قرآن مجید کےقصص کا اسلوب بہت ہی منفرد ہے۔ اکثر قصص کی مختلف کڑیوں کو مختلف مقامات میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن واقعات کی تمام کڑیاں، ہر مقام وموقع پر سیاق و سباق کے لحاظ سے بالکل ہم آہنگ ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان واقعات کی کڑیوں کا ایک خاص نظم ہے، مکی سورتوں میں اکثر وافعات مختصر اشاروں پر مشتمل ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ مدنی سورتوں میں ان اشاروں میں طوالت آتی جاتی ہے۔
قرآنی قصص کے اسلوب کی ایک خوب صورت مثال حضرت موسی ؑ کا قصہ ہے ، ان کا ذکر قرآن مجید میں تیس مقامات میں ملتا ہے ، اس کے درج ذیل مراحل ہیں :
سورہ اعلی مکی سورہ میں حضرت موسی ؑ کے صحیفہ کی طرف صرف مختصر اشارہ ہے وہاں حضرت ابراھیم ؑ کے صحیفہ کے ساتھ موسی کے صحیفہ کا بھی ذکر آیا ۔ بھیر سورہ نجم اور سورہ فجر جو مکی سورہ ہیں، دونوں میں عاد و ثمود کے ساتھ صرف فرعوں کا ذکر آیا ہے لیکن حضرت موسی کا ذکر نہیں آیا (الفجر : 13)، سورہ اعراف میں جو انتالیسویں سورہ ہے اس میں حضرت موسی کا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ ہے اس میں دیگر انبیاء کے بھی واقعات ہیں۔
اس میں دیگر انبیاء اور حضرت موسی کے واقعہ میں ایک قدر مشترک ہے وہ یہ کہ مکذبین پر ہمیشہ اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ واقعہ کا آغاز حضرت موسی اور ہارون کو نبی بناکر فرعون کے دربار میں جانے کے حکم سے ہوا ۔ پھر عصا اور ید بیضا کا ذکر ہے ۔ جادوگروں اور موسی کے باہمی جادوئی مقابلہ ، حضرت موسی کا غالب آنا پھر جادوگرں کا ایمان لانا ، پھر فرعون کا بنی اسرائیل پر عذاب مسلط کرنا ، پھر فرعونیوں کو ٹڈیوں ، کھٹملوں اور مینڈکوں کے عذاب میں مبتلا کرنا ، پھر فرعونیوں نے موسی سے فریاد کی ، لیکن عذاب ٹلنے کے بعد پھر بنی اسرائل کو ستانا ، پھر بنی اسرائیل کا مصر سے ھجرت کرنا ، اور بنی اسرائیل کا گمراہ ہونا ، تیس راتوں کے بعد حضرت موسی کی اللہ تعالی سے ملاقات کرنا ، پھر اللہ کی طرف سے دس راتوں کا اضافہ کرنا ، حضرت موسی کی دیدارالہی کی خواہش کرنا ، بہوش ہوجانا ، پہاڑ کا ریزہ ریزہ ہوجانا ، پھر ہوش میں آنا، جب قوم کی طرف واپس آنا اور قوم کا بچھڑے کو معبود بنانا ، پھر ہارون سے باز پر س کرنا ، پھر اللہ سے ہم کلامی کے لیے ستر آمیوں کو منتخب کرنا ، جب انہوں نے اللہ کی سرعام دیدار کا مطالبہ کیا تو ان پر پہاڑ مسلط کرنا ، پھر بارگاہ ربانی میں فریاد کرنا ، مرے ہوئے لوگوں کا زندہ ہونا ، اس واقعہ کا اختتام اس کلمہ پر ہوتا ہے کہ جوبھی نبی امی کی پیروی کریں گے اللہ کی رحمت ان کا مقدر ہوگی ۔
پھر سورہ فرقان سورہ نمبر 25، میں اور سورہ مریم سورہ نمبر 19 میں حضرت موسی کا ذکر آتا ہے ان دونوں سورتوں میں بھی دیگر ابیاء کے ساتھ مکذبین پرعذاب کا ذکر ہے ۔ اس کے بعد سورۂ طہ میں ایک تفصیلی کڑی ہے، سورہ اعراف میں واقعہ کا آغاز رسالت سے ہوا ، مگر سورہ طہ میں رسالت سے پہلے کا واقعہ کوہ طور میں آگ کے مشاہدہ کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ حضرت موسی کو جب فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا تو انہوں نے ہارون کو اپنا وزیر مقرر کرنے کی درخواست کی تھی، پھر بچپن کا واقعہ پھر والدہ کی طرف لوٹانے کا واقعہ بیان ہوا ، اس کے بعد وہی تفصیلات ہیں جو سورہ اعراف میں ہیں مگر اس میں فرعون پر جوعذاب آئے تھے ٹڈی دل، کھٹمل ، مینڈک کا ذکر نہیں ، اسی طرح فرعون کا بنی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے اور اس کوتوڑنے کا ذکر نہیں ہے ۔
پھر سورہ الشعراء میں واقعہ کا آغاز رسالت کی کڑی سے ہوا ، باقی سورہ بنی اسرائیل کے مطابق ہے مگر اس میں دوکڑیاں اضافہ ہیں ، ایک مصری کا قتل ، دوسری کڑی دریا کے پھٹ جانے کا واقعہ ، اس کے بعد سورۃ النمل میں دیگر انبیاء کے ساتھ موسی ؑ کا مختصر ذکر ہے ۔ سورۃ القصص جو نزول کے اعتبار سے 49 سورہ ہے اس میں قصہ کا آغاز موسی کی زندگی کی ابتدائی کڑی سے ہوا، جیسے فرعون کا بچوں کا قتل کرنا ، پھر موسی ؑ کو دریا میں ڈالنا ، پھر موسی ؑ قدرتی طور پر فرعون کے گھر پہنچنا اور موسی ؑ کی بہن کا واقعہ دودھ کے لیے ماں کی طرف رہنمائی کرنا شامل ہے ۔ پھر حضرت موسی ؑ جوان ہوتے ہیں ، ایک مصری کو قتل کرنا ، پھر دوسرے کے ساتھ چگھڑے کے دوران قتل کا راز فاش ہونا ، پھر حضرت موسی ؑ کا مدین کی طرف روانہ ہونا ، پھر مدین کا تفصیلی واقعہ ، حضرت شعیب سے ملاقات ، پھر ان کی بیٹی سے شادی ، ایک متعین مدت کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ مصرروانہ ہونا ، پھر راستے میں آگ کا مشاہدہ ، پھر آگے کا واقعہ اسی طرح ہے جس طر سورہ طہ میں ہے ۔
غر ض حضرت موسی کا قصہ جس کی کڑیاں قرآن میں سب سے زیادہ تکرار کے ساتھ آئی ہیں ان کڑیوں کا اگر ہم جائزہ لیں اس میں کوئی بھی کڑی بے معنی اور بے مقصد نہیں ہے بلکہ ہر دفعہ ہر مقام پر ایک نئی تعبیر اور نئی معنویت کے ساتھ پیش کئ گئی ہے۔
پھر سورہ فرقان سورہ نمبر 25، میں اور سورہ مریم سورہ نمبر 19 میں حضرت موسی کا ذکر آتا ہے ان دونوں سورتوں میں بھی دیگر ابیاء کے ساتھ مکذبین پرعذاب کا ذکر ہے ۔ اس کے بعد سورۂ طہ میں ایک تفصیلی کڑی ہے، سورہ اعراف میں واقعہ کا آغاز رسالت سے ہوا ، مگر سورہ طہ میں رسالت سے پہلے کا واقعہ کوہ طور میں آگ کے مشاہدہ کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ حضرت موسی کو جب فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا تو انہوں نے ہارون کو اپنا وزیر مقرر کرنے کی درخواست کی تھی، پھر بچپن کا واقعہ پھر والدہ کی طرف لوٹانے کا واقعہ بیان ہوا ، اس کے بعد وہی تفصیلات ہیں جو سورہ اعراف میں ہیں مگر اس میں فرعون پر جوعذاب آئے تھے ٹڈی دل، کھٹمل ، مینڈک کا ذکر نہیں ، اسی طرح فرعون کا بنی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے اور اس کوتوڑنے کا ذکر نہیں ہے ۔
پھر سورہ الشعراء میں واقعہ کا آغاز رسالت کی کڑی سے ہوا ، باقی سورہ بنی اسرائیل کے مطابق ہے مگر اس میں دوکڑیاں اضافہ ہیں ، ایک مصری کا قتل ، دوسری کڑی دریا کے پھٹ جانے کا واقعہ ، اس کے بعد سورۃ النمل میں دیگر انبیاء کے ساتھ موسی ؑ کا مختصر ذکر ہے ۔ سورۃ القصص جو نزول کے اعتبار سے 49 سورہ ہے اس میں قصہ کا آغاز موسی کی زندگی کی ابتدائی کڑی سے ہوا، جیسے فرعون کا بچوں کا قتل کرنا ، پھر موسی ؑ کو دریا میں ڈالنا ، پھر موسی ؑ قدرتی طور پر فرعون کے گھر پہنچنا اور موسی ؑ کی بہن کا واقعہ دودھ کے لیے ماں کی طرف رہنمائی کرنا شامل ہے ۔ پھر حضرت موسی ؑ جوان ہوتے ہیں ، ایک مصری کو قتل کرنا ، پھر دوسرے کے ساتھ چگھڑے کے دوران قتل کا راز فاش ہونا ، پھر حضرت موسی ؑ کا مدین کی طرف روانہ ہونا ، پھر مدین کا تفصیلی واقعہ ، حضرت شعیب سے ملاقات ، پھر ان کی بیٹی سے شادی ، ایک متعین مدت کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ مصرروانہ ہونا ، پھر راستے میں آگ کا مشاہدہ ، پھر آگے کا واقعہ اسی طرح ہے جس طر سورہ طہ میں ہے ۔
غر ض حضرت موسی کا قصہ جس کی کڑیاں قرآن میں سب سے زیادہ تکرار کے ساتھ آئی ہیں ان کڑیوں کا اگر ہم جائزہ لیں اس میں کوئی بھی کڑی بے معنی اور بے مقصد نہیں ہے بلکہ ہر دفعہ ہر مقام پر ایک نئی تعبیر اور نئی معنویت کے ساتھ پیش کئ گئی ہے۔
اسی طرح قرآن میں جو واقعہ جہاں بیان ہوا اس کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے وہ مقصد صرف دین کے پیغام کی وضاحت ہے ۔ اس لیے قرآن میں امثال حکم ، تشبہات اور استعارات اس طرح دیگر جتنے بھی اسالیب ہیں ان کا مقصد صرف دینی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سورتوں میں قصہ کی وہی کڑی بیان ہوئی جس کی سیاق و سباق میں ضرورت تھی اور جس میں کوئی سبق، عبرت و موعظت پوشیدہ ہے۔
جیسے حضرت موسی ؑ اور حضرت مریم اسی طرح حضرت اسماعیل، اسحاق یحی اور آدم اور حواء سب کی پیدائش کا ذکرمختلف سورتوں میں ہے، ان سب کی پیدائش کے ذکر میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان سب کی ولادت اللہ کے خاص حکم سے معجزانہ طور پر ہوئی ہے۔ جس سیاق و سباق میں ان کا ذکر آیا وہاں اللہ تعالی نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی قدرت سے نامکن کو ممکن بنا سکتا ہے ۔
اسی طرح بعض انبیاء جیسے حضرت نوح ؑ ، حضرت ھود ؑ، حضرت لوط ؑ اور حضرت شعیب ؑ کی زندگی کا آخری حصہ قرآن میں بیان ہوا ہے، کیونکہ قرآن نے جہان ان کے واقعات کا ذکر کیا وہ صرف ان کی زندگی کے آخری حصے سے متعلق تھے۔ اس لئے ان کے بارے میں ان کی زندگی کی باقی تفصیلات نہیں ہیں۔