قرآن نے مکہ کو امّ القریٰ (آبادیوں کی ماں ) کیوں کہا؟

قرآن نے مکہ کو ام القرٰی ( آبادی کی ماں ) کیوں کہا ؟
 ارشاد باری تعالی ہے :

"وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا "(الانعام:92)

"یہی کتاب ہے ہم نے اس کو نازل کیا ہے ۔برکت والی ہے ۔ تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو اس سے پہلے ہو چکی ہیں تاکہ آپ ڈرئیں(اہل) ام القری(مکہ ) اور اس کے ارد گرد والوں کو بھی "

مؤرخ ابن قتیبہ جس نے 276 ھ میں وفات پائی ہے لکھا : " سام بن نوح نے درمیانی زمین : مکہ ، اطراف مکہ مثلا : یمن، حضر موت، عمان ، بحرین ، سیرین ، وبار ، دو ،دہنا تک آباد ہو ا۔"

علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں "اُم القریٰ" بستیوں کی اصل اور جڑ کو کہتے ہیں مکہ معظمہ تمام عرب کا دینی اور دنیاوی مرجع تھا اور جغرافیائی حیثیت میں بھی قدیم دنیا کے وسط میں مرکز کی طرف واقع ہے اور جدید دنیا (امریکہ) اس کے نیچے ہے اور روایات حدیث کے موافق پانی سے زمین بنائی گئی تو اول یہی جگہ کھلی تھی۔ ان وجوہ سے مکہ کو "ام القریٰ" فرمایا اور آس پاس سے مراد یا عرب ہے کیونکہ دنیا میں قرآن کے اول مخاطب وہی تھے۔ ان کے ذریعہ سے باقی دنیا کو خطاب ہوا اور یا سارا جہان مراد ہو جیسے فرمایا: لَیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً۔

صاحب تفسیر مظہر ی فرماتے ہیں : تاریخی روایات کے مطابق ابتداء آفرینش میں پیدائش زمین کی ابتداء یہیں سے ہو ئی ہے ، نیز سارے عالم کا قبلہ اور عبادت میں مرکز توجہ یہی ہے ۔

سید سلیمان ندوی ( تاریخ ارض القرآن ) میں لکھا :کسی نے کہا کہ مکہ روحانی مرکز ہےجہاں روح کی سیرابی کا سامان فراہم کیا گیا ۔ اس لیے اس کو ام القری کہا ، بعض نے کہا قدیم جغرافیہ کے لحاظ سے یہ زمین کے عین وسط میں واقع ہے ۔ یہ شہر دنیا کی تہذیبوں کا سنگم تھا اس کی ایک طرف مصری ، رومی ، یونانی تہذیب تھی اور دوسری طرف کلدانی ، ایرانی اور ہندی تہذیب تھی ۔بہر حال جو بھی اسباب ہو، تاریخ کی روشنی میں ہم اس کا تفصیلا جائزہ لیں گے ۔
تاریخ نے عرب میں چار بار انسانی طوفان آتے دیکھا ۔ایک حضرت مسیح سے ڈھائی یا تین ہزار سال پہلے ، پھر ایک طوفان پانچ سو سال قبل مسیح اٹھا جو نسبتا کم تھا ۔ تیسری بار معینی اور سبائی قبائل اٹھے اور پھیلے ،سب سے آخری انسانی سونامی جو پہلی صدی ہجری میں چھٹی صدی عیسوی کے بعد اٹھا سب سے زیا دہ پر زور ، وسیع الاثر تھا جو ایک طرف ہندوستان کے درو دیوار سے ٹکرایا تو دوسری طرف بحر ظلمات تک جا پہنچا ۔