قاعدہ نمبر 13: باطل ادیان کے ماننے والوں سے قرآن کا طریقۂ حجت و مجادلہ
اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ بحث و مجادلہ "بہترین طریقے" سے کی جائے، اور جو شخص ان طریقوں پر غور کرے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ہاتھوں باطل پرستوں سے حجت قائم کی، وہ انہیں نہایت روشن، مضبوط، سیدھی اور حق کو ثابت کرنے والی اور باطل کو باطل قرار دینے والی پائے گا، ایسے انداز میں کہ نہ اس میں کسی قسم کا انتشار ہو اور نہ کوئی سختی یا الجھن۔
غور کرو کہ رسولوں نے اپنی امتوں سے کیسے مناظرہ کیا، اور کیسے انہیں صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا، اس بنیاد پر کہ وہی ربوبیت میں یکتا ہے، وہی ہر نعمت دینے والا ہے، وہی ہے جس نے انہیں صحت، سماعت، بصارت، عقل، رزق اور ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمائیں، اور وہی ہے جو مصیبتوں کو دور کرنے والا ہے۔ اس کائنات میں کوئی مخلوق ایسی نہیں جو نقصان یا نفع پہنچانے پر قادر ہو۔
جب بندہ اس حقیقت کو جان لیتا ہے اور دل سے تسلیم کر لیتا ہے تو لازم ہے کہ وہ سچے دین کی طرف رجوع کرے، وہی دین جس سے نعمت مکمل ہوتی ہے، اور جس کے ذریعے ان نعمتوں کا شکر ادا کیا جا سکتا ہے۔
اکثر اوقات قرآن مشرکوں پر اس طرح حجت قائم کرتا ہے کہ وہ خود ربوبیت میں اللہ کے اقرار کو بطور دلیل پیش کرتا ہے: کہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، وہی ہر چیز کا رازق ہے۔ جب وہ خود اس کا اعتراف کرتے ہیں تو لازماً وہی اکیلا عبادت کے لائق ہونا چاہیے۔
ذرا اس دلیل پر غور کرو: کس طرح انسان کا ذہن پہلی ہی نظر میں اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ جس ذات کی ربوبیت کے یہ آثار ہیں، اس کی عبادت میں اخلاص واجب ہے۔
قرآن باطل پرستوں سے مناظرہ کرتا ہے کہ جن کی وہ پوجا کرتے ہیں، ان کے معبود ہر اعتبار سے ناقص ہیں، وہ نہ خود کو نفع دے سکتے ہیں اور نہ اپنے پجاریوں کو۔
اہلِ کتاب پر بھی دلائل قائم کرتا ہے کہ ان کی تاریخ میں اپنے رسولوں کی مخالفت کی متعدد مثالیں موجود ہیں، لہٰذا جب وہ خاتم النبیین محمد ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں، تو یہ تعجب کی بات نہیں، حالانکہ وہ رسول ان گذشتہ رسالتوں کی تصدیق کرنے والا ہے، جن کا مقصد ایک ہی تھا: کہ انسان کے دل سے اندھی تقلید کی بیڑیاں کھولی جائیں، تاکہ وہ اپنی سماعت، بصارت اور دل سے اپنے رب کی آیات میں غور و فکر کریں، اور اس کے ذریعے وہ جان لیں کہ وہی سچا معبود ہے۔
اور یہ بھی کہ جنہیں لوگوں نے انسانوں اور جنوں کے شیطانی وسوسوں سے معبود بنا لیا ہے، وہ سب اللہ کی پیدا کردہ آیات میں سے ہیں، اس لیے وہ کسی بھی طرح ربّ و خالق کے شریک ہونے کے لائق نہیں، نہ ہی انہیں عبادت کا مقام دیا جا سکتا ہے، بلکہ انہیں صرف مخلوق اور بندہ مانا جائے۔
اور یہ کہ خالقِ کائنات، جس کی مثل کوئی چیز نہیں، وہی تمام عبادتوں کا اکیلا مستحق ہے، اور اس کی عبادت صرف اسی طرح کی جائے جس طرح اس نے پسند فرمایا اور جسے اس نے مشروع کیا۔
قرآن مشرکوں کے لیڈروں اور باطل کے داعیوں کی جھوٹی دعووں اور خودساختہ پاکیزگیوں کو رد کرتا ہے، اور ان کے حقیقی حالات و اوصاف سے ان کی تردید کرتا ہے۔ وہ ان سے حق کو واضح دلائل کے ساتھ بیان کرتا ہے، اور صرف حق کی سچائی ہی ان کے جھوٹے دعووں کو ختم کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
یہ ایک ایسا اصول ہے جو قرآن میں بار بار آتا ہے، اور یہ دعوتِ حق اور ہر اس باطل کے رد میں مؤثر ہے جو حق کے منافی ہو۔
قرآن ان سے اس بنیاد پر مناظرہ کرتا ہے کہ ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا ضروری ہے، اور یہ کسی طور مناسب نہیں کہ ایک کمزور، عاجز، اور ہر اعتبار سے محتاج مخلوق کو خالق، غنی اور ہر لحاظ سے کامل رب کے حقوق میں شریک کیا جائے۔
اسی طرح وہ ان سے چیلنج کے انداز میں مطالبہ کرتا ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو لائیں کوئی ایسی کتاب یا شریعت جو اس قرآن اور اس شریعت سے زیادہ ہدایت بخش اور بہتر ہو، یا قرآن کا کوئی مثل بنا کر دکھائیں۔
قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں سے مباهلہ کا حکم بھی دیتا ہے جن کی ضد اور ہٹ دھرمی ظاہر ہو چکی ہو، مگر وہ مباہلہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ سچے رسول ہیں، جو اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے، اور اگر وہ مباہلہ کرتے تو ہلاک ہو جاتے۔
اور خلاصہ یہ ہے کہ کوئی راستہ ایسا نہیں جو حق کو ثابت کرنے اور باطل کو باطل ثابت کرنے میں مفید ہو، مگر قرآن نے اسے نہایت کامل اور واضح انداز میں بیان کر دیا ہو۔
یہ بھی پڑھیں !