سورة الطَّلَاق : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام : اس سورۃ کا نام ہی الطلاق نہیں ہے، بلکہ یہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے، کیونکہ اس طلاق ہی کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اسے سورۃ النساْ القصری بھی کہا ہے، یعنی چھوٹی سورۃ نساءْ۔

زمانۂ نزول :

حضرت عبداللہ بن مسعود نے  صراحت فرمائی ہے، اور سورۃ کے مضمون کی اندرونی شہادت بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ اس کا نزول لازماً سورۃ بقرہ کی ان آیات کے بعد ہوا ہے جن میں طلاق کے احکام پہلی مرتبہ دیئے گئے تھے۔ اگرچہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اس کا زمانہ نزول کیا ہے لیکن بہر حال روایات سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جب سورۃ بقرہ کے احکام کو سمجھنے میں لوگ غلطیاں کرنے لگے، اور عملاً بھی ان سے غلطیوں کا صدور ہونے لگا، تب اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لئے یہ ہدایت نازل فرمائیں۔ 

موضوع اور مضمون :

اس سورۃ کے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کرلیا جائے جو طلاق اور عدت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہوچکی ہیں : 

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ، فَاِمْسَکٌ بِمَعْرُوْ فٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسِانٍ (البقرہ۔ 229) " طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کردیا جائے " 

وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُ وْ ءٍ۔۔۔۔۔ وَبُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّ ھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْا اِصْلَاحاً (البقرہ۔ 228 )۔ " اور مطلقہ عورتیں (طلاق کے بعد ) تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ۔۔۔ اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو (اپنی زوجیت میں ) واپس لے لینے کے حق دار ہیں اگر وہ اصلاح پر آمادہ ہوں "۔ 

فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہ مِنْ بَعْدُ حَتٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہٗ۔۔۔۔۔۔۔ (البقرہ۔ 130)۔ 

" پھر اگر وہ (تیسری بار) اس کو طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے ہوجائے ۔۔۔ "۔ 

اِذٰا نَکَحْتُمُ الْمُؤٰمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ فَمَالَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّونَھَا (الاحزاب۔ 49)۔ " جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کرسکو "۔ 

وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْ نَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْ نَ اَزْوَاجاً یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرِ وَّ عَشْراً (البقرہ۔234)۔ " اور تم میں سے جو لوگ مر جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں چار مہینے دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں "۔ 

ان آیات میں جو قواعد مقرر کیے گئے تھے وہ یہ تھے : 

1)۔ ایک مرد زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے سکتا ہے۔ 

2)۔ ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گزر جانے کے بعد وہی مرد و عورت پھر نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، اس کے لیے تحلیل کی کوئی شرط نہیں ہے۔ لیکن اگر مرد تین طلاقیں دے دے تو عدت کے اندر رجوع کا حق ساقط ہوجاتا ہے، اور دوبارہ نکاح بھی اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک عورت کا نکاح کسی اور مرد سے نہ ہوجائے اور وہ کبھی اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے دے۔ 

3)۔ مدخولہ عورت، جس کو حیض آتا ہو، اس کی عدت یہ ہے کہ اسے طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آ جائے۔ ایک طلاق یا دو طلاق کی صورت میں اس عدت کے معنی یہ ہیں کہ عورت ابھی تک اس شخص کی زوجیت میں ہے اور وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کرسکتا ہے۔ لیکن اگر مرد تین طلاق دے چکا ہو تو یہ عدت رجوع کی گنجائش کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اس لیے ہے کہ اس کے ختم ہونے سے پہلے عورت کسی اور شخص سے نکاح نہیں کرسکتی۔ 

4)۔ غیر مدخولہ عورت، جسے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے، اس کے لیے کوئی عدت نہیں ہے۔ وہ چاہے تو طلاق کے بعد فوراً نکاح کرسکتی ہے۔ 

5)۔ جس عورت کا شوہر مر جائے اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔ 

اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورۃ طلاق ان قواعد میں سے کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے، بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے۔ 

ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اسے استعمال کرنے کے ایسے حکیمانہ طریقے بتائے جائیں جن سے حتی الامکان علیٰحدگی کی نوبت نہ آنے پائے، اور علیٰحدگی ہو تو بدرجہ آخر ایسی حالت میں ہو جبکہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہوچکے ہوں۔ کیونکہ خدا کی شریعت میں طلاق کی گنجائش صرف ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر رکھی گئی ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ اس بات کو سخت ناپسند فرماتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان جو ازدواجی تعلق قائم ہوچکا ہو وہ پھر کبھی ٹوٹ جائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ مَا احَلَ اللہ شیئاً ابغض الیہ من الطلاق۔ " اللہ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا ہے جو طلاق سے بڑھ کر اسے ناپسند ہو " (ابو داؤد)۔ اور ابغض الحلال الی اللہ عزّ و جَل الطلاق۔ " تمام حلال چیزوں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے "۔ (ابو داؤد)۔ 

دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورۃ بقرہ کے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اس شعبہ کی تکمیل کر دی جائے۔ اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن مدخولہ عورتوں کو حیض آنا بند ہوگیا ہو، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، طلاق کی صورت میں ان کی عدت کیا ہوگی۔ اور جو عورت حاملہ ہو اسے اگر طلاق دے دی جائے یا اس کا شوہر مر جائے تو اس کی عدت کی مدت کیا ہے۔ اور مختلف قسم کی مطلقہ عورتوں کے نفقہ اور سکونت کا انتظام کس طرح کیا جائے ۔

( تفہیم القرآن ، مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودی ؒ )