حضرت شعيب عليہ السلام اور ان کى قوم

ابراہیم ؑ کی نسل :  بنی اسماعیل ، بنی اسرائیل اور بنی مدین تین مشہور شاخیں ہیں، اللہ تعالی نے ان کی نسل سے عظیم قومیں پیدا کیں ۔ جن سے نبوت کا سلسلہ آگے چلا ، آپ کے فرزند اسحاق ؑکے بیٹے یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے ، جوشام اور مصر میں آبادہوئے۔ ان میں جلیل القدر انبیاء اور بادشاہ پیدا ہوئے ۔ ابراہیم ؑ کا بیٹا مدین سے بنی مدین وجود میں آئے ، انہیں میں حضرت شعیب ؑ نبی بنے۔ ابراہیم ؑ نے اپنے فرزند اسماعیل ؑکو وادی غیر ذی زرع بکہ ( مکہ ) میں آباد کیا تھا ، جن سےبنی اسماعیل کی نسل چلی ، اسماعیلؑ کے بعد بنی اسماعیل میں کوئی نبی نہیں آیا، اس دوران نبوت کا سلسلہ بنی مدین اور بنی اسرائیل میں جاری رہا ۔ اسماعیل ؑ کے بعد اس سلسلہ نبوت کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اللہ نے جن کی رسالت کوتمام جہاں کے لیے تاقیامت رحمۃ للعالمین اور کافۃ للناس بنادیا ۔ 
آثار مدین 

بنو مدین کا تعلق حضرت ابراہیم ؑ کی ایک تیسری بیوی قطورا سے تھا ، ان کے بطن سے ایک بیٹا مدین پیدا ہوا ، جو سب سے زیادہ مشہور ہو ا ، مدین کے کئی اور بھی بھائی تھے ، ان کی اولادیں بھی تھیں ، تورات میں صرف دو کی اولاد کا ذکر ہے ، بنی دوان اور بنی مدین ، اور شعیب ؑ کا تعلق بنی مدین سے تھا ، دوان کا ذکر قرآن مجید میں اصحاب الایکہ (جنگل والے ) کے نام سے آیا ہے ، جبکہ بنی مدین کو قوم شعیب کہاگیا ۔ یہ دونوں تاجر قوم تھیں ، ان دونوں قوموں اور علاقوں کے بیک وقت شعیب ؑ نبی تھے ۔ حضرت شعیب ؑ کا نام تورات میں جوباب یا ثیرومذکور ہے ، عربی میں بدل کرشعیب مشہور ہوا ۔ مدین اور ایکہ ان دونوں علاقوں کا آپس میں گہرا تعلق تھا ، ان کا زمانہ بھی باہم ایک تھا ، جس کی بنا پر دونوں آبادیوں کے لیے ایک ہی نبی کی بعثت ہوئی ، نیز قرآن مجیدنے دونوں کے اخلاق اور کردار کا نقشہ بھی ایک ہی پیش کیا ۔ 

جغرافیہ دانوں کے مطابق یہ دونوں قوم بنو دوان اور بنومدین بحر احمر خلیج عقبہ کے ساحل کے قریب شہر مدین اور اس کے آس پاس آباد تھیں ۔ یہ شہر اس قدیم شاہراہ کے عین چوراہ   پر واقع تھا جہاں جزیرہ نما ئے عرب کی دو مشہور تجارتی شاہراہیں یمن سے شام او ر عراق سے مصر جانے والی شاہراہ آکر ملتی تھیں ۔ ایک تجارتی شاہراہ جو یمن سے سواحل بحر احمر کے کنارہ کنارہ حجاز و مدین سے گزر کر خلیج عقبہ کے کنارہ سے نکل کر تیماء وغیرہ کو قطع کرتی ہوئی شام تک جاتی تھی۔ دوسری تجارتی شاہراہ  جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی۔ یہ نہایت قدیم بین الاقوامی تجارتی سڑک تھیں ، جو قدیم زمانہ میں عراق ، ہندوستان ، یمن ، مصر اور شام کے تجارتی کاروانوں کا تنہا راستہ تھا ، اس راستہ کا ذکر تمام قدیم جغرافیہ دانوں کے ہاں موجود ہے ، اسی راستہ پر وای القری ثمود کا مسکن تھا ، مشہور شہر سدوم قوم لوط کا مقام اسی راستہ پر تھا ، اسی راستہ پر قدیم علاقہ :  تبوک ، تیماء ، اور رقیم واقع ہیں اور اصحاب الایکہ یعنی بنو دوان اور قوم شعیب یعنی بنو مدین اسی سٹرک کے کنارہ اور آس پاس آباد تھے ۔ اس راستہ کو تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے ، قرآن میں اس شاہراہ کو "امام مبین "( کھلی شاہراہ ) کہا گیا ہے۔ تجارتی قافلہ دن رات اس راستے سے سفر کرتے تھے ، اسی شاہراہ پر قریش عرب کےسالانہ دو قافلے نکلتے تھے ، قرآن مجید میں رحلۃ الشتاء و الصیف ( گرمی اور سردی کا قافلہ ) سے ان کی طرف اشارہ ہے۔ 

---------------- 

عرب کے اکثر علاقے کے تین طرف بحری سواحل واقع ہیں ، قدیم زمانہ میں عرب کی زیادہ تر آبادی سواحل کے کنارہ پر تھی ، مغرب میں بحرین ، عمان ، خلیج فارس کے سواحل پر واقع ہیں ،اور شمال میں حضرت موت اور یمن، بحر عرب کے سواحل پر اور مشرق میں حجاز و مدین ، بحر احمر کے سواحل پر واقع ہیں ۔ اور اندروں ملک میں عرب کا جو حصہ زرخیز ہے مثلا یمامہ ، نجد ، اور یثر ب ( مدینہ منورہ ) و خیبر و غیرہ یہاں کاشتکاری ہوتی تھی ۔ 

عرب کے یہ ساحلی صوبے دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے آمنے سامنے واقع ہیں ، عمان و بحرین ، ایران و عراق سے متصل ہیں ، یمن اور حضرت موت کو افریقہ اور ہندوستان سے تعلق ہے ۔ حجاز کے سامنے مصر ہے ، اور شام کا ملک اس کے بازو پر واقع ہے ، اس کی جغرافی تحدید سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طبعی سہولتوں کے لحاظ سے عرب کے کس صوبہ کو دنیا کے کس زرخیز خطہ سے تجارتی تعلقات حاصل تھے ، تاریخ سے معلوم ہے کہ عرب کے ان تجارتی صوبوں کو اپنے ان ہی ہمسایہ ملکوں سے تعلق تھا ، انہیں عربوں کے ذریعے یورپ اور افریقہ کے انتہائی دور دراز ملکوں تک تجارتی سامان مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پہہنچ پاتے ۔ 

عرب کے تجارتی حالات کسی قدر تواۃ کے صفحوں سے اور زیادہ تر یونان کے قدیم تاریخ دانوں سے واضح ہوتے ہیں ، ان کےبیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب تاجر دو ہزار سال قبل مسیح ؑ سے برابر مشرق و مغرب شمال و جنوب والوں کے لیے اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔ بین الاقوامی تجارت کے تعلقات میں بیچ کی لڑی ہمیشہ یہی رہے ہیں ۔ یوسف ؑ کے قصہ میں جس تجارتی قافلہ کا ذکر ہے وہ بھی اسی راستہ سے گزرا تھا۔ اس زمانہ میں عرب کی تمام بڑی بڑی آبادیاں اسی کے دائیں بائیں واقع تھیں ۔ 

افریقہ اور ہندوستان سے سامان تجارت بحری راستوں سے آکر یمن اور حضرت موت کے سواحل پر اترتا ، اور یہاں سے خشکی کے راستے سے بحر احمر کے کنارے کنارے حجاز ، مدین ، وادی القری کو قطع کرکے شام پہنچتا ، اور وہاں سے بحرروم ہوکر یورپ کو چلاجاتا ، یا شام کی سرحد سے مصر پہنچتا ، اور وہاں سے اسکندر یہ کی بندرگاہ سے یورپ کو روانہ ہوجاتا ۔ 

عربوں کا سامان تجارت زیادہ تر ، کھانے کا مسالہ اور خوشبودار چیزیں ، سونا ، جوہرات اور لوہا ، چمڑا ، کھال ، زین پوش ، بھیڑ، بکری ،اونٹ تھا ۔ خوشبودار چیزین جیسے لوبان ، زعفران ، اور دیگر نباتات یمن اور نجد میں پیدا ہوتے تھے ، لیکن مسالہ جیسے لونگ ، سیاہ مرچ ، الائچی ، دارچینی ، ناریل ، املی وغیرہ ہندوستان سے در آمد کرتے تھے ، اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ عربی زبان میں آج تک مسالہ اور خوشبو کی اکثر چیزوں کے نام سنسکرت سے آئے ہیں ، مثلا مشک ، فلفل ، کا فور ، زنجبیل ، صندل ، نارجلیل ، قرنفل بعض چیزوں کے نام سے ہندی کا لفظ نسبت کے لیے شامل ہوگیا ، مثلا عود ہندی ، قسط ہندی، تمر ہندی ، تلواریں بھی ہندوستان سے بن کر جاتی تھیں ، اسی لیے عربی میں مہند تلوار کے وصف کے طور پر استعمال ہوا ، یہ سب جنوب ہند اور جزائر ہند کے پیداوار ہیں ۔ 

موتیاں تو خاص سواحل عرب کی ہیں ، بحرین و عمان کے دریاؤں میں موتیوں کے خزانے ہیں ، اسی طرح عرب میں سونے کی بہت بڑی بڑی کانیں ہیں ، اس کے علاوہ چاندی ، تانبا ، اور عقیق کی کانیں بھی ہیں ( ہمدانی کی کتاب " صفۃ جزیرۃ العرب " میں ان کی تفصیلات ہیں ) ۔ عرب کی کھالیں بھی سامان تجارت میں شامل تھیں ۔ وہ جہاں جاتے تھے وہاں کے ملکوں سے کپڑا ، غلہ ، ہتھیار اور آرائش کی چیزیں جیسے آئینہ وغیرہ درآمد کرتے تھے ۔ 

---------- 

مدین کے قبائل ایک منظم زندگی رکھتے تھے، شہر میں مذہبی رسوم و آداب کی تلقین و حفاظت کے لیے معبد اور کاہن ہوتے تھے ، اور یہی کاہن شہر کے قانونی حاکم بھی قرار پاتےتھے ۔ اور دوسرا اہم ادارہ دار الحکومت تھا ، تورات کے مطابق اس زمانے میں شہر مدین، پانچ بادشاہوں یا شیوخ کے ماتحت تھا ۔ 

حضرت موسی ؑ جب مصر سے ہجرت کرکے شہر مدین آئے تھے ، تو وہ جوباب یا شعیب ؑ کے یہاں مہمان ہوئے ۔ اور ان کے ہاں بکریاں چرانے کی خدمت قبول کی، اور اس کے معاوضہ میں حضرت شعیب ؑ نے اپنی بیٹی موسی ؑ کی زوجیت میں دی ۔ قدر ت کی طرف سے یہ منظور تھا کہ چونکہ حضرت موسی ؑ کو بنو سام کے عظیم الشان پیغمبر بننا تھا ۔ اس لیے ان کے لیے ضروری تھی کہ وہ جہاں بانی سے پہلے گلہ بانی کا سبق لے ، اس لیے قضائیے الہی نے موسی ؑکو مصر کے تمدن زار سے عرب کے ریگ زار میں بھیج دیا ، جہاں شرفائے سام نے اب تک اپنے آبائی عادات و اخلاق کو متروک نہیں کیا تھا ۔ جدید دور میں یورپ کے اہل اکتشاف نے خاص کر مدین کے آثار کا مشاہدہ کیا ، جنہیں یہاں بہت سے کتبات میں ملے ۔ 

-------------