قرآن حکیم : فلسفہ جبر و اختیار - تلخيص: ابوالبشر احمد طیب

قرآن حکیم : فلسفہ جبر و اختیار 
انسان نے جب سے زندگی کے مسائل پر غور کرنا شروع کیا اسی وقت سے  اس کے سامنے یہ  سوال بھی رہا ہے کہ کیا انسان غیب کی طرف سے  ایک مقررہ ڈگر پر ہانک دیا گیا ہے کہ اب وہ بالکل بے اختیار ہے، یا وہ اپنے لیے خود راہ عمل اختیار کرتا ہے، اس کے ارادے اور عمل میں  کسی کا کوئی دخل نہیں ، وہ اپنے  فیصلے اور کام خود کرتا ہے۔؟  اس مسئلہ میں اہل دانش کے دو گروہ ہیں : ایک جبر کے قائل ہے کہ غیب کی طرف سے انسان کے لیے ایک راہ مقرر کردی گئی وہ اس پر چلنے پر مجبور ہے  اور دوسرا گروہ  انسان کی آزادی اور اختیار کا قائل ہے ۔

اگر پہلی صورت ہے یعنی جبر تو انسان کے اعمال کے نیک اور بد ہونے کا  سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور انسان کو اس کے اعمال پر  جزا و سزا ملنے کا تصور بے معنی ہوجاتا ہے ۔  اور اگر دوسری صورت ہے یعنی آزادی اور اختیار تو انسان کی آزادی کی نوعیت کیا ہے اور وہ کس حد تک اپنے فیصلے اور عمل میں آزاد ہے؟ ابارے میں فلسفیوں نے مختف رائی ظاہر کی ہے ،  ذیل میں اس فلسفہ جبر اور اختیار کے بارے میں  فلسفیوں کے مختلف دلائل کا تنقیدی جائزہ لیں گے پھر قرآن حکیم کا نقطہ نظر پیش کیا جائے گا ۔

  جو فلسفی جبر کے قائل ہیں ، ان کے دلائل یہ ہیں کہ انسان اس کائنات میں ایک میشن کے پرزہ کی مانند  ہے ، اس لیے کسی پرزے کی آزادی کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ ان کی طرف سے دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جس طرح دنیا کی ہرچیز طبیعات کے بے لچک قوانین کے تحت چل رہی ہے انسان بھی انہی بے لچک قوانین کے تابع ہے اس وجہ سے آزادی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ البتہ کچھ متعدل فلسفیوں کا کہنا ہے کہ ازل سے ابدتک تمام واقعات علت و معلول کی ایک طویل زنجیر کی کڑیاں ہیں ۔ انسان بھی اس زنجیر کی ایک کڑی ہے  اس وجہ سے اس کے اعمال ایسے عوامل کا نتیجہ ہیں جن پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ، اس گروہ کا نمائندہ فلسفی ، زینو (zeno) ہے،  مشہور فلسفی والٹئیر نے یہ کہ کر بات ختم کردی " میں جو چاہوں اگر کرسکوں تو آزاد ہوں لیکن کیا میں یہ چاہنے  میں بھی آزاد ہوں ؟ "  یونان کے ابتدائی عہد کے فلسفیوں کا عقیدہ تھا کہ دنیا پر چند جابر قوتوں کی حکمرانی ہے جن کے سامنے انسان بے بس ہے،  یہی قوتیں انسان کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ یونان اور ہندوستان  کی ساری دیومالائی کہانی اسی تصور پر گھڑی گئی تھی ۔  فلسفیوں کا ایک بڑا گروہ جس میں قدیم یونانی رواقی فلسفی، وحدۃ الوجود کے قائل فلسفی سپنوزا اور پندرھویں صدی اور سولہویں صدی کے سائنسدان اور فرانس کا مشہور فلسفی  والٹیئر اس عقیدہ جبر کے قائل ہیں۔ 


دوسرا گروہ جو انسان کی آزادی کا قائل ہے وہ بھی طبعی قوانین کی حد تک عقیدہ جبر کے قائل ہے۔  البتہ ان کے نزدیک اخلاقی دائرہ میں انسان اپنے فیصلے اور عمل میں آزاد ہے، ان کا کہنا ہے کہ انسان کے اندر نیکی اور بدی کا شعور موجود ہے اس لے انسان نیکی اور بدی میں سے کسی راہ کا انتخاب کرنے میں آزاد ہے۔ اس لیے اس سے اس کے اعمال کی پرسش ہوگی اور جن اعمال اور واقعات میں انسان بے اختیارہے ، ان کے بارے میں  اس کی پرسش بھی نہیں ہوگی ۔  البتہ یہ گروہ بھی انسان کے مطلق اختیار کے قائل نہیں ، بلکہ انسان کو نیکی اور بدی کی راہ اختیار کرنے میں جو آزادی حاصل ہے اس میں وہ اپنی صوابدید سے فیصلہ کرتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے صحیح ہے اور کیا چیز غلط ہے ۔ اس لیے انسان کو قدم قدم پر عقل کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس  لیے ان کے نزدیک عقل کی بڑی اہمیت ہے ۔ ان کے نزیدک عقل کی مدد سے ہی فیصلہ کیا جائے گا  کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے ؟  لیکن اس بابت  تمام بڑے فلسفی  جیسے ارسطو، کانٹ، روسو وغیرہ  نیکی اور بدی کے فیصلے میں عقل کو مرشد کامل نہیں مانتے۔ اس لیے کہ بعض دفعہ عقل جذبات اور خواہشات سے مغلوب ہوجاتی ہے ، کبھی کبھی عقل باطل چیز کی حمایت میں پورا  بے بنیاد فلسفہ  گھڑ لیتی ہے ۔ 

جہاں تک مذہب کا تعلق ہے وہ عقل کی خامی کو تسلیم کرکے اس کا حل وحی الہی بتا تا ہے۔ پس مذہب کی رو سے یہ ضروری ہے کہ عقل وحی الہی کے تابع ہو ، ورنہ گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے ۔ یہی عیسائی متکلمین کا استدلال ہے، مسلمان متکلمین کے بہت سے گروہ  ہیں، مرجیہ ، ماتریدیہ ، اشاعرہ ، اور معتزلہ یہ  سب عباسی دور میں پیدا ہوئے ۔ کیونکہ  اسی دور میں یونانی فلسفیوں کی کتابوں کے ترجمے ہوئے اور مختلف مذاہب کے لوگوں سے مناظرہ بھی ہوئے ۔

جبر اور اختیار کے بارے میں اشاعرہ کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لیے یہ بالکل جائز ہے کہ انسان پر اس چیز کی ذمہ داری ڈال دے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔ اللہ کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ بندوں کی مصلحت کے مطابق کام کرے بلکہ وہ جو چاہے کرے ۔ امام غزالیؒ  اشاعرہ کے امام ہیں ، انہوں نے کہا کہ " خدا کو یہ حق ہے کہ وہ کسی جرم کے بغیر مخلوق کو عذاب دے "  ۔ امام رازی ؒ بھی اشاعرہ کے امام تھے ان کا کہنا ہے کہ " انسان کو اپنے اعمال میں  کوئی اختیار نہیں، کافر کا کفر اور گناہ گار کا گناہ خدانے خود چاہا ہے ۔

دراصل اشاعرہ کو عقیدہ تقدیر کے بارے میں دھوکہ ہوا ہے ان کا تقدیر کے بارے میں یہ تصور تھا کہ جو چیز پیش آنے والی ہے وہ خدا نے پہلے ہی سے لکھی ہوئی ہے  اس لیے انسان کے پاس کوئی اختیار نہیں ۔ اگر ایک شخص کے متعلق یہ مقدر ہے کہ وہ جہنم میں جائےگا ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ جنت میں جائے اور جس شخص کا مقدر یہ ہے کہ وہ جنت میں جائے گا تو وہ کس طرح دوزخ میں جا سکتا ہے۔  اشاعرہ کا کہنا ہے کہ خدا جو بات جانتا ہے اس کے خلاف نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اس طرح خدا کے علم کی نفی لازم آئےگی ۔

اس کے مقابلے میں معتزلہ کا مذہب یہ ہے کہ خدا کسی "مالا یطاق" یعنی محال بات کا حکم نہیں دے سکتا ۔ اس کے لیے عدل و انصاف کرنا واجب ہے ۔ وہ نیکی کے بدلے  میں عذاب اور گناہ کے بدلے میں ثواب نہیں دے سکتا ۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو ظلم اور نا انصافی ہے ۔


قرآن حکیم کا نقطہ نظر :


 سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ طبیعی اور تکوینی قوانین اور تقدیری امور مسئلہ جبر اور اختیار سے خارج ہیں، اس پر تمام بڑے فلسفیوں اور اہل مذہب کا اتفاق ہے۔ جبر اور اختیار کے مسئلہ پر بعض فلسفیوں اور متکلمین کو غلط فہمی اس لیے ہوئی کہ انہوں نے اس کا دائرہ زندگی کے تمام معاملات پر محیط کر لیا۔ اور یہ بھی معلوم ہے اگر کسی کام میں انسان کو اختیار حاصل ہے تو مطلق کسی صورت نہیں ہوسکتا کیوںکہ یہ اللہ کی صفت ہے، اس کی صفات میں کوئی شریک نہیں ۔ " لیس کمثلہ شئ" معلوم ہوا کہ یہ یہ اختیار بھی محدود ہے اس کی مثالیں قرآن مجید میں ملتی ہیں ۔ انسانی اختیار اور آزادی محدود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی نیت اور ارادہ بعض دفعہ عملی صورت گیری سے محروم ہوجاتا ہے قرآن مجید اور آحادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی نیت اور ارادہ بھی نیکی اور بدی کی جزا و سزا میں مؤثر ہوگا ۔ جیسے حدیث میں نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ " انسان کے اعمال کا دار و مدار نیتوں پر"  ہے (بخاری ) ۔ اس حدیث کا ایک مطلب یہ ہے کہ  بعض دفعہ اللہ تعالی کسی بندے کو نیک کام سے روک دیتا ہے اور وہ کوشش کے باوجود وہ نہیں کرسکتا تو وہ ثواب سے محروم نہیں ہوتا،  تو اس کو ثواب اس کی نیک نیتی کی وجہ سے ملتا ہے ۔

 جیسے جنگ تبوک میں کچھ لوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے لیکن وہ دل سے شریک ہونا چاہتے تھے ۔ قرآن میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ۔  جنگ تبوک کے موقع پر جو پوزیشن قرآن مجید میں بیان ہوا یہ کہ کچھ لوگ تبوک جانے کے لیے سواری حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن سواری نہیں مل سکی ، نہ سرمایہ جمع کرسکے ، قرآن مجید نے ان لوگوں کے متعلق کہا ہے کہ تبوک کے مجاہدین جن وادیوں سے گزرے ان میں یہ سب لوگ بھی شریک تھے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں ان کے نیک ارادہ کا صلہ ملا ۔ اس کے بر عکس جو لوگ وسائل رکھنے کے باوجود جنگ میں شریک نہ ہوئے اور بہانے بناکر مدینہ میں رہ گئے ، تو ان کے شوق جہاد کے دعؤوں کے باوجود قرآن مجید میں ان کی مذمت کی گئی وہ ثواب سے بھی محروم ہوگئے ۔ ( سورۃ التوبۃ : 38- 46)

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ ایک انسان کے اختیار کی حدود کیا ہیں ، انسان نیکی یا بدی کا انتخاب کر سکتا ہے ، اس کے لیے جدوجہد کرسکتا ہے لیکن اس کے ارادوں کو بروئے کار لانا اللہ تعالی کی حکمت کے مطابق ہوگا ۔ وہ چاہے گا تو ارادہ پورا ہوگا ، اگر نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا ۔ لیکن اس کی جزا اور سزا ضرور ملے گی ۔

اس مسئلہ پر حضرت یعقوب ؑ کا واقعہ بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے،  انہوں نے اپنے بیٹے کو مصر میں داخل ہوتے ہوئے الگ الگ داخل ہونے کی ہدایت کی تھی ۔  لیکن حضرت یعقوب ؑ کی اس ہدایت کے متعلق  قرآن مجید میں صراحت ہے کہ  وہ اپنے بیٹوں کو اس صورت حال سے نہ بچاسکے جس کا خدانے فیصلہ کر رکھا تھا ۔ (یوسف:  66-68) 

اسی طرح قرآن میں " ان شاء" کے بارے میں ہدایت ہے کہ  ان شاء اللہ کہے بغیر یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ "  یہ کام میں کل کرلوں گا"  ۔ ( الکھف : 23)

تقدیر کی حقیقت : 


  اس میں کوئی شک نہں کہ اللہ کی تقدیر کا فیصلہ اٹل ہے ۔ لیکن تقدیر کا علم ہمیں نہیں دیا گیا ۔ مگر ہمیں یہ خبر ضرور دی گئی  کہ انسان اپنے نیک اعمال کی بدولت جنت میں جائے گا اور برے اعمال کی بدولت جہنم میں ۔ اس لیے انسان عمل سے مستغنی نہیں ہو سکتا ۔

 اسی طرح ہدایت اور ضلالت کے متعلق خدا کی ایک سنت ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر انسان کو " فطرۃ اللہ  " پر پیدا کرتا ہے ’’فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا‘‘ ( الروم : 30)۔ ، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا ۔

قرآن مجید میں جب یہ کہا جا تا ے کہ اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کر تا ہے تو یہ معاملہ الل ٹپ نہیں ہوتا بلگہ ایک ضابطہ اور سنت کا  پابند ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے خدا نے خود اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ وہ اس ضابطہ کی پابندی کر تا ہے تو اس سے اس کے ضابطہ اور مشیت پر کوئی بول نہیں سکتا ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کی اصطلاح ایک خاص مفہوم رکتھی ہے ۔ ہدایت دینے کا مطلب یہ ہو تا ہے اللہ تعالی ہدایت کی توفیق بخشتا ہے اور گمراہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گمراہی پر جانے کے لیے اسے  ڈھیل دے دیتا ہے ۔
 ( وماتشاءون الا أن يشاء الله ) (يضل به كثيرا ويهدي به كثيرا ) ( إنك لا تهدي من أحببت ) (إن الله فعال لما يريد ) ان تمام آیات اسی مفہوم میں دیکھنا چاہئے ۔ 

 قرآن مجید میں بعض لوگوں کے متعلق جہاں بیان ہوا ہے کہ " ان کے دلوں پر سیاہی چھاگئی ہے"   ان کے دلوں پر مہر کردی ہے،"   اب اس میں ہدایت داخل نہیں ہوسکتی " ،  وہ واپس لوٹنے والے نہیں " ۔ وہاں قرآن مجید میں ہمیں یہ بھی آیت ملتی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : 

وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ، فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ ، قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ ، وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ( الشمس : 7-10) 

"  اور نفسِ انسانی اوراس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا ،  پھر اُس کی بدی اوراُس کی نیکی اس پر الہام کر دی ،یقیناً فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا"

معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ازل سے تمام انسانوں کی فطرت میں خیر اور شر کا شعور ودیعت کردیا ہے اور نیکی اور بدی کا یہی وہ دائرہ ہے جس میں وہ مسئول قرار دیے گئے ہیں ۔

جو انسان اللہ کی دی ہوئی  نیکی کی صلاحتیں کو  بروئے کار لاتا ہے تو اللہ کا قاعدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی مزید ہدایت کی توفیق دیتا ہے لیکن جو لوگ ان صلاحیتوں کو ضائع کر دیتا ہے تو اللہ تعالی ان کو ہدایت سے محروم کردیتا ہے ۔  ارشاد باری تعالی ہے :

 وَ یَمُدُّہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ( البقرۃ : 15 ) 

" وہ ان کی رسّی دراز کیے جاتا ہے، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں "