قرآن حکیم : فلسفۂ خیر و شر پر ایک نظر -تلخيص : ابو البشر احمد طيب

قرآن حکیم : خیر اور شر کے فلسفہ پر ایک نظر 
انسان نے جب سے زندگی کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش شروع کی ہے اس وقت سے خیر اور شر کا موضوع اس کے غور و فکر کا بنیادی مسئلہ رہا ہے ، ہر زمانے کے فلسفیوں نے اس موضوع پر رائی زنی کی ہے ، اہل مذہب نے بھی اس عقدہ کو حل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس موضوع کو چند سوالات نے مزید الجھا دیا وہ یہ ہیں : 

1- کیا خیر اور شر دو الگ الگ چیزیں ہیں یا دونوں کا وجود محض اضافی اور نسبتی  ہے یعنی کیا زمانہ اور حالات کے لحاظ سے خیر اور شر کا معیار بدل جا تا ہے ؟

2- کیا خیر اور شر کا تصور انسان کی فطرت میں لکھا ہوا ہے اگر ایسا ہے تو وہ کون سا معیار اور کسوٹی ہے جن پر پرکھ کر معلوم کیا جاسکے کہ یہ خیر ہے اور یہ شر ہے ؟

3- اگر خیر اور شر کا معیار فطری ہے تو قوموں ، ملتوں اور گروہوں اور افراد کے درمیاں اختلافات کیوں ہیں ؟ 

ان سوالات پر ہرزمانہ کے دانشوروں ، حکیموں اور فلسفیوں نے غور و فکر کے بعد اپنی اپنی رائے ظاہر کی  ہے۔ لیکن قرآن حکیم اس بارے میں  ایک خاص نقطہ نظر پیش کرتا ہے ، یہاں قرآن مجید کا نقطہ نظر اور چند مشہور فلسفیوں کی آراء کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتاہے ۔

کچھ فلسفیوں کا خیال ہے کہ خیر اور شر نغمہ کے زیر و بم اور تصویر کے سرخ اور سیاہ دھبوں کی طرح ہے ۔ ان فلسفیوں کے نمائدے ہیرا قلیطس اور سینٹ آگسٹائن وغیرہ ہیں ، ان کے نزدیک نغمہ کے زیر و بم کی طرح خیر اور شر، نیکی اور بدی دونوں دنیا کے لیے ضروری ہیں ۔ ان سے دنیا کی رنگینی میں اضافہ ہو تا ہے ۔ مادی اشیاء کے متعلق تو یہ کہنا درست ہے کہ کہ گندی سے گندی چیز بھی کام آجا تی ہے گندگی سے بنی کھاد بھی اپنی جگہ بڑی قیمت رکھتی ہے لیکن اخلاقیات کے متعلق یہ معیار درست نہیں ۔ سچ اور جھوٹ ، ایمانداری اور بے ایمانی برابر نہیں ہوسکتی ۔ ارشاد باری تعالی ہے : 

" قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ " (المائدہ : 100)

"اے پیغمبر ؐ ! اِن سے کہہ دو کہ بری چیز اور عمدہ چیز بہرحال یکساں نہیں ہیں خواہ بری چیز کی کثرت تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔ "


جن فلسفیون نےخیر اور شر کے متعلق رائی دی کہ کوئی عمل بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا، بلکہ انسان کی نیت اور ارادہ اس کو اچھا اور برا بنا دیتا ہے۔ یہ رائی بھی کسی صورت درست نہیں کہ اگر ایک شخص چوری کرے  پھر معلوم ہو کہ اس کی نیت اچھی تھی تو یہ نہیں کہا جائےگا کہ چوری کا کام بھی اچھا تھا۔  اس لیے نیت اور ارادہ سے کوئی کام اچھا یا برا نہیں ہو سکتا ۔ 

کچھ فلسفیوں نے لذت اور مسرت کو خیر اور شر کا معیار قرار دیا ، انسان کے تجربات گواہ ہیں کہ لذت اور مسرت کا کوئی ایک معیار نہیں ہے ۔ کیونکہ ہر انسان کی لذت دوسرے سے مختلف ہے ۔ مثلا گانے کی ترنگ سے ایک انسان محظوظ ہوتا ہے تو دوسرے اس سے پریشان  ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح  مختلف کھیلوں ، پیشوں اور مشغلوں میں انسان کی لذت اندوزی کا معیار بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ اکثریت کی لذت اور مسرت کو معیار تسلیم کیا جائے اس لے کہ اکثریت کی لذت کا معیار بھی زمانہ، معاشرہ اورعلاقہ کے لحاظ سے مختلف ہوجا تا ہے مثلا ایک دور میں لوگوں کو غلام بنانا جائز عمل تھا لیکن اب یہ عمل قابل نفرت ہے ۔ مثلا ایک قوم میں سانپ اور مینڈک معیاری کھانا ہے جبکہ دوسرے لوگ ان کھانوں کو کراہت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ غرض لذت اور مسرت کا تعلق خارجی اشیاء سے زیادہ انسان کے اپنے باطن سے ہے اگر کسی انسان کا باطن بحران کا شکار ہے تو اس کے لیے کسی خارجی چیز میں کوئی لذت اور مسرت نہیں ہوسکتی ۔ 

بعض نے کہا کہ جس چیز میں زیادہ فائدہ ہو وہ خیر ہے اور جس میں کم ہو وہ شر ہے ۔ یہ معیار اس لیے درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ اگر اس سے کچھ لوگوں کا فائدہ ہورہا ہے تو کچھ لوگوں کا نقصان بھی ہوتا ہے جیسے ایٹم بم کی ایجاد امریکیوں کے لیےتو خیر کہ سکتے ہیں لیکن جاپانیوں کے لیے ایٹم بم   قیامت صغری سے کم نہیں تھا ۔ 

ڈیکارٹ نے کہاتھا کہ خدا تو خیر مطلق ہے لیکن دوسری طرف اس نے یہ کہا کہ انسان کو جو عقل دی گئی ہے وہ زندگی کے مسائل کے حل کرنے میں ناکافی ہے۔ گویا اس کی نظر میں انسان کی تخلیق میں خدا سے کوتاہی ہوگئی ۔ اس نے اس فلسفہ کے ذریعے اللہ پر الزم تھوپ دیا ۔  یورپ کے اخلاقیات کا سب سے بڑا فلسفی سپینوزا  نے تو حد کردی ہے ،  اس نے خدا کو خیر اور شر سے ماوراء قرار دے دیا ۔ اس کا خیال ہے کہ خیر اور شر کا تعلق صرف انسان سے ہے ۔ وہ وحدۃ الوجود کا قائل تھا ۔ اس کا مشہور مقولہ ہے " جب ہم اپنے سے محبت کر تے ہیں تو خدا سے محبت کر تے ہیں کیونکہ ہم خدا ہیں ،  اس کے مطابق کائنات کے  مجموعی نظام میں جو حرکت اور سرگرمی ہے یہی خدا ہے۔ انسان اس کائنات کے اجزاء ہیں اس لیے انسان بھی خدا ہیں ۔ 

البتہ تاریخ کے تمام عظیم فلاسفر سقراط، افلاطون ارسطو سے لیکر کانٹ ، جان لاک ان سب کی نظر میں خیر اور شر دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔  یہ انسان کی فطرت میں الہام کردی گئی ہیں ۔  یعنی ازل سے انسان کی تخلیق میں اخلاقی شعور شامل ہے، انسان میں ایک نور یزدانی موجود ہے جو اس کی رہنمائی کرتی ہے بسا اوقات انسان بھول جاتا ہے تو علم اس کی رہنمائی کرتا ہے اس لے علم ان کی نظر میں  " خیر اعلی" ہے ۔ اور جدید فلسفیوں کے ہاں  یی نظریہ سب سے زیادہ مظبوط ہے یہ نقطہ نظر قرآن مجید سے بھی قریب تر ہے ۔  لیکن ان فلسفیوں کے پاس اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں کہ اگر خیر اور شر دو الگ الگ چیزیں ہیں،  تو ان کا خالق بھی الگ الگ ہونا چاہیے کیونکہ بعض عیسائی متکلمین جیسے تھامس اکیواناس ، سینٹ آگسٹائن کا خیال ہے کہ  چونکہ خدا خیر مطلق ہے اس لیے وہ شر کا خالق نہیں  ہوسکتا ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر شیطان کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ یہ متکلمین اس کا کوئی شافی جواب نہ دے سکے۔ لیکن پھر بھی یہ سوال باقی ہے کہ خدا نے یہ شر کیوں پیدا کیا جب کہ وہ خیر مطلق ہے ؟ 

بعض مسلمان متکلمین نے یہ خیال ظاہر کیا کہ خیر اور شر حکمی ہے، اللہ جل جلالہ اور رسولﷺ نے  جس چیز کو خیر کہا وہ خیر ہے اور جس کو شر کہا وہ شر ہے ۔  لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ اللہ تعالی نے خیر اور شر کی صفات انسان میں ودیعت کردی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :

 ( فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿ الشمس : ۸﴾  پھر نفس کی بدی اوراُس کی نیکی اس پر الہام کر دی۔

 قرآن میں جگہ جگہ انسان سے  کہا گیا کہ تم  کیوں عقل سے کام نہیں لیتے؟ ِ  کائنات اور اس کے نظام  پر غو وفکر کیوں نہیں کرتے ؟  اللہ تعالی نے انسان کو بار بار آفاق و انفس پر غوروفکر کی دعوت دی ہے تاکہ وہ عقل سے کام لے کر صحیح نتائج تک پہنچ سکے ۔ لہذا خیر و شر کا معیار صرف حکمی نہیں ہوسکتا ۔ جیساکہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور بدی کے تمام صفات انسان کی فطرت کے اندر و دیعت ہیں ۔ اللہ تعالی نے اتمام حجت کے لیے انسان کو بار بار یاد دہانی فرمائی ہے ۔ یعنی اپنے پیغام اور انبیاء کے ذریعہ ان تمام کلیات اور جزئیات کو وضاحت کے ساتھ بتا دیا ہے جن کی روشنی میں  انسان خیر اور شر کے درمیان فرق کرسکے ۔ اس لیے قرآن کا ایک نام فرقان یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا اور ایک نام میزان بھی ہے . ارشاد باری تعالی ہے :

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ( الحدید : 25) 

"ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں" 

 قرآن مجید کا نقطہ نظر : 


اب یہ دیکھنا ہے کہ اس بارے میں قرآن مجید کا نقطہ نظر کیا ہے ۔ جہاں تک قرآن مجید ہے اس کے نزدیک خیر اعلی"  اللہ تعالی پر ایمان"  ہے شر اعظم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانا ہے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کو ن سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا :( ایمان باللہ)  اللہ پر ایمان۔ ( صحیح مسلم کتاب الایمان باب 36) ۔  ایک اور صحابی نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کون سا گنا ہ سب سےزیادہ سنگین ہے ؟ آپ ﷺ  نے فرمایا " ان تجعل للہ ندًا و ھو خلقک " یہ کہ تو اللہ کا ہم سر ٹھہرائے حالانکہ وہی ہے جس نے تجھے پیدا کیا ۔ ( صحیح مسلم کتاب الایمان باب 37) ۔ قرآن میں صاف لفظوں میں ارشاد ہے : "  إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ " (لقمان : 13)  بے شک شرک بہت بڑا ظلم  ہے ۔ 

اس خیر اعلی کو اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں سمودیا ہے اس کا حوالہ قرآن مجید میں  ہے ۔ قرآن میں ایک جگہ عالم ارواح کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ، اللہ تعالی نےتمام اولاد آدم کو گواہ بناکر گان سے سوال کیا ۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے اعتراف کیا ضرور کیوں نہیں !  ارشاد باری تعالی ہے َ :

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ ۔  اَوۡ تَقُوۡلُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَشۡرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ۚ اَفَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ  ( الاعراف : 173- 172)

" اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا  ”کیا میں تمارا رب نہیں ہوں؟“ انہوں نے کہا” ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں “۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ”ہم اس بات سے بے خبر تھے“، یا یہ نہ کہنے لگو کہ ”شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصُور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔ "

انبیاء اس بھولاہوا سبق کو یاد دلانے کے آئے ہیں انسان کو توحید کی دعوت دی ، شرک کو  باطل اور انسان کا خود ساختہ عقیدہ قرار دیا، اس لیے مشرکین سے مطالبہ کیا ہے کہ  اگر ان کے پاس خود ساختہ شریکوں کے حق میں کوئی دلیل  ہے تو لائیں ۔

 قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر اور شر دوالگ الگ مستقل اقدار ہیں،  یہ دونوں انسان کی فطرت میں ودیعت ہیں  ارشاد باری تعالی ہے :   ( فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿ الشمس : ۸﴾  پھر نفس کی بدی اوراُس کی نیکی اس پر الہام کر دی ۔ 

اس لیے فلسفیوں کا یہ خیال غلط ہے کہ انسان خارجی ماحول سے متاثر ہو کر گناہ کر تا ہے ، بلکہ انسان خود نیکی اور بدی کا ذمہ دار ہے ، نیکی اور بدی کا شعور ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے اس لیے انسان اپنے اعمال کو خیر اور شر میں تقسیم کر تا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کی یوں وضاحت کی ،  ارشاد باری تعالی ہے :

 اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ،  وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ۙ،  وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ( البلد : 8-10 ) 

"کیا ہم نے اُسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟ اور دونوں نمایاں راستے ( ہدایت اور گمراہی)  اُسے ﴿نہیں ﴾ دکھا دیے"

قرآن مجید کے مطابق انسان کے اندر ایک نور یزدانی بھی اللہ تعالی ودیعت کی ہے ،  قرآن مجید جس کو نفخ روح سے تعبیر کیا ہے ، اس کے بعد ہی انسان  مسجود ملائکہ بنا،  ارشاد باری تعالی :

 فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ،  فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ  ( الحجر: 29- 30) 

 جب میں اُسے پُورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں، تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گِر جانا۔“ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا "

اسی کو اللہ تعالی نے دین فطرت قرار دیا ارشاد باری تعالی ہے :

فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ
(الروم : 30)

پس ﴿اے نبی ؐ اور نبی ؐ کے پیروو﴾یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جمادو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نےانسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی ، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔"

اس سے معلوم ہوا دین اسلام اور دین فطرت میں کوئی تضاد نہیں ۔ جو کچھ فطرت میں لکھا ہوا ہے اس کی تفصیل وحی الی سے ہوتی ہے ۔ 

 سورہ نور میں اسی سلیم الفطرت انسان کے دل کو  ( نور علی نور ) کہا گیا َ ارشاد باری تعالی ہے :

 اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ (النور : 35)

"  اللہ آسمانوں اور زمین کا نُور ہے۔  ﴿کائنات میں﴾ اس کے نُور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہُوا ہو، چراغ ایک فانُوس میں ہو، فانُوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی ، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو، چاہے آگ اس کو نہ لگے، ﴿اِس طرح﴾ روشنی پر روشنی ﴿بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں ﴾۔ اللہ اپنے نُور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے ۔ "

قرآن مجید گناہ کے احساس کو " نفس لوامہ "  نام دیا ہے ، جو بدی کا ارتکاب کرتا ہے وہ اس کی سرزنش کر تا ہے جب نیکی کرتا ہے تو اس کو شاباش دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہے :  وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ  ( القیامہ : 2)  میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس ۔ 

بعض دفہ انسان اپنی خواہش سے مغلوب ہو کر برائی کی طرف مائل ہوجاتا ہے حضرت یوسف علیہ السلام نے نفس کے اس پہلو کی طرف اشارہ کیا  :

وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ  (یوسف : 53)

میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اُکساتا ہی ہے اِلّا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو، بے شک میرا ربّ بڑا غفور و رحیم ہے۔“

غرض  انسان کا ضمیر ہر گناہ پر برابر اس کو ٹوکتا رہتا ہے اگر برائی کا شعور انسان کے اندر نہ ہوتا تو یہ انسان کے مابین برائی اور اچھائی کے بارے میں اس طرح اتفاق رائی نہیں پایا جا تا ۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن نے اشارہ کیا : ارشاد باری تعالی ہے :

 بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ، وَّ لَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ   ( االقیامہ : 14- 15 )  بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے "

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نیکی اور بدی کے فطری شعور کے باوجود اکثر انسان نیکی کے بجائے  بدی کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں ؟ دراصل انسان کی فطرت اختیار اور ارادہ کے ساتھ معلق ہے،  سب سے بڑا تاج جو انسان کو ملاہے وہ اختیار اور ارادہ کی قوت ہی ہے ورنہ انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہ رہتا ، زمین میں انسان کی خلافت کے معنی بھی یہی ہیں ۔ اس اختیار کا فائدہ یہ ہے کہ انسان اگر چاہے تو اپنی فطرت کو بگاڑ سکتا ہے ۔ انسان کو عقل کی جو دولت ملی ہے اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ جب دلائل تراشنے پر آئے تو حق کی حمایت اور مخالفت دونوں میں دلائل تراش لیتی ہے ۔ اس لیے انسان نیکی اور برائی کا شعور ، انبیاء اور کتب الہی کے باوجود  جب عقل کو کہتا ہے کہ میں ان سب کے خلاف یہ کرنا چاہتاہوں اس کے لیے دلائل تراش ، تو وہ ایسا کر دیتی ہے،  انسان اپنی خواہشات اور جذبات سے مغلوب ہوکر عقل کی مدد سے اپنے ضمیر کو تسلی دے دیتا ہے ۔ غرض انسانوں کی بڑی اکثریت اپنی خواہشات سے مغلوب ہو کر شر اختیار کر لیتی ہے یا اپنی فطرت میں بگاڑ پیدا کر لیتی ہے ۔ نتیجہ ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ فطرت کے مطابق زندگی گزارنے والے لوگ تعداد میں کم ہیں ۔ 

باقی یہ سوال کہ کیا خیر اور شر کا خالق ایک ہے ؟ اس کا جواب کہ یہ  کائنات جن طبعی قوانین پر قائم ہے، ظاہر ہے وہ خالق کے لحاظ سے موجب خیر ہیں ۔ لیکن ان کے علم یعنی سائنس کو انسان کی خدمت میں بھی لگایا جا سکتا ہے اور مہلک ہتھیار بناکر انسان کی تباہی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ چھری پھل کاٹنے کے لی بھی استعمال ہو سکتی ہے ، اس سے انسان کی جان بھی لی جا سکتی ہے ۔ ایٹمی طاقت انسان کی بھلائی اور تباہی دونوں کے لیے استعمال ہو سکتی ہے یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے ۔  لہذا اختیار کی آزادی سے پیدا ہونے والے شرکا خالق اللہ تعالی نہیں ہے ۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کو برائی کے لیے کیوں استعمال کر تا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان "نفع عاجل"( فوری فائدہ) کے لیے اپنی آزادی کو  غلط استعمال کرتا ہے کیونکہ اس کو اس سے وقتی لذت اور سرور حاصل ہو جا تا ہے ۔ 

معلوم ہوا کہ شر دراصل انسان اپنے اختیار کے سوئے استعمال سے پیدا کر لیتا ہے گناہ میں بھی وہ اپنے اختیار سے مبتلا ہو تا ہے ۔ شیطان کا اس سے زیادہ کوئی رول نہیں کہ وہ وسوسہ اندازی کر کے انسان کو ور غلاتا ہے ۔ اللہ تعالی نے شیطان کو یہ اختیار ہر گز نہیں دیا کہ وہ کسی شخص کو لازما گمراہ کردے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :

قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾ مَلِکِ النَّاسِ ۙ﴿۲﴾ اِلٰہِ النَّاسِ ۙ﴿۳﴾ مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۬ۙ الۡخَنَّاسِ ۪ۙ﴿۴﴾ الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿۵﴾ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ (الناس)

" کہو، میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے ربّ، انسانوں کے بادشاہ، انسانوں کے حقیقی معبُود کی اُس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے، جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے خواہ وہ جِنّوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ "

روز قیامت شیطان  برے لوگوں کو مخاطب کرکے کہے گا ا :

" وَ مَا کَانَ لَنَا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ ۚ بَلۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا طٰغِیۡنَ  " (الصفت : 30)   ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا، تم خود ہی سرکش لوگ تھے ۔  

چنانچہ شیطان  نے جب اللہ تعالی سے کہا میں اولاد آدم کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا تو اللہ تعالی نے صاف لفظوں میں فرمایا دیا :

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ ؕ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیۡلًا ( بنی اسرائیل : 65)   یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا۔ 

اس لیے شیطان کو دغا دینے والا کہا گیا ، ارشاد باری تعالی ہے :

 وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِلۡاِنۡسَانِ خَذُوۡلًا  ( الفرقان : 29)   شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نِکلا۔

دوسری  جگہ شیطان کی مثال یوں بیان ہوئی :

کَمَثَلِ الشَّیۡطٰنِ اِذۡ قَالَ لِلۡاِنۡسَانِ اکۡفُرۡ ۚ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ ( الحشر : 16)

 ان کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر، اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الزمہ ہوں، مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا کا  اجتمائی ضمیر کبھی بھی بدی پر مطمئن اور متفق نہیں ہو ا ، اگرچہ بعض برائیاں معاشرہ پر غلبہ پالیتی ہیں لیکن ہر سلیم الفطرت انسان ان سے بر سر پیکار رہے ہیں ۔ اگر معاملہ انسان کے اجتماعی ضمیر کو ختم کر بھی کر دیا تو قانون قدرت نے اس معاشرہ کو صفحہ ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ سے مٹا دیا ۔ 

غرض انسان اپنے اختیار کا سوئے استعمال اپنی خواہشارت اور جذبات سے مغلوب ہوکر کر تا ہے لیکن یہ خواہشات بذات خود بری نہیں جیسے غصہ غضب اور حمیت ، زن وزر کى خواہش، ان کو دبانے اور میٹا نے کی ضرورت نہیں البتہ ان کو ایک حد کے اندر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس عمل  کو قرآن مجید کی زبان میں" تزکیہ نفس " کہتے ہیں ۔ آپ ﷺ کے فرائض نبوت میں سے ایک فریضہ تزکیہ نفس ہے ،  اللہ تعالی نے قریش کو مخاطب کرکے  فرمایا :

 كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (البقرۃ : 151)

میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا ، جو تمہیں میری آیات سناتا ہے ، تمہارے زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے ، جو تم نہ جانتے تھے ۔

تزکیہ نفس (خیر) اور تدسیہ نفس ( شر) : 


اللہ تعالی نے قرآن میں ایک جگہ نفس کی قسم کھاکر صاف لفظوں میں بیان فرمادیا کہ جس نے اپنے نفس کی اصلاح کی وہی کامیاب ٹہرا جس نے اس کی اصلاح نہ کی وہ نامراد ہوا، اس سے معلوم ہوا کہ اصلاح اور گمراہی کا اختیار انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :

وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ، فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ ، قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ ، وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ( الشمس : 7-10) 

"  اور نفسِ انسانی اوراس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا ،  پھر اُس کی بدی اوراُس کی نیکی اس پر الہام کر دی ،یقیناً فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا"

نفس کو ہموار کرنے سے مراد یہ ہے کہ  انسان کو اللہ تعالی نے  ایسا جسم عطا کیا جو اپنے قامتِ راست ا ور اپنے ہاتھ پاؤں اور اپنے دماغ کے اعتبار سے  زندگی بسر کرنے کے لیے موزوں ترین ہے ۔ اس کو دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے اور سونگھنے کے ایسے حواس عطا کیے جو اپنے تناسب اور اپنی خصوصیات کی بنا پر اس کے لیے بہترین ذریعہ علم بن سکتے ہیں ۔  انسان کو قوت عقل و فکر، قوت استدلال و ا ستنباط، قوت خیال، قوت حافظہ، قوتِ تمیز، قوتِ فیصلہ، قوت ارادی اور دوسری ایسی ذہنی قوتیں عطا کیں جن کی بدولت وہ دنیا میں اس کام کے قابل ہوا جو انسان کے کرنے کا ہے۔ اس کے علاوہ ہموار کرنے میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اسے پیدائشی گناہ گار اور جبلی بد کردار  بنا کر نہیں بلکہ راست اور سیدھی فطرت پر پیدا کیا اور اسکی ساخت میں کوئی خلقی کجی نہیں رکھ دی کہ وہ سیدھی راہ اختیار کرنا چاہے بھی تو نہ کر سکے۔ یہی بات ہے جسے سورہ روم میں ان الفاظ بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی :

’’فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا‘‘ ( الروم : 30)۔ ، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا،

تزکیہ نفس کے لیے " زَکّٰىہَا" کے الفاظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مصدر تزکیہ ہے  لغت  ميں تزکیہ کے معنی ہیں پاک کرنا، ابھارنا اور نشو نما دینا۔ ان آیات کے سیاق و سباق سے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو ا پنے نفس کو فجور سے پاک کرے، اس کو ابھار کر تقوی کی بلندی پر لے جائے اور اس کے اندر بھلائی کو نشونما دے وہ فلاح پائے گا۔

اس کے مقابلہ میں ’’دَسّٰىہَا کے الفاظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مصدر تدسیہ ہے۔ تدسیہ کے معنی دبانے، چھپانے ، اغوا کرنے اور گمراہ کر دینے کے ہیں۔ سیاق و سباق سے اس کا مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شخص نامراد ہو گا جو اپنے نفس کے ا ندرپائے جانے والے نیکی کے رحجانات کو ابھارنے اور نشو نما دینے کے بجائے ان کو د با دے، اس کو بہکا کر برائی کے رجحانات کی طرف لے جائے، اور فجور کو اس پر اتنا غالب کر دے کہ تقوی اس کے نیچے اس طرح چھپ کر رہ جائے جیسے ایک لاش قبر پر مٹی ڈال دینے کے بعد چھپ جاتی ہے۔

تزکیہ نفس کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ بندہ تو صرف تقوی اور تزکیہ کی خواہش اور طلب ہی کر سکتا ہے، رہا اس کا نصیب ہو جانا، تو بہرحال اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے۔ اور یہی حال تدسیہ کا بھی ہے کہ اللہ زبردستی کسی کے نفس کو نہیں دباتا، مگر جب بندہ اس پر  تل جائے تو اللہ تعالی اسے تقوی اور تزکیہ کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے کہ اپنے نفس کو جس گندگی کے ڈھیر میں دبانا چاہے دبا دے۔ ( مزید دیکھیئے : تفہیم القرآن جلد ششم ص 250- 253،   سورہ شمش )   ،  ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ، خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ  ﴿البقرۃ : 6-7 ﴾

جن لوگوں نے خود کفر اختيارکيا ان کے لئے یکساں ہے، (اے! پیغمبر ) خواہ تم انہیں خبردار کرویا نہ کرو،بہر حال وہ ماننے والےنہیں۔اللہ نے اُن کے دلوں اور ان کے کانوں پر مُہرلگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیاہے۔وہ سخت سزا کے مستحق ہیں ۔

اس کے بعد ان لوگوں کے بارے ميں مزيد فرمایا :   وَ یَمُدُّہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ( البقرۃ : 15 ) 

" وہ ان کی رسّی دراز کیے جاتا ہے، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں "

اس کے بعد ان کي مثال دى:

مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ ﴿۱۷﴾ صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾ البقرۃ )

ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اُس نے سارے ماحول کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کا نورِبصارت سلب کرلیا اور انہیں اس حال میں چھوڑدیاکہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ بہرے ہیں،گونگے ہیں،اندھے ۔ 


مذکورہ تمام قرآنی آیا ت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ہر دور میں اپنے  بندوں کے لیے حق کی روشنی پھیلائی اور حق کو باطل سے ، صحیح کو غلط سے، راہِ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کر دیا ، تو جو لوگ دیدہ ٴ بینا رکھتے تھے، ان پر تو ساری حقیقتیں روشن ہو گئیں، مگر جن لوگوں نے اپنے  نفس کو پراگندہ کردیا ان کو ہدایت کی روشنی میں کچھ نظر نہ آیا۔ پھر اللہ نے ایسے لوگوں سے نورِ بصيرت سلب کر لیا ۔  اللہ نورِ بصیرت اسی کا سلب کرتا ہے ، جو خود حق کا طالب نہیں ہوتا، خود ہدایت کے بجائے گمراہی کو اپنے لیے پسند کرتا ہے، خود صداقت کا روشن چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ جب اُنہوں نے نورِ حق سے منہ پھیر کر ظلمتِ باطل ہی میں بھٹکنا چاہا تو اللہ نے انہیں اسی کی توفیق عطا فرما دی۔
------------------------------

تاریخ تحریر : 29 مارچ 2020م