تاریخ قرآن مجید (حصہ دوم ) - ڈاکٹر حمید اللہ ؒ


محقیقین کا خیال ہے کہ یہ حضرت ابوبکر صدیق رض کے دور میں لکھاگیا ہے
قرآن مجید کا قدیم ترین نسخہ 

قرآن مجید کی تبلیغ و اشاعت کے متعلق قدیم ترین ذکر ابن اسحٰق کی کتاب المغازی میں ملتا ہے۔ یہ کتاب ضائع ہو گئی تھی لیکن اس کے بعض ٹکڑے حال ہی میں ملے ہیں اور حکومت مراکش نے ان کو شائع بھی کیا ہے۔ اس میں ڈیڑھ سطر کی ایک بہت دلچسپ روایت ہے، جسے ابن ہشام نے اپنی سیرۃ النبی میں معلوم نہیں کس بناء پر یا سہواً چھوڑ دیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: “جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی کوئی عبارت نازل ہوتی تو آپ سب سے پہلے اس مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے پھر اس کے بعد اسی عبارت کو عورتوں کی خصوصی محفل میں بھی سناتے”۔ اسلامی تاریخ میں یہ ایک ہم واقعہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کی تعلیم سے بھی اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی مردوں کی تعلیم سے۔ یہ قدیم ترین اشارہ ہے جو قرآن مجید کی تبلیغ کے متعلق ملتا ہے۔ اس کے بعد کیا پیش آیا یہ کہنا مشکل ہے لیکن بالکل ابتدائی زمانے ہی سے ہمیں ایک نئی چیز کا پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید کو لکھوا یا جائے اور غالباً حفظ کرانا بھی اسی ابتدائی زمانے سے تعلق رکھتا ہے، جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پہلی وحی کے موقع پر قرآن مجید کی سورۂ اقراء کی پہلی پانچ آیتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائیں تو ایک حدیث کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دو کام اور کیے۔ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو استنجاء اور وضو کرنا سکھایا کہ نماز کے لیے کس طرح اپنے آپ کو جسمانی طور پر پاک کریں۔ دوسرے یہ کہ نماز پڑھنے کا طریقہ بھی بتایا۔ خود جبرئیل علیہ السلام امام بنے اور پیغمبر مقتدی کی حیثیت سے پیچھے کھڑے دیکھتے رہے کہ پہلے کھڑے ہوں، پھر رکوع میں جائیں، پھر سجدہ کریں وغیرہ اور ساتھ ساتھ خود بھی وہی کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ نماز میں قرآن مجید کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں، لہٰذا ابتدائی زمانے ہی سے جب لوگ مسلمان ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا ہو گا کہ قرآن مجید کو حفظ بھی کرو اور روزانہ جتنی نمازیں پڑھنی ہوں ان نمازوں میں ان کا اعادہ بھی کرتے رہو۔ گویا اس وقت ہمیں دو باتیں نظر آتی ہیں۔ قرآن مجید حفظ کرنا اور اسی کو لکھنا۔ آدمی کو کسی نئی چیز کو ازبر کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس کے سامنے کوئی تحریری عبارت ہو تو اس کو بار بار پڑھتا ہے بالآخر وہ حفظ ہو جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کو حفظ کرنا اور لکھنا دونوں ایک ہی زمانے کی چیزیں ہیں۔ ہمارے مورخ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئی آیت نازل ہوتی تو وہ اپنے صحابہ میں سے کسی ایسے شخص کو جسے لکھنا پڑھنا آتا ہوتا، یاد فرماتے اور اس کو املا کراتے تھے۔ اہم بات یہ بیان ہوئی ہے کہ لکھنے کے بعد اس سے کہتے کہ “جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر سناؤ” تاکہ اگر کاتب نے کوئی غلطی کی ہو تو اس کی اصلاح کرسکیں۔ یہ قرآن مجید کی تدوین کا آغاز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ لکھوانے کے بعد اپنے صحابہ کو حکم دیتے کہ اسے ازبر کر لو اور روزانہ دو وقت کی نمازوں میں پڑھو۔ اس وقت دو نمازیں تھی معراج کے بعد پانچ نمازیں ہوئیں تو دو کے بجائے پانچ مرتبہ اس کو لوگ نماز میں دہرانے لگے۔ اس کا ایک عملی فائدہ یہ ہے کہ اگر آدمی کا حافظہ اچھا نہ ہو اور سال بھر میں مثلاً صرف عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن قرآن مجید کو حافظے کی مدد سے پڑھے تو ممکن ہے کہ اس کو بھول جائے لیکن اگر کوئی آدمی روزانہ پانچ مرتبہ دہراتا ہے تو ظاہر ہے قرآن مجید اس کے حافظے میں رہے گا اور وہ اسے نہیں بھولے گا۔

الغرض قرآن مجید کو لکھنے اور اسے حفظ کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ اس سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ہمیں نظر نہیں آتی ہے۔ ا س سے بڑھ کر ایک اور کام بھی ہوا وہ یہ کہ فرض کیجئے میرے پاس ایک تحریری نسخہ موجود جس میں کسی نہ کسی وجہ سے کتابت کی کچھ غلطیاں موجود ہیں اس غلط نسخے کو میں حفظ کر لیتا ہوں۔ اس طرح میرا حفظ بھی غلط ہو گا۔ اس کی اصلاح کس طرح کی جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف بھی توجہ فرمائی اور حکم فرمایا کہ ہر مسلمان کو کسی مستند استاد ہی سے قرآن مجید پڑھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بڑھ کر قرآن مجید سے کون واقف ہوسکتا ہے؟ اس لیے ہر مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھنا اور پڑھنا چاہیے۔ اگر اس کے پاس تحریری نسخہ موجود ہے تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلاوت کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر فرمائیں کہ ہاں یہ نسخہ ٹھیک ہے تب اسے حفظ کیا جائے۔ جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو ظاہر ہے کہ ایک آدمی سارے لوگوں کو تعلیم و تربیت نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسے صحابہ کو جن کی قرآن دانی کے متعلق آپ کو پورا اعتماد تھا یہ حکم دیا کہ اب تم بھی پڑھایا کرو۔ یہ وہ مستند استاد تھے جن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سند دیتے تھے کہ تم پڑھانے کے قابل ہو اور اس کا سلسلہ آج بھی دنیا میں قائم ہے۔ اگر کوئی شخص کسی استاد سے قرآن مجید پڑھتا ہے تو قرات کی تکمیل کے بعد استاد کی طرف سے اسے جو سند ملتی ہے اس میں وہ استاد لکھتا ہے کہ “میں نے اپنے شاگرد فلاں کو قرآن مجید کے الفاظ، قرآن مجید کی قرات کے اصولوں کو ملحوظ رکھ کر یہ تعلیم دی ہے۔ یہ بالکل وہی ہے جو میرے استاد نے مجھ تک پہنچائی تھی اور اس نے مجھے اطمینان دلایا تھا کہ اس کو اس کے اپنے استاد نے اسی طرح پڑھایا تھا۔ اس کا سلسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی محفوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

اسلامی روایات (Tradition) کے سوا دنیا کی کسی قوم نے اپنی مذہبی کتاب کو محفوظ کرنے کے لیے یہ اصول کبھی اختیار نہیں کیے تھے۔ یہ چیزیں قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں عہد نبوی میں ہی پیش آئیں مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ ایک اور چیز کی بھی شروع ہی سے ضرورت تھی۔ قبل اس کے کہ میں اس کا ذکر کرو، قرآن مجید کے تحریری نسخوں کے متعلق بھی کچھ آپ کو بتاتا چلوں کہ ان کا کب سے پتہ چلتا ہے۔ غالباً نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ ان کے واقعہ سے آپ واقف ہوں گے۔ وہ اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت جانی دشمن تھے۔ ایک دن یہ طے کر کے گھر سے نکلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) قتل کر ڈالوں۔ راستے میں ان کا ایک رشتہ دار ملا جس نے اسلام تو قول کر لیا تھا لیکن اسے چھپا کر رکھا تھا۔ اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ہتھیار سے لیس ہو کر کہاں جا رہے ہو؟ چونکہ وہ رشتہ دار تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بتا دیا کہ میں محمد کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے جا رہا ہوں کہ اس نے ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ اس رشتے دار نے کہا اے عمر، اپنے قبیلے کو بنو ہاشم کے قبیلے سے جنگ میں الجھانے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن فاطمہ بھی مسلمان ہو چکی ہے اس کا شوہر بھی مسلمان ہو چکا ہے۔ پہلے اپنے گھر کی خبر لو بعد میں دنیا کی اصلاح کرنا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیران ہوئے اور سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ دروازے کے پاس انہوں نے اندر سے کچھ آواز سنی جیسے کوئی شخص گا رہا ہے یا خوش الحانی سے کچھ پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے بہت زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، گھر سے ایک شخص نکلا اور یہ اندر پہنچے۔ وہاں بہن اور بہنوئی سے جو سخت کلامی ہوئی اس سے آپ لوگ واقف ہیں۔ میں مختصراً ذکر کر رہا ہوں کہ بالآخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بہن کواس بات پر آمادہ کر لیا کہ جو چیزیں پڑھ رہی تھیں وہ ان کو دکھائیں۔ انہوں نے غسل کرانے کے بعد آپ کو وہ چیز پیش کی۔ یہ قرآن مجید کی چند سورتیں تھیں۔ ان کو پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ متاثر ہوئے اور مسلمان ہو گئے۔ اس واقعے سے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید کی کم از کم چند سورتوں کے تحریری صورت میں پائے جانے کا ذکر سنہ ٥ نبوی ہی سے یعنی قبل ہجرت سے ملتا ہے۔ اس کے بعد جس تحریری نسخے کا پتہ چلتا ہے اس کا ذکر بھی دلچسپ ہے۔ یہ غالباً بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ ہے۔ مدینے سے کچھ لوگ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ان میں سے بنی زریق کے ایک شخص کے بارے میں مؤرخین نے صراحت سے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی اس وقت تک نازل شدہ سورتوں کا مکمل مجموعہ ان کے سپرد کیا۔ یہ صحابی مدینہ منورہ پہنچ کر اپنے قبیلے میں اپنے محلے کی مسجد میں اسے روزانہ با آواز بلند پڑھا کرتے تھے۔ گویا قرآن مجید مدون ہونے یا تحریری صورت میں پائے جانے کا یہ دوسرا واقعہ ہے جس کا مورخوں نے صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

میں یہ بیان کر رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قرآن کو کسی مستند استاد سے پڑھنا پہلی خصوصیت تھی۔ دوسری خصوصیت تحریری صورت میں محفوظ رکھنا، تاکہ اگر کہیں بھول جائے تو تحریر دیکھ کر اپنے حافظے کو تازہ کر لیا جائے اور تیسری خصوصیت اسے حفظ کرنا تھا۔ ان تین باتوں کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس میں ایک پیچیدگی اس طرح پیدا ہو گئی تھی کہ قرآن مجید کامل حالت میں بہ یک وقت نازل نہیں ہوا تھا۔ بلکہ جستہ جستہ 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو میکانیکی طور پر مدون نہیں کیا کہ پہلی آیت شروع میں ہو اور بعد میں نازل شدہ دوسرے نمبر پر رہے بلکہ اس کی تدوین الہام اور حکمت نبوی کے تحت ایک اور طرح سے کی گئی۔ قرآن مجید کی اولین نازل شدہ آیتیں جیسا کہ میں نے ابھی آپ سے عرض کیا سورۂ اقراء کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں۔ یہ آیتیں سورہ نمبر 96 میں ہیں۔ جب کہ قرآن مجید کی کل سورتیں 114 ہیں۔ ان میں 96 نمبر پر ابتدائی سورۃ ہے۔ قرآن مجید میں اب جو بالکل ابتدائی سورتیں ملتی ہیں، مثلاً سورہ بقرہ وغیرہ وہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن مجید ترتیب کے لحاظ سے مدون نہیں ہوا بلکہ ایک دوسری صورت میں مرتب ہوا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو دشواریاں پیش آسکتی تھیں۔ یعنی آج ایک سورۃ نازل ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت دیتے ہیں کہ اس کو فلاں مقام پر لکھو۔ پھر کل ایک آیت نازل ہوئ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ اس کو فلاں آیت سے قبل لکھو یا فلاں آیت کے بعد لکھو یا فلاں سورۃ میں لکھو۔ اس لیے ضرورت تھی کہ وقتاً فوقتاً نظر ثانی ہوتی رہے۔ لوگوں کے ذاتی نسخوں کی اصلاح اور نظر ثانی کا ذکر بھی ہجرت کے بعد سے ملتا ہے۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے مہینے میں دن کے وقت قرآن مجید کو جتنا اس سال تک نازل ہوا تھا با آواز بلند دہرایا کرتے تھے اور ایسے صحابہ جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا وہ اپنا ذاتی نسخہ ساتھ لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت پر اس کا مقابلہ کرتے جاتے تاکہ اگر ان سے کسی لفظ کے لکھنے میں یا سورتوں کو صحیح مقام پر درج کرنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ اس کی اصلاح کر لیں۔ یہ چیز “عرضہ” یا پیشکش کہلاتی تھی۔ مؤرخین مثلاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ آخری سال وفات سے چند ماہ پہلے جب رمضان کا مہینہ آیا تو آپ نے پورے کا پورا قرآن مجید لوگوں کو دو مرتبہ سنایا اور یہ بھی کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات قریب آ گئی ہے کیونکہ قرآن حکیم کے متعلق جبرئیل علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں دو مرتبہ پڑھ کر سناؤں تاکہ اگر کسی سے غلطیاں ہوئی ہوں تو باقی نہ رہیں۔ یہ تھی تدبیر جو آخری نبی نے آخری پیغام ربانی کی حفاظت کے لیے اختیار فرمائ۔ اس طرح قرآن مجید کے ہم تک قابل اعتماد حالت میں پہنچنے کا اہتمام ہوا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو شروع میں قرآن مجید کی طرف کسی کی توجہ مبذول نہ ہوئ۔ لوگوں کے پاس جو کچھ موجود تھا اس کو نماز میں پڑھا کرتے تھے اور اس کا احترام کرتے تھے لیکن پھر ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف اسلامی حکومت بلکہ تمام مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ قرآن مجید کی طرف فوری توجہ دیں۔ اس زمانے میں قرآن مجید کا کوئی سرکاری نسخہ موجود نہیں تھا اور غالباً کسی ایک شخص کے پاس بھی کامل قرآن مجید لکھا ہوا موجود نہیں تھا۔ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ملک میں چند لوگ مرتد ہو گئے اور مسلیمہ کذاب نے نہ صرف ارتداد کیا بلکہ نئے نبی ہونے کا اعلان بھی کر دیا۔ وہ چونکہ ایک طاقتور قبیلے کا سردار تھا اس لیے بہت سے لوگ اس کے حامی بھی ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے جنگ کی۔ یہ جنگ بہت شدید تھی اور اس میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی جب کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور جنگ بھی دشمن کے علاقے میں یمامہ کے مقام پر ہوئ۔ میں جب وہاں گیا تھا تو وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ یہ جنگ موجود شہر ریاض کے مضافات میں ہوئی تھی۔ اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے۔ ان شہید ہونے والوں میں چند لوگ ایسے بھی تھے جو قرآن مجید کے بہترین حافظ تھے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئ۔ مدینے کے مسلمانوں کو فتح پر خوشی ہوئی لیکن یہ اطلاع پاکر کہ بہت سے برگزیدہ اور بہترین حافظ قرآن مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں رنج بھی ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر قرآن مجید کے تحفظ پر حکومت نے توجہ نہ کی اور حافظ قرآن رفتہ رفتہ آئندہ جنگوں میں شہید ہوتے رہے یا طبعی موت سے اس دنیا سے رخصت ہوتے رہے تو پھر قرآن مجید کے لیے بھی وہی دشواری پیش آئے گی جو پرانے انبیاء علیہ السلام کی کتابوں کے سلسلے میں پیش آئی تھی۔ اس لیے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اے امیر المومنین قرآن کے تحفظ پر توجہ فرمائیے۔ یمامہ کی جنگ میں چھ ہزار مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں بہت سے حافظ قرآن بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تجویز پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب، ان کی سیرت کے ایک خاص پہلو کا مظہر ہے۔ وہ فدائے رسول تھے اور فدائے رسول کا جواب ایسا ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحث کرتے ہیں۔ بالآخر دونوں اس بات پر رضا مند ہوئے کہ کسی تیسرے شخص کو حاکم بنائیں اور وہ جو فیصلہ کر دے اس پر عمل کریں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا حاکم بنایا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کاتب وحی تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فوری جواب بھی وہی تھا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں؟ دوبارہ بحث ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا اے زید! اگر لکھیں تو اس میں حرج کیا ہے؟ روایت میں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ واقعی حرج تو مجھے بھی نظر نہیں آتا۔ یہ ایک جذباتی رویہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو ہم کیسے کریں؟ لیکن اگر کریں تو اس سے کوئی امر مانع نظر نہیں آتا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ یہ کام میں سر انجام دوں تو مجھے یہ اتنا مشکل معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی تدوین کے مقابلے میں اگر مجھے جبلِ احد کے سرپر اٹھانے کا حکم دیا جاتا تو وہ میرے لیے آسان ہوتا۔

قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احکام قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے شہر مدینہ میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ جس شخص کے پاس قرآن مجید کا کوئی حصہ تحریری صورت میں موجود ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس “عرضہ” کے موقع پر جو تلاوت ہوتی تھی اس سے کر کے تصحیح شدہ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا ہوا نسخہ موجود ہے تو وہ لا کر اس کمیشن کے سامنے پیش کرے۔ کمیشن کے صدر حضرت زید بن ثابت تھے لیکن کئی اور مددگار بھی تھے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ اس کمیشن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ قرآن مجید کے جو نسخے پیش کیے جائیں قابل اعتماد ہوں، عرضہ میں پیش کیے ہوئے نسخے ہوں۔ اگر کوئی آیت کم سے کم دو تحریری نسخوں میں موجود ہو تو اسے لکھا جائے ورنہ رد کر دی جائے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس طرح قرآن مجید کی تدوین ہوئی اور اس کو ایک کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگرانی میں انجام دیا گیا۔ یہ بات بھی نہ بھلائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت کم از کم پچیس حافظ موجود تھے جن میں سے کچھ انصار تھے اور کچھ مہاجرین، جنہیں سارا قرآن مجید زبانی یاد تھا۔ ان میں ایک خاتون حافظہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ خود اس کمیشن کے صدر، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حافظ تھے۔ اس لیے انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں یقین کے ساتھ لکھا کہ ان کے ذہن میں بھی اسی طرح موجود ہے یہاں ایک اور چھوٹی سی بات کا ذکر کرتا ہوں کہ جب لوگ نسخہ لا کر پیش کرتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں حکم دیتے تھے کہ قسم کھا کر بتاؤ کہ یہ نسخہ جو تم پیش کر رہے ہو وہی ہے جس کی تصحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوئی ہے۔ وہ قسم کھا کر یقین دلاتے تو پھر اس سے استفادہ کیا جاتا۔ جب پورا قرآن مجید لکھا جا چکا تو حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے شروع سے آخر تک پڑھا۔ اس میں مجھے ایک آیت کم نظر آئی یہ آیت میرے حافظے میں تو موجود تھی مگر کسی تحریری نسخے میں موجود نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے شہر کے چکر لگائے۔ ہر گھر میں داخل ہوا اولاً مہاجرین کے گھروں میں، کسی کے پاس یہ آیت تحریری صورت میں موجود نہیں تھی۔ پھر انصار کے گھروں کو گیا۔ بالآخر ایک شخص کے پاس ایک تحریری نسخہ ملا۔ وہ نسخہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا ہوا تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت تھی کہ جب تک دو تحریری نسخے نہ ملیں اس وقت تک اس کو قرآن کے طور پر قبول نہ کیا جائے۔ جبکہ یہ آیت صرف ایک تحریری نسخے میں ملی تھی۔ لیکن یہاں مشیت خداوندی اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اتفاق سے یہ وہ شخص تھا جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس کے کسی کام سے خوش ہو کر کہا تھا کہ آج سے تمہاری شہادت دو شہادتوں کے مساوی سمجھی جائے گی، ان کا نام خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔ غرض یہ قدرت کی طرف سے پیشگی انتظام تھا۔ اس طرح اس آیت کو انہوں نے صرف ایک شخص سے لے کر نقل کیا۔ ان کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے قرآن کو دوبارہ پڑھا تو ایک اور آیت کی بھی کمی نظر آئی۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ہی واقعہ ہو اور آیت کے متعلق راویوں میں اختلاف ہو۔ بہر حال وہاں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس نام والے ایک شخص نے وہ چیز بیان کی۔ یہ آیتیں جن کا ہمارے پاس صراحت سے ذکر موجود ہے، کہ کون سی آیتیں تھی، فرض کیجئے کہ اگر آج ہم ان کو قرآن مجید سے خارج بھی کر دیں تو کوئی اہم چیز خارج نہیں ہوتی۔ قرآن مجید کی جن آیتوں کی طرف یہ اشارہ ہے ان کا مفہوم دوسری آیتوں میں بھی موجود ہے۔ لیکن بہر حال جس احتیاط سے قرآن مجید کی تدوین عمل میں آئی اس کا مقابلہ تاریخ عالم کی دینی کتابوں می سے کوئی کتاب بھی نہیں کرسکتی۔

ایک اور نکتہ یہاں بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہو گا اور اسی پر یہ تقریر ختم کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے کا ذکر ہے، جرمنی کے عیسائی پادریوں نے یہ سوچا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں آرامی زبان میں جو انجیل تھی وہ تو اب دنیا میں موجود نہیں۔ اس وقت قدیم ترین انجیل یونانی زبان میں ہے اور یونانی سے ہی ساری زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یونانی مخطوطوں کو جمع کیا جائے اور ان کا آپس میں مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ یونی زبان میں انجیل کے نسخے جتنے دنیا میں پائے جاتے تھے کامل ہوں کہ جزوی، ان سب کو جمع کیا گیا اور ان کے ایک ایک لفظ کا باہم مقابلہ (Collation) کیا گیا۔ اس کی جو رپورٹ شائع ہوئی اس کے لفظ یہ ہیں: “کوئی دو لاکھ اختلافی روایات ملتی ہیں” یہ ہے انجیل کا قصہ۔ غالباً اس رپورٹ کی اشاعت سے کچھ لوگوں کو قرآن کے متعلق حسد پیدا ہوا۔ جرمنی ہی میں میونک یونیورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا “قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ” اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ جب میں 1933ء میں پیرس یونیورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر پریتسل Pretzl، پیرس آیا تھا تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ 1933ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے بیالیس ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (Collation) کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا اور عمارت اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہو گیا لیکن جنگ کے شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن اختلافاتِ روایت ایک بھی نہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کتابت کی جو غلطی ایک نسخے میں ہو گی وہ کسی دوسرے نسخوں میں نہیں ہو گی۔ مثلاً فرض کیجئے “بسم اللہ الرحیم” میں “الرحمٰن” کا لفظ نہیں لیکن یہ صرف ایک نسخے میں ہے۔ باقی کسی نسخے میں ایسا نہیں ہے۔ سب میں “بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” ہے۔ اس کو ہم کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔ یا کہیں کوئی لفظ بڑھ گیا ہے مثلاً ایک نسخے میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے باقی نسخوں میں نہیں تو اسے کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزیں کہیں کہیں سہو قلم یعنی کاتب کی غلطی سے ملتی ہیں لیکن اختلاف روایت یعنی ایک ہی فرق کئی نسخوں میں ملے ایسا کہیں نہیں ہے۔ یہ قرآن مجید کی تاریخ کا خلاصہ، جس سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں خدا کا جو فرمان ہے (انا نحن نزلنا الذکر ونا لہ لحافظون) “ہم ہی اسے نازل کرتے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے” یہ تمام واقعات جو میں نے آپ سے بیان کیے اس آیت کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں۔"

( ماخوز از خطبات بہاولپور ، ڈاکٹر حمید اللہ ؒ )