مستشرقین کی قرآن مجید کے قصوں کے ۔ مآخذ کا کھوج لگانے کی ناکام کوشش |
مستشرقین مغرب نے قرآن مجید کے قصوں کے مآخذ کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے ، اوردعوی کیا ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) نے وحی کے بجائے دوسرے ذرائع سے نقل کر کے یہ قصہ بنا لیا اور پھر دعویٰ کر دیا کہ یہ تو میرے اوپر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے۔ وہ تین قصے تاریخ سے پیش کرتے ہیں : ایک داستان گلگامیش ، دوسرے سکندر نامۂ سرُیانی ، اور تیسرے وہ یہودی روایت جس کا تَلْمُود میں ذکر ہے ، مگر اس میں حضرت موسیٰؑ کے بجاۓ ربی یہوحانان بن لادی کی طرف منسوب ہے اور تلمود کا بیان یہ ہے کہ ربی مذکور کو یہ واقعہ حضرت الیاس کے ساتھ پیش آیا تھا جو دنیا سے زندہ اٹھاۓ جانے کے بعد فرشتوں میں شامل کر لیے گۓ ہیں اور دنیا کے انتظام پر مامور ہیں۔ (The Talmud Selections By H Polano, pp. 313 .16 )
مستشرقین کی غلطی یہ ہے کہ جو تحقیقات وہ قرآن کے بارے میں کرتے ہیں اس میں پہلے یہ طے کر لیتے ہیں کہ قرآن ایک انسانی کلام ہے یہ منزل من اللہ نہیں ہے ،اس غلط مقدمہ کی بنیاد پر وہ کوشش کرتے ہیں کہ جو کچھ محمدﷺ نے پیش کیا ہے یہ فلاں فلاں کتاب اور فلاں فلاں مقامات سے چراۓ ہوۓ مضامین اور معلومات ہیں۔ اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کر زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ، ایک معقول انسان کو گھن آنی لگتی ہے، اگر کوئی ان سے صرف چار سوالوں کا جواب طلب کرے تو ان کی اس متعصبانہ افترا پردازی کا پردہ بالکل چاک ہو جاۓ :
پہلا سوال : مستشرقین کے پاس وہ کیا دلیل ہے جس کی بنا پر قدیم کتابوں میں قرآن کے کسی بیان سے ملتا جلتا مضمون پا کر یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ قرآن کا بیان لازماً انہی کتابوں سے ماخوذ ہے ؟
دوسرا سوال : جن کتابوں کو مستشرقین قرآن مجید کے قصوں کی ماخذ قرار دیتے ہیں اگر ان کی فہرست بنائی جاۓ تو ایک کتب خانے کی فہرست بن جاۓ۔۔ کیا ایسا کوئی کتب خانہ مکے میں اس وقت موجود تھا ؟ اور ان مختلف زبانوں میں پائی جانے والی کتابوں کا ترجمہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے کون فراہم کر رہے تھے ؟ یا یہ دعوی کرنا کہ محمد ﷺ نے نبوت سے کئی سال پہلے عرب سے باہر گئے تھے تو ان تجارتی سفروں میں آپ ﷺ نے اس وقت ان کتب خانے سے نقل یا حفظ کر لائے تھے ؟ اس دعوی کی کیا دلیل ہے ؟
تیسرا سوال : یہ کہ کفار مکہ اور یہودی اور نصرانی، سب اس تلاش میں تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ مضامین کہاں سے لاتے ہیں۔ لیکن وہ اس میں ناکام رہے ہیں ۔ جبکہ قرآن میں تو بار بار تحدّی کی جا رہی تھی کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے ، وحی کے سوا اس کا کوئی ماخذ نہیں ہے ، اگر تم اسے بشر کا کلام کہتے ہو تو ثابت کرو کہ بشر ایسا کلام کہہ سکتا ہے۔ مگر وہ ایک ماخذ کی بھی نشان دہی نہ کر سکے ۔ سوال یہ ہے کہ جس کام میں ان کے معاصرین ناکام ہوگئے آج ہزار بارہ سو برس کے بعد مستشرقین کو اس میں کیسے کامیابی ہوئی ہے ؟
چوتھا سوال : کیوں صرف اسی ایک امکان کو بنائے بحث و تحقیق بنا لیا گیا کہ قرآن ان قصوں ہی سے ماخوذ ہے جو لوگوں کے پاس زبانی روایات اور افسانوں کی شکل میں موجود تھے ؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ قرآن منزّل من اللہ ہو اور وہ پچھلی تاریخ کے انہی واقعات کی صحیح خبریں دے رہا ہو جو دوسرے لوگوں تک صدیوں کے دوران میں زبانی روایات سے مسخ ہوتی ہوئی پہنچی ہوں اور افسانوں میں جگہ پا گئی ہوں۔ اس امکان کو خارج از بحث کرنے کی مستشرقین کے پاس کوئی معقول وجہ ہے ؟
یقینا ان سوالات پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ مستشرقین نے ’’ علم و تحقيق ‘‘ کے نام سے اسلام وقرآن کے بارے ميں جو کچھ پیش کیا ہے وہ در حقیقت کسی سنجیدہ محقق کے لیے قابل التفات نہیں ہے۔