قرآن کی تفسیر کے لیے عمدہ اصول (قاعدہ ۔ ۱۲ )

قاعدہ ۱۲: وہ قرآنی آیات جنہیں کم فہم لوگ متضاد سمجھتے ہیں

ہر قسم کی ایسی آیات کو سیاق و سباق کے مطابق اس کے مناسب معنی میں لیا جانا چاہیے۔

یہ اصول قرآن میں کئی مقامات پر لاگو ہوتا ہے، مثلاً:

  1. کفار کا قیامت کے دن بولنا یا خاموش رہنا:
    بعض آیات میں ذکر ہے کہ کفار قیامت کے دن کچھ نہیں بولیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    📖 "هَٰذَا يَوْمُ لَا يَنطِقُونَ * وَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ"
    (یہ وہ دن ہوگا جس میں وہ نہ بول سکیں گے، اور نہ انہیں اجازت دی جائے گی کہ وہ عذر پیش کریں)۔ (المرسلات: 35-36)    جبکہ بعض دیگر آیات میں آیا ہے کہ وہ بحث کریں گے، عذر پیش کریں گے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے پہل گفتگو کریں گے، اپنی براءت پیش کریں گے اور شاید جھوٹ بول کر قسمیں بھی کھائیں گے، لیکن جب ان کے منہ بند کر دیے جائیں گے اور ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے، تب وہ خاموش ہو جائیں گے، کیونکہ انہیں سمجھ آ جائے گا کہ جھوٹ کا اب کوئی فائدہ نہیں۔
  2. اللہ تعالیٰ کا کفار سے کلام کرنا یا نہ کرنا:
    بعض آیات میں آیا ہے کہ اللہ قیامت کے دن ان سے بات نہیں کرے گا اور ان کی طرف دیکھے گا بھی نہیں، "إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَيَشْتَرُونَ بِهِۦ ثَمَنًۭا قَلِيلًۭا أُو۟لَٰٓئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِى بُطُونِهِمْ إِلَّا ٱلنَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ ٱللَّهُ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ"
    (جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت لیتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، اللہ قیامت کے دن ان سے بات نہ کرے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے)۔ (البقرہ: 174)   جبکہ دیگر آیات میں ذکر ہے کہ اللہ ان سے کلام کرے گا۔ "قَالَ ٱخْسَـُٔوا۟ فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ" (اللہ کہے گا: دفع ہو جاؤ اس میں اور مجھ سے بات نہ کرو!)۔ (المؤمنون: 108)  درحقیقت، جہاں کلام کی نفی کی گئی ہے، اس سے مراد وہ کلام ہے جو رحمت اور عزت پر مبنی ہو، جبکہ جہاں اللہ کا کلام ثابت کیا گیا ہے، وہ تذلیل، عتاب اور سرزنش کے طور پر ہوگا۔
  3. کیا قیامت کے دن گناہگاروں سے سوال ہوگا یا نہیں؟
    بعض آیات میں آیا ہے کہ قیامت کے دن گناہگاروں سے ان کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا،"فَيَوْمَئِذٍۢ لَّا يُسْـَٔلُ عَن ذَنۢبِهِۦٓ إِنسٌۭ وَلَا جَانٌّۭ"
    (پس اس دن نہ کسی انسان سے اس کے گناہ کے بارے میں پوچھا جائے گا اور نہ کسی جن سے)۔ (الرحمن: 39)   جبکہ بعض آیات میں ذکر ہے کہ ان سے پوچھا جائے گا"فَوَرَبِّكَ لَنَسْـَٔلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ * عَمَّا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ"
    (پس تیرے رب کی قسم! ہم ان سب سے ضرور پوچھیں گے، ان کے اعمال کے بارے میں جو وہ کرتے تھے)۔ (الحجر: 92-93) کہ وہ دنیا میں کس کی عبادت کرتے تھے   {مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ} [الشعراء: ٩٢] اور انبیاء کے پیغام پر کیا جواب دیتے تھے۔ و {مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ} [القصص: ٦٥]  ان دونوں بیانات میں تضاد نہیں، بلکہ جہاں سوال کی نفی کی گئی ہے، وہاں مراد ایسا سوال ہے جو کسی نامعلوم چیز کو جاننے کے لیے کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ پہلے ہی جانتا ہے۔ اور جہاں سوال کا اثبات کیا گیا ہے، وہاں مراد سرزنش اور حجت تمام کرنے کے لیے سوال کیا جانا ہے۔
  4. کیا قیامت کے دن نسب (رشتہ داری) کا کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں؟
    بعض آیات میں کہا گیا ہے کہ اس دن کسی کے درمیان نسبی تعلق باقی نہیں رہے گا، "فَإِذَا نُفِخَ فِى ٱلصُّورِ فَلَآ أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍۢ وَلَا يَتَسَآءَلُونَ"  (پس جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ کسی کے درمیان نسب کا تعلق باقی رہے گا اور نہ کوئی کسی سے پوچھے گا)۔ (المؤمنون: 101)   جبکہ دیگر آیات میں ذکر ہے کہ قیامت کے دن لوگ اپنے رشتہ داروں سے دور بھاگیں گے۔ جیسے اللہ تعالی فرماتے ہیں {يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ  وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ} [عبس:٣٤، ٣٥] اس کا مطلب یہ ہے کہ نسبی تعلقات کا دنیاوی فائدہ نہیں ہوگا، یعنی کفار اگر یہ گمان رکھتے ہیں کہ ان کے رشتے انہیں بچا لیں گے، تو ایسا نہیں ہوگا۔ تاہم، مومنین کے اہل و عیال اور اولاد کو ان کے ایمان کی بدولت جنت میں اعلیٰ درجات دیے جائیں گے، یہ قرآن میں ثابت ہے۔"وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَٰنٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ" (اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی، ہم ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے)۔ (الطور: 21) {يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ  إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ} [الشعراء: ٨٨-٨٩] "جس دن نہ مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے، مگر وہی (فائدے میں رہے گا) جو اللہ کے حضور پاک دل لے کر آیا۔" 
  5. قیامت کے دن شفاعت (سفارش) کا ہونا یا نہ ہونا:
    بعض آیات میں آیا ہے کہ قیامت کے دن کوئی سفارش نہیں چلے گی،  جبکہ بعض میں ذکر ہے کہ سفارش ہوگی۔ درحقیقت، جہاں سفارش کی نفی کی گئی ہے، وہاں مراد وہ سفارش ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر ہو، اور جہاں سفارش کا اثبات کیا گیا ہے، وہاں مراد وہ سفارش ہے جو اللہ کی اجازت اور رضا کے ساتھ ہوگی۔
  6. کیا اللہ تعالیٰ گمراہوں کو ہدایت دیتا ہے یا نہیں؟
    بعض آیات میں ذکر ہے کہ اللہ ظالموں، فاسقوں اور کافروں کو ہدایت نہیں دیتا، {إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ} [يونس: ٩٦، ٩٧]  "بے شک وہ لوگ جن پر تیرے رب کا فرمان ثابت ہو چکا ہے، وہ ایمان نہیں لائیں گے، چاہے ان کے پاس ہر طرح کی نشانی آ جائے۔" (یونس: 96-97)  جبکہ بعض میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ ان دونوں میں تضاد نہیں، کیونکہ جہاں ہدایت کی نفی کی گئی ہے، وہاں مراد وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کا عذاب اور گمراہی کا فیصلہ ہو چکا ہے، جبکہ جہاں ہدایت کا اثبات ہے، وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو سچے دل سے راہِ راست کے متلاشی ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا عذاب اور اس کی طرف سے دوری کا فیصلہ ان ہی لوگوں پر ثابت ہوتا ہے جو اندھی تقلید میں پھنسے رہے، غفلت کے سمندر میں ڈوب گئے، اور اللہ کی کونی و علمی آیات کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔  ﴿فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ﴾ "پھر جب وہ (حق سے) منحرف ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو (بھی) ٹیڑھا کر دیا، اور اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔" (الصف: 5)  ﴿وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ﴾ "اور جو لوگ ہدایت اختیار کرتے ہیں، اللہ ان کی ہدایت کو اور بڑھا دیتا ہے اور انہیں پرہیزگاری عطا فرماتا ہے۔" (محمد: 17)  اور یہی وہ برحق حقیقت ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
  7. اللہ تعالیٰ کا بلند و بالا ہونا اور بندوں کے ساتھ ہونا:
    بعض آیات میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ بلند و بالا ہے اور اپنے عرش پر مستوی ہے، جبکہ بعض آیات میں آیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے بلند ہے، مگر اپنے علم، قدرت اور نگرانی کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے۔ اور جہاں خاص طور پر مومنوں کے ساتھ ہونے کا ذکر ہے، وہاں مراد ان کی مدد، حفاظت اور نصرت ہے۔

  8. کافروں سے تعلقات کا مسئلہ:
    بعض آیات میں کافروں سے دوستی اور تعلق رکھنے سے منع کیا گیا ہے، جبکہ بعض آیات میں کہا گیا ہے کہ والدین، پڑوسیوں اور دیگر غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ اس تضاد کو ختم کرنے کے لیے سورۃ الممتحنہ میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ جو لوگ دین کے معاملے میں مسلمانوں سے لڑائی نہیں کرتے اور انہیں ان کے گھروں سے نہیں نکالتے، ان کے ساتھ حسن سلوک جائز ہے، لیکن جو لوگ مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار ہیں، ان سے دوستی منع ہے۔ {لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ * إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [الممتحنة: ٨، ٩]

  9. زمین و آسمان کی تخلیق کا ترتیب وار ذکر:
    بعض آیات میں ذکر ہے کہ اللہ نے پہلے زمین بنائی، پھر آسمانوں کو پیدا کیا، جبکہ دیگر آیات میں آیا ہے کہ اللہ نے پہلے آسمان بنایا، پھر زمین کو پھیلایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی ابتدائی تخلیق پہلے ہوئی، اور جب آسمان مکمل ہو گئے، تو زمین میں اللہ نے اسبابِ حیات پیدا کیے۔

  10. کیا اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے یا بعض امور کے بارے میں ہی جانتا ہے؟
    بعض آیات میں اللہ کی ہر چیز پر علم کا ذکر ہے، جبکہ بعض میں کسی مخصوص چیز کے علم کا ذکر ہے۔ درحقیقت، جب کسی خاص چیز کے بارے میں اللہ کے علم کا ذکر ہوتا ہے، تو اس میں اس چیز کے ساتھ اللہ کے فیصلہ اور جزا و سزا کا تعلق بیان کیا جاتا ہے۔

  11. جہاد اور صبر کا حکم:
    بعض آیات میں جہاد کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ بعض میں صبر اور دشمن سے درگزر کا حکم ہے۔ درحقیقت، جب مسلمان کمزور تھے، تو انہیں صبر کا حکم دیا گیا، لیکن جب ان کے پاس طاقت آ گئی، تو انہیں جہاد کا حکم دیا گیا۔

  12. اسباب اور تقدیر کا مسئلہ:
    بعض آیات میں ذکر ہے کہ ہر چیز اللہ کی تقدیر سے ہوتی ہے، جبکہ بعض میں ذکر ہے کہ چیزیں اسباب کے تحت رونما ہوتی ہیں۔ ان دونوں میں تضاد نہیں، بلکہ اسباب کو اختیار کرنا بھی اللہ کے مقرر کردہ قوانین میں شامل ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اسباب کو اپنائے، مگر بھروسہ اللہ پر رکھے۔

  13. نیکی اور برائی کی نسبت:
    بعض آیات میں آیا ہے کہ جو بھی نیکی ہوتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے، اور جو برائی ہوتی ہے، وہ انسان کے اپنے نفس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ہر چیز اللہ کی مشیئت کے تحت ہے، مگر برائی انسان کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔

یہ تمام اصول قرآن کی صحیح تفہیم کے لیے ضروری ہیں اور ان میں کوئی حقیقی تضاد نہیں، بلکہ ہر بات اپنے سیاق و سباق میں درست ہے۔


یہ بھی پڑھیں !