شق القمر کا واقعہ ۔ سید ابوالاعلی مودودی ؒ

 قرآن مجید کی سورہ قمر میں شق القمر کے واقعہ کا ذکر آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " محدثین و مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے مکہ معظمہ میں منیٰ کے مقام پر پیش آیا تھا۔

شق القمر کا واقعہ 

اس میں کفار مکہ کو اس ہٹ دھرمی پر متنبہ کیا گیا ہے جو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے مقابلہ میں اختیار کر رکھی تھی۔ شق القمر کا حیرت انگیز واقعہ اس بات کا صریح نشان تھا کہ وہ قیامت جس کے آنے کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے تھے، فی الواقع برپا ہو سکتی ہے، اور اس کی آمد کا وقت قریب آ لگا ہے۔ چاند جیسا عظیم الشان کرہ ان کی آنکھوں کے سامنے پھٹا تھا۔ اس کے دونوں ٹکڑے الگ ہو کر ایک دوسرے سے اتنی دور چلے گئے تھے کہ دیکھنے والوں کو ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا تھا۔ پھر آن کی آن میں وہ دونوں پھر مل گئے تھے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ نظام عالم ازلی و ابدی اور غیر فانی نہیں ہے۔ وہ درہم برہم ہوسکتا ہے۔ بڑے بڑے ستارے اور سیارے پھٹ سکتے ہیں۔ بکھر سکتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں۔ اور وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جس کا نقشہ قیامت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے قرآن میں کھینچا گیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ یہ اس امر کا پتا بھی دے رہا تھا کہ نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہوگیا ہے اور وہ وقت قریب ہے جب قیامت برپا ہوگی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی حیثیت سے لوگوں کو اس وقعہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا، دیکھو اور گواہ رہو۔ مگر کفار نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دیا اور اپنے انکار پر جمے رہے۔ اسی ہٹ دھرمی پر اس سورۃ میں انہیں ملامت کی گئی ہے۔ 

کلام کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا گیا کی یہ لوگ نہ سمجھانے سے مانتے ہیں، نہ تاریخ سے عبرت حاصل کرتے ہیں، نہ آنکھوں سے صریح نشانیاں دیکھ کر ایمان لاتے ہیں۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب قیامت فی الواقع برپا ہوجائے گی اور قبروں سے نکل کر یہ داور محشر کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ( سورہ قمر :1)

قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔

یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قیامت کی گھڑی، جس کے آنے کی تم لوگوں کو خبر دی جاتی رہی ہے، قریب آ لگی ہے اور نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہوگیا ہے۔ نیز یہ واقعہ کہ چاند جیسا ایک عظیم کرہ شق ہو کر دو ٹکڑے ہوگیا، اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ جس قیامت کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ برپا ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب چاند پھٹ سکتا ہے تو زمین بھی پھٹ سکتی ہے، تاروں اور سیاروں کے مدار بھی بدل سکتے ہیں اور افلاک کا یہ سارا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی چیز ازلی و ابدی اور دائم و مستقل نہیں ہے کہ قیامت برپا نہ ہو سکے۔ 

بعض لوگوں نے اس فقرے کا مطلب یہ لیا ہے کہ " چاند پھٹ جائے گا "۔ لیکن عربی زبان کے لحاظ سے چاہے یہ مطلب لینا ممکن ہو، عبارت کا سیاق و سباق اس معنی کو قبول کرنے سے صاف انکار کرتا ہے۔ اول تو یہ مطلب لینے سے پہلا فقرہ ہی بےمعنی ہوجاتا ہے۔ چاند اگر اس کلام کے نزول کے وقت پھٹا نہیں تھا، بلکہ وہ آئندہ کبھی پھٹنے والا ہے تو اس کی بنا پر یہ کہنا بالکل مہمل بات ہے کہ قیامت کی گھڑی قریب آ گئی ہے۔ آخر مستقبل میں پیش آنے والا کوئی واقعہ اس کے قرب کی علامت کیسے قرار پا سکتا ہے کہ اسے شہادت کے طور پر پیش کرنا ایک معقول طرز استدلال ہو۔ دوسرے یہ مطلب لینے کے بعد جب ہم آگے کی عبارت پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتی۔ آگے کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ لوگوں نے اس وقت کوئی نشانی دیکھی تھی جو امکان قیامت کی صریح علامت تھی مگر انہوں نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دے کر جھٹلا دیا اور اپنے اس خیال پر جمے رہے کہ قیامت کا آنا ممکن نہیں ہے۔ اس سیاق و سباق میں اِنْشَقَّ الْقَمَرُ کے الفاظ اسی صورت میں ٹھیک بیٹھ سکتے ہیں جبکہ ان کا مطلب " چاند پھٹ گیا " ہو۔ " پھٹ جائے گا " کے معنی میں ان کو لے لیا جائے تو بعد کی ساری بات بےجوڑ ہوجاتی ہے۔ سلسلہ کلام میں اس فقرے کو رکھ کر دیکھ لیجیے، آپ کو خود محسوس ہوجائے گا کہ اس کی وجہ سے ساری عبارت بےمعنی ہوگئی ہے : 

 " قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ جائے گا۔ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی "۔ 

پس حقیقت یہ ہے کہ شق القمر کا واقعہ قرآن کے صریح الفاظ سے ثابت ہے اور حدیث کی روایات پر اس کا انحصار نہیں ہے۔ البتہ روایات سے اس کی تفصیلات معلوم ہوتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ یہ کب اور کیسے پیش آیا تھا۔ یہ روایات بخاری، مسلم، ترمذی، احمد، ابو عوانہ، ابو داؤد طیالسی، عبدالرزاق، ابن جریر، بیہقی، طبرانی، ابن مردویہ اور ابو نعیم اصفہانی نے بکثرت سندوں کے ساتھ حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت حذیفہ، حضرت انس بن مالک اور حضرت جبیر بن مطعم سے نقل کی ہیں۔ ان میں سے تین بزرگ، یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ اور حضرت جبیر بن مطعم تصریح کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں۔ اور دو بزرگ ایسے ہیں جو اس کے عینی شاہد نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ ان میں سے ایک (یعنی عبداللہ بن عباس) کی پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے، اور دوسرے (یعنی انس بن مالک) اس وقت بچے تھے۔ لیکن چونکہ یہ دونوں حضرات صحابی ہیں اس لیے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایسے سن رسیدہ صحابیوں سے سن کر ہی اسے روایت کیا ہوگا جو اس واقعہ کا براہ راست علم رکھتے تھے۔ 

تمام روایات کو جمع کرنے سے اس کی جو تفصیلات معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ قمری مہینے کی چودھویں شب تھی۔ چاند ابھی ابھی طلوع ہوا تھا۔ یکایک وہ پھٹا اور اس کا ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا۔ یہ کیفیت بس ایک ہی لحظہ رہی اور پھر دونوں ٹکڑے باہم جڑ گئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا دیکھو اور گواہ رہو۔ کفار نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( نے ہم پر جادو کردیا تھا اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکا کھایا۔ دوسرے لوگ بولے کہ محمد ہم پر جادو کرسکتے تھے، تمام لوگوں پر تو نہیں کرسکتے تھے۔ باہر کے لوگوں کو آنے دو۔ ان سے پوچھیں گے کہ یہ واقعہ انہوں نے بھی دیکھا ہے یا نہیں۔ باہر سے جب کچھ لوگ آئے تو انہوں نے شہادت دی کہ وہ بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں۔ 

بعض روایات جو حضرت انس سے مروی ہیں ان کی بنا پر یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شق القمر کا واقعہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ پیش آیا تھا۔ لیکن اول تو صحابہ میں سے کسی اور نے یہ بات بیان نہیں کی ہے۔ دوسرے خود حضرت انس کی بھی بعض روایات میں مرتین (دو مرتبہ) کے الفاظ ہیں اور بعض میں فرقتین اور شقتین (دو ٹکڑے ) کے الفاظ۔ تیسرے یہ کہ قرآن مجید صرف ایک ہی انشقاق کا ذکر کرتا ہے۔ اس بنا پر صحیح بات یہی ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک مرتبہ پیش آیا تھا۔ رہے وہ قصے جو عوام میں مشہور ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا اور وہ دو ٹکڑے ہوگیا اور یہ کہ چاند کا ایک ٹکڑا حضور کے گریبان میں داخل ہو کر آپ کی آستین سے نکل گیا، تو یہ بالکل ہی بےاصل ہیں۔ 

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی حقیقی نوعیت کیا تھی؟ کیا یہ ایک معجزہ تھا جو کفار مکہ کے مطالبہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی رسالت کے ثبوت میں دکھایا تھا ؟ یا یہ ایک حادثہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے چاند میں پیش آیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو اس کی طرف توجہ صرف اس غرض کے لیے دلائی کہ یہ امکان قیامت اور قرب قیامت کی ایک نشانی ہے ؟ علماء اسلام کا ایک بڑا گروہ اسے حضور کے معجزات میں شمار کرتا ہے اور ان کا خیال یہ ہے کہ کفار کے مطالبہ پر یہ معجزہ دکھایا گیا تھا۔ لیکن اس رائے کا مدار صر ف بعض ان روایات پر ہے جو حضرت انس سے مروی ہیں۔ ان کے سوا کسی صحابی نے بھی یہ بات بیان نہیں کی ہے۔ فتح الباری میں ابن حجر کہتے ہیں کہ " یہ قصہ جتنے طریقوں سے منقول ہوا ہے ان میں سے کسی میں بھی حضرت انس کی حدیث کے سوا یہ مضمون میری نگاہ سے نہیں گزرا کہ شق القمر کا واقعہ مشرکین کے مطالبہ پر ہوا تھا۔ " (باب انشقاق القمر)۔ ایک روایت ابو نعیم اصفہانی نے دلائل لنبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس مضمون کی نقل کی ہے، مگر اس کی سند ضعیف ہے، اور قوی سندوں سے جتنی روایات کتب حدیث میں ابن عباس سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ علاوہ بریں حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن عباس، دونوں اس واقعہ کے ہم عصر نہیں ہیں۔ بخلاف اس کے جو صحابہ اس زمانے میں موجود تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہم) ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ مشرکین مکہ نے حضور کی صداقت کے ثبوت میں کسی نشانی کا مطالبہ کیا تھا اور اس پر شق القمر کا یہ معجزہ ان کو دکھایا گیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن مجید خود بھی اس واقعہ کو رسالت محمدی کی نہیں بلکہ قرب قیامت کی نشانی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ البتہ یہ اس لحاظ سے حضور کی صداقت کا ایک نمایاں ثبوت ضرور تھا کہ آپ نے قیامت کے آنے کی جو خبریں لوگوں کو دی تھیں، یہ واقعہ ان کی تصدیق کر رہا تھا۔ 

معترضین اس پر دو طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اول تو ان کے نزدیک ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے کہ چاند جیسے عظیم کرے کے دو ٹکڑے پھٹ کر الگ ہوجائیں اور سینکڑوں میل کے فاصلے تک ایک دوسرے سے دور جانے کے بعد پھر باہم جڑ جائیں۔ دوسرے وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ واقعہ دنیا بھر میں مشہور ہوجاتا، تاریخوں میں اس کا ذکر آتا، اور علم نجوم کی کتابوں میں اسے بیان کیا جاتا۔ لیکن در حقیقت یہ دونوں اعتراضات بےوزن ہیں۔ جہاں تک اس کے امکان کی بحث ہے، قدیم زمانے میں تو شاید وہ چل بھی سکتی تھی، لیکن موجودہ دور میں سیاروں کی ساخت کے متعلق انسان کو جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کی بنا پر یہ بات بالکل ممکن ہے کہ ایک کرہ اپنے اندر کی آتش فشانی کے باعث پھٹ جائے اور اس زبردست انفجار سے اس کے دو ٹکڑے دور تک چلے جائیں، اور پھر اپنے مرکز کی مقناطیسی وقت کے سبب سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ آ ملیں۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے بےوزن ہے کہ یہ واقعہ اچانک بس ایک لحظہ کے لیے پیش آیا تھا۔ ضروری نہیں تھا کہ اس خاص لمحے میں دنیا بھر کی نگاہیں چاند کی طرف لگی ہوئی ہوں۔ اس سے کوئی دھماکا نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف منعطف ہوتی۔ پہلے سے کوئی اطلاع اس کی نہ تھی کہ لوگ اس کے منتظر ہو کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوتے۔ پوری روئے زمین پر اسے دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا، بلکہ صرف عرب اور اس کے مشرقی جانب کے ممالک ہی میں اس وقت چاند نکلا ہوا تھا۔ تاریخ نگاری کا ذوق اور فن بھی اس وقت تک اتنا ترقی یافتہ نہ تھا کہ مشرقی ممالک میں جن لوگوں نے اسے دیکھا ہوتا وہ اسے ثبت کرلیتے اور کسی مؤرخ کے پاس یہ شہادتیں جمع ہوتیں اور وہ تاریخ کی کسی کتاب میں ان کو درج کرلیتا۔ تاہم مالابار کی تاریخوں میں یہ ذکر آیا ہے کہ اس رات وہاں کے ایک راجہ نے یہ منظر دیکھا تھا۔ رہیں علم نجوم کی کتابیں اور جنتریاں، تو ان میں اس کا ذکر آنا صرف اس حالت میں ضروری تھا جبکہ چاند کی رفتار، اور اس کی گردش کے راستے، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات میں اس سے کوئی فرق واقع ہوا ہوتا۔ یہ صورت چونکہ پیش نہیں آئی اس لیے قدیم زمانے کے اہل تنجیم کی توجہ اس کی طرف منعطف نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں رصد گاہیں اس حد تک ترقی یافتہ نہ تھیں کہ افلاک میں پیش آنے والے ہر واقعہ کا نوٹس لیتیں اور اس کو ریکارڈ پر محفوظ کرلیتیں ۔" 

( تفہیم القرآن : سید ابوالاعلی مودودی ِ  سورہ قمر آیت 1 )