احسن القصص

سورہ یوسف کا نام قرآن میں احسن القصص (سب سےبہترین قصہ ) آیا ہے اس سورہ کے نزول کے بارے میں روایت ہے کہ یہودیوں کے اشارے پر کفار مکہ میں سے کچھ لوگوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلّم کا امتحان لینے کے لیے، آپ کے سامنے  یہ سوال پیش کیا تھا کہ بنی اسرائیل کے مصر پہنچنے کا کیا سبب تھا ؟ اس سوال کےجواب میں اللہ تعالی نے سورہ یوسف نازل فرمایا ۔

اس سورہ کو احسن القصص اس لحاظ سے کہاگیا کہ انسانی زندگی کے تمام بنیادی کردارں کو اس سورت میں اس خوبی سے پیش کیا گیا ہے کہ ہر ایک کردار کی حقیقت نکھر کر سامنے آگئی ہے ، اس قصہ میں زندگی کے ان تمام مسائل کو بیان کیا گیا ہے جن کا انسان اور انسانی معاشرہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ اس میں توحید کے دلائل ، خوابوں کی تعبیر ، سیاسی مسائل ، معاشرہ کی بپچیدگیاں ، معاشی اصلاح کی تدابیر ، غرضکہ تمام وہ امور جو دین ، اخلاق اور دنیا کی اصلاح میں موثر ثابت ہوسکتے ہیں بڑی عمدگی اور تسلسل کے ساتھ ایک ہی سورت میں بیان کردیے گئے ہیں ۔ قصہ کا آغازیوسف ؑ کے ایک خواب کے ذکر سے ہوتا ہے پھر اختتام بھی اسی خواب کے ذکر سے ہوتا ہے ۔ گویا پورا قصہ حضرت یوسف ؑ کے خواب کی عملی تعبیر پر مشتمل ہے ۔ 

اس کی تفصیل یوں ہے کہ ابراہیم ؑ کی نسل بنی اسحاق ؑ، جس کی اہم شاخ بنی یعقوب ( اسرائیل) ہے،اللہ تعالی نے ان کی نسل سے عظیم قومیں پید اکیں ۔ انہیں سے نبوت کا سلسلہ آگے چلا ۔ ابراہیم ؑ کے پوتے یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے ، جوشام اور مصر میں آبادہوئے۔ ان میں جلیل القدر انبیاءاور بادشاہ پیدا ہوئے ۔ بنی یعقوب یعنی بنی اسرائیل کے اس سلسلہ نبوت کا سب سے پہلے نبی حضرت یوسف ؑ ہیں ۔ 

بائیبل کے مطابق یعقوب ؑ کی چار بیویاں تھیں ،جن سے بارہ بیٹے پیدا ہوئے ۔ ان چارمیں سے ایک سے یوسف ؑ اور ان کے چھوٹے بھائی بنیامین پیدا ہوئے ۔ علمائے بائیبل کی تحقیق کے مطابق یوسف ؑ کی پیدائش تقریبا 1906 قبل مسیح میں ہوئی ۔ یوسف ؑ جب سترہ سال کے تھے۔ تو ان کے بھائیوں نے ان سے حسد کرتے ہوئے ان کو کنویں میں بھینکا ، ایک قافلے نے ان کو کنویں سے نکال کر مصر لے جاکر عزیز مصر کو فروخت کردیا ۔ 

مصر پر اس زمانہ میں عربی النسل قوم کے پندرھویں خاندان کی حکومت تھی ۔ جو چرواہے بادشاہوں کے نام سے مشہور تھے ۔ یہ لوگ ابراہیم ؑ کے زمانہ سے سلطنت مصر پر قابض تھے ۔ علماء بائیبل کے مطابق یوسف ؑ کے ہم عصر فرمانروا کا نام اپوفیس ( Apophis) تھا ۔ 

یوسف ؑ ستر ہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں مصر پہنچے ۔ تقریبا تین سال عزیز مصر کے گھر میں اور نو سال جیل میں گزارے ۔ تقریبا تیس سال کی عمر میں ملک کے فرمانروا بنے ۔اور اسّی سال کی عمر تک تمام مملکت مصر پر حکومت کی ۔ اپنی حکومت کے نویں یا دسویں سال اپنے پورے خاندان کو فلسطین کا علاقہ کنعان سے مصر بلالیا ، اورجُشَن نام علاقے میں ان کو آباد کیا ۔ حضرت موسی ؑ کے زمانہ تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے۔ بائیبل کے مطابق ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی ۔ اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ" جب تم اس ملک سے نکلو تو میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے جانا ۔" یہ لوگ پندرھویں صدی قبل مسیح کے اختتام تک وہاں حکمران رہے ۔ اس کے بعد ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اٹھی ، جس نے ان کے اقتدار کا تختہ الٹ دیا ،۔ ایک نہات متعصب قبطی النسل خاندان برسر اقتدار آگیا۔ ڈھائی لاکھ کی تعداد میں غیر قبطیوں کو ملک سے نکال دیے گئے۔ پھر بنی اسرائیل پر ان مظالم کا سلسلہ شروع ہوا ، جن کا ذکر موسی ؑ کے واقعات میں ملتا ہے ۔ 

یوسف ؑ حسن ظاہر و حسن باطن دونوں کے جامع تھے ۔ لیکن ان کا اصلی حسن ان کی آزمائشوں میں نمایاں ہوا ہے ۔ وہ بیک وقت ذہانت ، پاکیزگی ، نبوت ، پاکدامنی،بادشاہی ، اور قدرت کےباوجودعفو و درگزر کی ایک زندہ جاوید مثال ہیں ۔ 

----------- 

یوسف ؑ کا واقعہ قرآن مجید میں ایک منفرد انداز میں آیا ہے ۔ اس سے مشابہ صرف موسی ؑ کا واقعہ ہے لیکن وہ بھی مکمل نہیں ، اس اعتبار سے ہے کہ موسی ؑ کے واقعات بھی بچپن سے نبوت تک تسلسل سے بیان ہوا ہے ۔ دونوں نبیوں کےواقعات میں خاص بات یہ ہے کہ یوسف ؑ کے ذریعے بنی اسرائیل مصر میں داخل ہوئے تھے اور موسی ؑ کے ذریعے وہاں سے اللہ کے عذاب سے بچکر نکل آئے ۔ 

یوسف ؑ کے قصہ میں دو متضادکردار بہت نمایاں ہیں ۔ ایک طرف یوسف ؑ کے آباؤ و اجداد ابراہیم ؑ ، اسحاق ؑاور یعقوب ؑکی ملت ابراہیمی ؑ کی پیروی ہے ۔ اور دوسری طرف برادران یوسف ؑ ، قافلہ تاجران ، عزیز مصر ، اس کی بیوی ، و بیگمات مصر اور حکام مصر کے کردار ہیں ۔ دونوں کردار کےمابین کشمکش کے ساتھ قصہ اپنے اختتام تک پہنچتا ہے ۔ ایک وہ کردار ہیں جو عقیدۂ توحید ، اطاعت الہی سے عبارت ہیں ۔ اور دوسرے جاہلیت ، دنیا پرستی ، شرک و کفر پر مبنی ہیں ۔ 

عام طور پر لوگ ان قصوں سے بہت دلچسپی لیتے ہیں جن میں کچھ حسن و عشق کی جاشنی ہو، لیکن ایسے قصے بالعموم اخلاق کو بھی متاثر کرتے ہیں ، البتہ قصہ یوسف ؑ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں حسن و عشق کی چاشنی بھی ہے اور پھر پورا قصہ ، یوسف ؑ کے اعلی کردار وصفات کا ایک مرقع ہے ۔ تمام نازک مواقع اور آزمائشوں میں یوسف ؑ نے اپنی اعلی فطرت کے جوہر نمایاں کیے ۔ ان کے وہ کردار ایسے شاندار ہیں کہ پڑھنے والےکے اندر اس کی تقلید کا جذبہ پیداکردیتا ہے ۔ 

اس قصہ میں جو سب سے اہم سبق قاری کو ملتا ہے یہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے ہر صورت وہ ہوکر رہتا ہے ۔ انسان اپنی تدبیروں سے اللہ کے منصوبوں اور فیصلوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ برادران یوسف ؑ کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ اپنے معصوم بھائی کو کنویں میں بھینک کر شاہ مصر کے تخت پر پہنچار ہے ہیں ۔ اور نہ عزیز مصر کی بیوی کو یہ خبر تھی کہ وہ اپنے زر خرید غلام کو قید خانہ بھیجواکر تخت سلطنت پہنچنے کا راستہ صاف کررہی ہے ۔ بالآخر اللہ تعالی اپنے منصوبے کے مطابق برادران یوسف ؑ کو اپنی ندامت اور شرمساری کے ساتھ اپنے بھائی یوسف ؑ کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کردیتے ہیں اور اسی طرح عزیز مصر کی بیوی کو اپنی خیانت کے سرعام اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہیں ملتا ۔ بیشک اللہ جسے عزت دینا چاہے ساری دنیا ملکر اس کو ذلیل نہیں کر سکتی ، اور جس کو ذلیل کرنا چاہے تو ساری دنیا بھی ملکر اس کو ذلت سے نہیں بچا سکتی ۔ 

مثلاابھی یوسف ؑ کی سترہ سال عمر ہے وہ تن تنہا ، اجنبی ملک میں غلام کی حیثیت سے اپنے کردار کا آغاز کرتے ہیں ، اس پر مزید ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگاکر انہیں جیل بھیج دیے جاتے ہیں ۔ جس کے لیےمدت سزا کا بھی کوئی تعین نہ تھا ۔ اس حالت تک پہنچنے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اعلی اخلاق کی بدولت پھر اٹھتے ہیں بالآخر پورے ملک کو اپنی شخصیت ، اعلی اخلاق و کردار کی تاثیر سے مسخر کرلیتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کا بادشاہ ایک خواب دیکھتا ہے، یوسف ؑ کے سوا اس کی درست تعبیر کوئی نہیں دے سکا ، اس پر بادشاہ مہربان ہوکران کو جیل سے بری کردیتا ہے ۔ اسی زمانہ میں مصر اپنی تاریخ کے بدترین قحط سے دوچار تھا ۔ بادشاہ اس قحط سے نبرد آزما ہونے کے لیے یوسف ؑکو پہلے وزیر خزانہ مقرر کرتا ہے پھر حکومت کے سارے اختیارات انہیں سونپ دیتا ہے ۔ اس طرح یوسف ؑ کنعان میں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں سب سے پہلے کنویں میں پھر تاجروں کے ذریعے عزیز مصر کے گھر پھر جیل پہنچ جاتے ہیں پھر بادشاہ مصر کےحکم سے جیل سے رہا ہوکر مصر کےتخت پر براجمان ہوتے ہیں ۔ 

اللہ تعالی کی اسکیم کے مطابق اس طرح مصر میں بنی اسرائیل کو اقتدار حاصل ہو جاتا ہے ، یہ پیغمبر یعقوب ؑ کی اولاد تھے ۔ ان کے لیڈر یوسف ؑ تھے جن کی بدولت مصر میں بنی اسرائیل کے قدم جمے ۔ یوسف ؑ کی وفات کے بعد پانچ صدی تک ملک میں اقتدار انہیں لوگوں کے ہاتھ میں رہا ۔ اس دوران انہوں نے دین اسلام کی خوب تبلیغ کی ۔

قرآن میں بنی اسرائیل کی اسی عظمت اور اقتدار کی طرف درج ذیل آیت میں اشارہ ملتا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے: 

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (الانعام : 47)

" اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میری اُس نعمت کو ، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی"

"یہ اُس دَور کی طرف اشارہ ہے جب کہ تمام دُنیا کی قوموں میں ایک بنی اسرائیل کی قوم ہی ایسی تھی، جس کے پاس اللہ کا دیا ہوا علمِ حق تھا اور جسے اقوامِ عالم کا امام و رہنما بنا دیا گیا تھا، تاکہ وہ بندگیِ ربّ کے راستے پر سب قوموں کو بُلائے اور چلائے۔" ( تفہیم القرآن جلد اول سورہ بقرہ : حاشیہ نمبر69:  سید ابوالاعلی مودودی ؒ )