھے۔ پھر یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ طائف کے اس سفر میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی حضور کے ساتھ نہ تھا۔ بخلاف اس کے اس سفر کے متعلق ابن عباس فرما رہے ہیں کہ اس میں چند صحابہ آپ کے ساتھ تھے۔ مزید برآں روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اُس سفر میں جنوں نے قرآن اس وقت سنا تھا جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طائف سے مکہ واپس تشریف لاتے ہوئے نخلہ میں ٹھیرے تھے۔ اور اِس سفر میں ابن عباس کی روایت کے مطابق جنوں کے قرآں سننے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ مکہ سے عکاظ تشریف لے جا رہے تھے۔ ان وجوہ سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورۂ احقاف اور سورۂ جن میں ایک ہی واقعہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ دو الگ واقعات تھے جو دو مختلف سفروں میں پیش آئے تھے۔

جہاں تک سورۂ احقاف کا تعلق ہے، اس میں جس واقعے کا ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں روایات متفق ہیں کہ وہ 10 نبوی میں سفر طائف میں پیش آیا تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دوسرا واقعہ کس زمانے میں پیش آیا، اس کا کوئی جواب ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے نہیں ملتا، نہ کسی اور تاریخی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ عکاظ کے بازار میں کب تشریف لے گئے تھے۔  البتہ اس سورت کی آیات 8 – 10 پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ نبوت کے ابتدائی دور کا واقعہ ہی ہو سکتا ہے۔ ان آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پہلے جن عالم بالا کی خبریں معلوم کرنے کے لیے آسمان میں سن گن لینے کا کوئی نہ کوئی موقع پا لیتے تھے، مگر اس کے بعد یکایک انہوں نے دیکھا کہ ہر طرف فرشتوں کے سخت پہرے لگ گئے ہیں اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کہیں ان کو ایسی جگہ نہیں ملتی جہاں ٹھیر کر وہ کوئی بھنک پا سکیں۔ اس سے ان کو یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ زمین میں ایسا کیا واقعہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کے لیے یہ سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ غالباً اسی وقت سے جنوں کے بہت سے گروہ اس تلاش میں پھرتے رہے ہوں گے اور ان میں سے ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے قرآن سن کر یہ رائے قائم کی ہوگی کہ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر جنوں پر عالم بالا کے تمام دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ (  دیکھئے سورۃ الجن : تفہیم القرآن ، جلد ششم ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )