ایمان بالغیب کیا ہے ؟ مولانا عبد الماجد دریا بادی

ایمان بالغیب کیا ہے ؟
 مولانا عبد الماجد دریابادی

 (رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات وتصریحات کے مطابق نہ کہ اپنے ظن وتخمین، وہم وگمان سے) یؤمنون۔ ایمانیات کے دائرہ کے اندر کی جتنی چیزیں بھی ہیں سب کو تصریحات نبوی کے مطابق وماتحت ہونا ضروری ہے۔ کسی اور راہ سے آیا ہو اعلم اس دائرہ میں نامقبول ہے۔ ایمان کی کیفیت نفسی شک، ریب ترددوتذبذب کی بالکل ضد ہے۔ ایمان سے اس کے برعکس دماغ کو سکون، دل کو اطمینان، روح کو تسلی نصیب ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی صاحب ایمان کو خود کشی کرتے نہیں پایا گیا۔ ایمان کے بغیر دل میں بےکلی اور بےچینی ہی رہا کرتی ہے۔ لیکن ایمان والے کو سخت سے سخت مصیبت کے وقت بھی ڈھارس بندھی رہتی ہے کہ وہ بڑا سہارا اور مضبوط آسرارکھتا ہے۔ بالغیب یعنی ایمان ایسے عالم پر رکھتے ہیں جو محسوسات اور معقولات سے ماوراء ہے۔ اور جس کی بابت خبریں صرف نبی کے ذریعہ سے معلوم ہوسکتی ہیں۔ غیب لغت میں شہود کی ضد ہے۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو نظر سے نظر سے چھپی ہوئی ہو یا مشاہدہ تجربہ سے باہر ہو۔ الغیب کل ما غاب عنک (لسان) استعمل فی کل غائب عن الحاسۃ (راغب) یہ لغوی تشریح تھی۔ آیت میں الغیب سے مراد ائمہ تفسیر نے وہ عالم لیا ہے، جو حواس وعقل سے ماوراء ہے، اور جس کی بابت جو کچھ بھی علم ہوتا ہے وہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے توسط سے، مثلا احوال حشرونشر، حورو ملائکہ، جنت ودوزخ وغیرھا۔ اور یہ تفسیر خود جماعت صحابہ (رض) سے مروی ہے۔ اما الغیب فما غاب عن العباد من امر الجنۃ وامر النار ما ذکر اللہ تعالیٰ وتبارک فی القرآن (ابن جریر۔ عن ابن مسعود وناس من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم) وھو قول جمھور المفسرین ان الغیب ھو الذی یکون غائبا عن الحاسۃ (کبیر) غیب کی تفسیر منقول اسی قدر ہے۔ لیکن اسے ذرا سی وسعت دینے سے اس کے اندر پیمبر کے سارے علوم داخل ہوجاتے ہیں۔ اور پیمبر جن جن امور سے وحی جلی یا وحی خفی کی روشنی میں لوگوں کو روکتا ہے، ان کی باریک باریک برائیوں کا امت کے نقطہ نظر سے داخل غیب ہونا صاف معلوم ہوجاتا ہے وحی الہی کی خوردبین سود، شراب، زناوغیرہ کی خرابیوں اور مفسدوں کی جس طرح اپنی گرفت میں لے آتی ہے، وہ انسان کے لیے غیب ہی کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن جب غیب کی حقیقت یہ معلوم ہوگئی کہ وہ شہود یا علم کے مقابلہ کی چیز ہے تو ظاہر ہے کہ جس طرح ہر شخص کا علم ومشاہدہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اسی نسبت سے ہر ایک کا غیب بھی دوسرے سے جدا گانہ ہوتا ہے۔ طبیب کے لیے مرض ومریض سے متعلق بہت سے امور شہود میں ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے غیب کے حکم میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر فن کا ماہر ایسی چیزیں جانتا ہے جو عامی کے لیے غیب یا خفا میں ہوتی ہیں۔ گویا جس شخص کا دائرہ علم جس قدر وسیع ہوگا، اسی نسبت سے اس کا دائرہ غیب چھوٹا ہوگا۔ یہاں تک کہ حق تعالیٰ پر چونکہ ہر چیز روشن وعیاں ہے، اس لیے کوئی شے اس کے لیے غیب میں داخل ہی نہیں۔ اور اس لیے اسے لیے اسے جب عالم الغیب کہا جاتا ہے تو اس کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے، جو سب بندوں کے لیے غیب میں ہوتی ہیں۔ ’’ غیب‘‘ کی اضافت یہاں صرف بندوں کی جانب ہوتی ہے، ورنہ حق تعالیٰ کے لیے تو جس طرح دور ونزدیک، آسان ودشوار، بڑا اور چھوٹا سب یکساں ہیں، اور ان کے باہمی فرق بےمعنی ہیں، اسی طرح غیب وشہود بھی بالکل ایک ہیں، ویقال للشئی غیب وغائب باعتبارہ بالناس لا باللہ تعالیٰ فانہ لا یغیب عنہ شیء (راغب) یہیں سے یہ بھی ظاہر ہے کہ پیمبر چونکہ تمام دوسرے انسانوں سے دانا ترو عالم ترہوتے ہیں اور ان کا دائرہ ادراک ومعرفت ساری دوسری مخلوق سے وسیع تر ہوتا ہے اس لیے قدرۃ انہیں بےشمار ایسی مخفیات کا علم ہوتا ہے جو غیر انبیاء کے لیے تمام تر مجہول ہوتی ہیں لیکن اس ساری وسعت کے باوجود کہیں نہ کہیں کسی منزل پر پہنچ کر ان کے علم کی بھی انتہا ہوجاتی ہے۔ اور دائرہ غیب ان کا بھی شروع ہوجاتا ہے۔ غیب پر ایمان لانا تو آیت میں متقین کی سب سے پہلی علامت بیان کیا گیا ہے۔ اب اگر خدانخواستہ کسی کا غیب ہے ہی نہیں، تو وہ ایمان کس چیز پر لائے گا ؟ ا نبیاء کرام تو متقی ہی نہیں، متقیوں کے سردار وپیشوا ہوتے ہیں۔ ان کا ایمان بھی اگر مغیبات ومخفیات پر نہ ہوگا تو اور کس کا ہوگا؟ ہاں البتہ ان کا غیب، انہیں کے ظرف ومرتبہ وبساط کے موافق ہوتا ہے۔ ہمہ شماکا سا غیب ان کا نہیں۔ دین کا مغز کہیے یا ایمان کی روح یہی عالم غیب کا عقیدہ ہے۔ یعنی یہ اعتقاد کہ اس عالم مادی سے ماوراء اس کائنات حسی سے اوپر، کچھ اور، ایک عالم ہے ضرور۔ اور جو اس عالم کے وجود کا قائل نہیں وہ سرے سے مذہب ہی کا قائل نہیں۔ اور سب سے بڑا غیب تو خود وجود باری ہے سب سے بڑھ کر روشن وعیاں، مگر سب سے زیادہ مخفی ونہاں۔ بڑے سے بڑے عالم وعارف کے لیے بھی اس کے مرتبہ علم ومعرفت کے بعد پھر غیب کے حدود شروع ہوتے ہیں ۔