قرآن پاک کی آیات اور سورتوں کی ترتیب - ڈاکٹر محمد حمیداللہ

قرآن پاک کی آیات اور سورتوں کی ترتیب 
اس بارے میں سب کو اتفاق ہے کہ قرآن کے سوروں(سورتوں)کے اندر آیتوں کی جو ترتیب ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہے، لیکن خود سوروں کی ترتیب جو موجودہ قرآن میں ہے کہ پہلے سورۂ فاتحہ، پھر سورۃ بقرہ وغیرہ، وہ کس نے دی؟ ذیل کی روایت بخاری و مسلم نے تو نہیں البتہ طبری، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن حنبل، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے نقل کی ہے کہ ایک دن حضرت ابن عباس رض نے حضرت عثمان رض سے پوچھا کہ سورہ انفال کو جو چھوٹا ہے، سورۃ برأت سے جو بڑا ہے، پہلے کیوں رکھا گیا ہے؟ اور سورۃ برأت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی نہیں ہے، یہ کیوں؟ انہوں نے جواب دیا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض وقت کئی کئی سورے بہ یک وقت جزأً جزأً بھی نازل ہوتے تھے، (اس کا کچھ حصہ اور اس کا کچھ حصہ)۔ جب آپ پر کوئی چیز نازل ہوتی تو کاتب کو بلا کر لکھاتے اور کہتے کہ اسے فلاں سورے کے فلاں مقام پر درج کرو۔ سورۃ انفال ہجرت کے آغاز پر نازل ہوا اور سورۃ برأت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری زمانے میں،دونوں کے مندرجات میں مماثلت ہے اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایاکہ یہ دونوں ایک ہی سورت ہیں۔ اس لیے میں نے ان دونوں کو پاس پاس تو رکھا ( یعنی ان کی ترتیب تو جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، باقی رکھی) لیکن ان کے درمیان بسم اللہ (اپنی طرف سے) نہیں بڑھایا اور سورۃ انفال کو (مختصر تر ہونے کے باوجود) سات لمبے سوروں ہی میں رکھا۔ اس ایک روایت کی اساس پر (جس کے راویوں میں ایک غیر معروف شخص ہونے کے باعث یہ نہیں معلوم کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بعینہ یہ الفاظ کہے یا ان کے مفہوم کو یوں بیان کیا گیا) بعض مؤلفوں نے یہ خیال کیا ہے کہ سوروں کی ترتیب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دی (ذیل تفسیر ابن کثیر ص 11 تا 12 مع حاشیہ)۔

لیکن یہ غلط فہمی ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پوری دیانت داری سے قرآن کو جوں کا توں رکھتے ہیں اور اپنی طرف سے بسم اللہ الرحمن الرحیم تک کا اضافہ کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ سورۃ برأت میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں "رحمت" نہیں بلکہ کافروں کے ساتھ شدت کا حکم ہے اور ان سے کیے ہوئے حلیفی کے معاہدوں کے منسوخ کرنے کا یکطرفہ اعلان ہے۔ رہی ترتیب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہےاور سب جانتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت  تھی کہ ہر سال (کم ازکم مدینے میں) اس وقت تک نازل شدہ سارا قرآن مجمع عام میں بہ آواز بلند سنائیں (اور روایت میں ذکر ہے کہ اس وقت جبرئیل بھی موجود رہتے تھے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حافظے میں کبھی تردد ہو ہوتو فوراً لقمہ دے کر اصلاح کردیں) اور یہ کہ وفات سے پہلے کے رمضان میں جبرئیل علیہ السلام کے کہنے میں  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن دو مرتبہ سنایا (اور اس سے استنباط کیا کہ اب قرآن کی تکمیل ہوگئی ہے اور آپ کی جلد وفات ہونے والی ہے)۔ اس قرأت سماعت کو عرضہ کا نام دیا گیا ہے اور آخری سال کے معاملے کو عرضۂ اخیرہ۔ اس وقت صحابہ اپنے نجی نسخوں کے ساتھ حاضر رہتے اور مقابلہ میں کوئی غلطی یا کوتاہی پاتے تو فوراً اصلاح کرلیتے (ایضاً ابن کثیر، صفحہ 14)۔ ان حالات میں اس کا امکان نہیں کہ سوروں کی ترتیب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور نے دی ہو۔ مزید برآں آج تک حافظوں اور قاریوں کو نسلاً بعد نسل ان کے استادوں سے جو سند ملتی ہے اس میں موجودہ ترتیب ہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کی صراحت ہوتی ہے۔ مثلاً مدینہ منورہ کے شیخ القراء مولانا شیخ حسن الشاعر اپنے شاگردوں کو جو اجازت نامہ دیتے ہیں اس کے آخری الفاظ یہ ہوتے ہیں: عثمان، و علی، و ابن مسعود، و ابی بن کعب، و زید بن ثابت رضی اللہ عنھم نے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے، انہوں نے لوح محفوظ سے پڑھا اور اس میں رب العزت جل جلالہ (کی طرف سے) آیا۔

غالباً انہی وجوہ سے امام مالک نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ سوروں کی موجودہ ترتیب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دی ہوئی ہے۔

(قرآن منزل بہ منزل از ڈاکٹر محمد حمیداللہ)