قصۂ آدم ؑ کی تشریح ، علامہ اقبال کی نظر میں


ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ


قرآن حکیم میں آدم کا قصہ لفظاً جس طرح سے بیان کیا گیا ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ آدم کو خدا نے مٹی سے بنایا اور فرشتوں کو کہا کہ جب میں اسے بنا سنوار کر مکمل کر لوں اور اپنی روح اس میں پھونک دوں۔ تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔ آدم کو جنت میں آزادی سے رہنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن ایک خاص درخت کا پھل کھانے سے منع کر دیا گیا آخر کار جنت میں آدم نے خدا کی نافرمانی کی اور شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آدم اور اس کی بیوی حوا کو سزا کے طور پر جنت سے نکال کر زمین پر ڈال دیا۔


سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر زمین پر انسان کا ظہور ایک نہایت ہی طویل تدریجی اور تربیت عمل سے ہوا ہے جیسا کہ نظریہ ارتقاء کی رو سے تسلیم کرنا ضروری ہے تو پھر قرآنی قصہ آدم کی جو بظاہر زمین پر  انسان کے اولین ظہور سے تعلق رکھتا ہے توجیہہ کیا ہے لہٰذا اقبال قصہ آدم کے متعلق لکھتا ہے:


’’ اس قصہ میں قرآن پرانے استعارات کو کسی حد تک قائم رکھتا ہے۔ لیکن قصہ کے معتدبہ حصہ کو بدل دیاگیا ہے تاکہ اس کو بالکل نئے معنی پہنا دئیے جائیں۔ قصوں کو نئے معنی پہنانے اور ان کو زمانہ کی ترقی یافتہ روح کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے کلی یا جزوی طور پر بدلنے کا قرآنی دستور ایک نہایت ہی اہم نکتہ ہے جسے اسلام کا مطالعہ کرنے والے مسلموں اور غیر مسلموں نے ہمیشہ ہی نظر انداز کیا ہے۔ ان قصوں کو بیان کرنے سے قرآن کا مقصد شاذ ہی تاریخی ہوتا ہے بلکہ اس کا مقصد قریباً ہمیشہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ان کو ایک ہمہ گیر اخلاقیاتی یا حکیماتی مطلب پہنایا جائے اور قرآن اس مقصد کو اس طرح سے حاصل کرتا ہے کہ ایسے افراد یا مقامات کا نام حذف کر دیتا ہے جو کہانی کو ایک مخصوص تاریخی واقعہ کا رنگ دے کر اس کے معنی کو محدود کر دینے کا امکان رکھتے ہوں اور نیز ان تفصیلات کو بھی حذف کر دیتا ہے جو بظاہر احساسات کی ایک مختلف سطح سے تعلق رکھتے ہوں۔ قصوں کا اس قسم کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ غیر مذہبی لٹریچر میں یہ عام ہے اس کی مثال فاؤسٹ (Faust)کی کہانی ہے جسے گیٹے (Gaette)کی عبقریت نے بالکل ہی نیا مطلب پہنا دیا ہے۔‘‘


اس کے بعد اقبال ہبوط آدم کے قصہ پر مفصل بحث کرتا ہے اور بحث کے بعد ذیل کے نتیجہ پر پہنچتا ہے:


’’ اس طرح سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ ہبوط آدم کا قرآنی قصہ اس کرہ ارض پر انسان کے اولین ظہور سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس اس کا مطلب یہ بتانا ہے کہ کس طرح سے انسان ایک ابتدائی حالت سے جو جبلتی خواہشات کے زیر فرمان ہوتی ہے ترقی کر کے اس حالت میں قدم رکھتا ہے جہاں اسے ایک ایسی آزاد شخصیت کی شعوری ملکیت حاصل ہوتی ہے جو شک اور نافرمانی بھی کر سکتی ہے۔ ہبوط آدم کا مطلب کوئی اخلاقی گراوٹ نہیں بلکہ وہ انسان کا معمولی شعور کی حالت سے گزرنے کے بعد خود شعوری کی اولین جھلک کا دیکھنا ہے اور پابند قدرت اور مجبور زندگی کے خواب سے بیدار ہونے کے بعد خود اپنی ذات کے اندر افعال اور واقعات کا علل و اسباب کی دھڑکن کو محسوس کرنا ہے۔‘‘


( حکمت اقبال )