نِعمَ العَبدُ! حضرت ایوب علیہ السلام - ابوالبشر احمد طیب

نعم العبد ! ، حضرت ایوب ؑ

اسلامی اور اسرائیلی روایات میں حضرت ایوب ؑ کا قصہ ، بہت معروف و مشہور ہے یہاں تک کہ "صبر ایوب" ایک محاورہ بن گیا ہے ، لیکن اس قصہ پر اسرائیلی روایات کی کچھ ایسی تہہ جم گئی ہے کہ اصل حقیقت خرافات کے پردہ میں چھپ گئی ہے ۔ بائیبل میں ایک صحیفہ، سفر ایّوب ؑ کے نام سے شامل ہے ، محققین کا خیال ہے کہ یہ اصلا قدیم عربی میں لکھی گئی تھی ، حضرت موسی ؑ نے اس کو عربی سے عبرانی میں منتقل کیا ہے ۔ تورات میں سب سے قدیم صحیفہ ،سفر ایوب ہے ، اس اعتبار سے حضرت ایوب ؑ کا زمانہ موسی ؑ سے بہت پہلے تھا ۔ یہ صحیفہ حکمت کے بہت سے جواہر اپنے اندر رکھنے کے باوجود یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اس صحیفہ کا تعلق براہ راست حضرت ایوب ؑ سے ہے یا نہیں ۔ اور اس لیے بھی کہ قرآن میں اور خود اس صحیفہ کی ابتدا میں حضرت ایّوب ؑ کے جس صبرِ عظیم کی تعریف کی گئی ہے ، اس کے بالکل برعکس ساری کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت ایّوب ؑ اپنی مصیبت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کے خلاف سراپا شکایت بنے ہوئے تھے، حتٰی کہ ان کے ہمنشین انہیں یقین دلانے کی کوشش کرتے رہےکہ خدا ظالم نہیں ہے، مگر وہ کسی طرح ان کی باتوں سے مطمئن نہیں ہوئے ۔

حضرت ایوب ؑ کی نسب ، قوم ، زمانہ کے متعلق بہت شدید اختلافات ہیں، بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے آپ فرزندان یعقوب ؑ کے ہمعصر ہیں، جدید تحقیق میں بعض ان کو مصری اور بعض عرب اور بعض اسرائیلی قرار دیتے ہیں، کوئی ان کو موسی ؑ سے پہلے اور کوئی داؤد ؑاور سلیمانؑ کے زمانہ کا قرار دیتا ہے ۔ اور کوئی ان سے بھی متاخر ۔ ایک روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زوجہ، حضرت یوسف ؑ کےفرزند ابفرائین کی لخت جگر تھی جو بڑی حسین و جمیل اور صحت مند تھیں ، یہ بھی روایت ہے کہ حضرت ایوب ؑ کی بیماری کے دوران ، ان کی باوفا بیوی کے سوا گھر کے بیشتر افراد ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے ۔ کچھ روایات میں ذکر ہے کہ آپ حضرت یعقوب ؑ کے بڑے بھائی عیسو کی اولاد میں سے تھے ، عیسو فلسطین سے حضرت اسماعیل ؑ کے پاس آگئےتھے ، وہاں پر اسماعیل ؑ کی صاحبزادی سے شادی کی ہے ، عیسوکا نام عرف عام میں ادوم تھا، اس لیے ان کے خاندان اور علاقہ کا نام ادوم پڑگیا ، چند صدیوں کے بعد یہ ایک عظیم قوم بن گئی ، ادوم کی ایک نسل کانام عوض تھا ، حضرت ایوب ؑ کا تعلق اسی نسل سے تھا ، جدید تحقیق کے مطابق آپ کا علاقہ عرب کے شمال و مغرب میں فلسطین کی مشرقی سرحد کے قریب تھا ۔ اس لیے بعض علماء نے ان کو عرب قرار دیا ، آپ کا زمانہ معین نہ ہوسکا ، بعض کا خیال ہے کہ آپ کا ز مانہ ایک ہزار قبل مسیح اور سات سو قبل مسیح کے درمیان ہے ۔

دراصل ان سب محققین کے قیاسات کی بنیاد سفر ایوب پر ہے ، جو موجودہ بائیبل کا حصہ ہے ، اسی کی روشنی میں یہ مختلف رائیں قائم کی گئی ہیں ۔ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی تاریخی شہادت نہیں ہے ۔ خود سفر ایوب کا یہ حال کہ ا س کے خود اپنے مضامین میں تضاد ہے ۔ چند باتوں کے علاوہ اس کااکثر بیان قرآن مجید کے بیان سے مختلف ہے۔ اسلامی لٹریچر میں جوروایتیں اس سلسلے میں مشہور ہیں وہ بھی محدثین کے نزدیک مستند نہیں ہیں ۔ 

حضرت ایوب ؑ کے بارے میں قرآن مجید نے صرف اتنا بتایا کہ انہیں کوئی سخت بیماری لا حق ہوگئی تھی لیکن انہوں نے صبر و ضبط سے کام لیا ، اور اللہ تعالی کو پکار تے رہے ، یہاں تک اللہ نے ان کو ایک چشمہ کے پانی سے شفا عطا فرمائی ، وہ بیماری کیا تھی ؟ اس کی تشریح قرآن نے بیان نہیں کی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک قسم اٹھائی تھی لیکن قرآن میں کوئی صراحت نہیں کہ وہ کس بات پر اٹھائی تھی اور صرف یہ ذکر ہے کہ ان کو اللہ نے قسم نہ توڑنے کا ایک آسان حل بتایا ۔ چنانچہ آزمائش کا دور ختم ہونے پر ان کی حالت بہتر ہوگئی ، اللہ نے پہلے کی نسبت زیادہ دولت عنایت کی ، ان کے اہل و عیال میں اضافہ فرمایا ۔ 

صحیفہ ایوب ؑکے چند اہم مندرجات یوں ہیں کہ حضرت ایوب ؑ ایک راست باز ، امیر کبیر انسان تھے ۔ اللہ نے انہیں بڑا خاندان اور بڑی مال و دولت دی رکھی تھی ۔ ان کے سات بیٹے ، اور تین بیٹیاں تھیں ، سات ہزار بھیڑیں ، تین ہزار اونٹ ، ایک ہزار بیل ، اور پانچ سو باربرداری گدھے تھے ۔ ان کے نوکر چاکر بیشمار تھے ، اوراس زمانہ کے اہل مشرق میں اس درجہ مال دار کوئی نہ تھا ۔ اس دولت و شوکت کے باجود وہ اللہ کے شکر گزار تھے ، اور ہمیشہ بدی سے دور رہتے تھے ۔ اس پر شیطان اور اس کے چیلوں کو حسد ہوا ، پھر بیک وقت ساری مصیبتیں ان پر آن پڑیں ۔ ان کے مویشی لوٹ لیے گئے ، نوکر چاکر قتل ہوگئے ، اولاد مرگئی ، جاہ وحشم نابود ہوگیا ، اور زندگی کی خوشحالیوں میں سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہی ، پھر بربادیوں کے یہ تمام زخم ایک ایک کر کے نہیں لگے بلکہ بیک وقت لگے اور اچانک دنیا کچھ سے کچھ ہوگئی۔ لیکن عین اس حالت میں بھی ان کی زبان سے کلمہ صبر و شکر کے سوا اور کچھ نہیں نکلا ، وہ سجدے میں گرپڑے ، اور اللہ کے حضور دعا کی ۔ 

سب کچھ جا چکاتھا ، صرف جسم کی تندرستی باقی تھی اب اس نے بھی جواب دے دیا ، اور ان کے پاؤں کے تلوے سے لے سر تک سارے جسم میں جلتے ہوئے پھوڑے نکل آئے ، وہ ایک ٹھیکرا لے کر اپنا جسم کھجاتے اور راکھ پر بیٹھے رہتے۔ لیکن اس پر بھی ان کی زبان ایک لمحہ کے لیے بھی شکوہ و شکایت سے آلودہ نہ ہوئی ، اب درد و مصیبت کی یہ حالت برابر بڑھتی ہی جاتی ہے، لیکن جوں جوں بڑھتی جاتی ہے یقین، صبر اور زبان کا زمزمہ شکر بھی بڑھتا جا تا ہے ، چنانچہ تمام صحیفہ ایوب انہیں دلنشین مواعظ کا مجموعہ ہے ، جو ان کے درد و غم کی آہوں اور کرب و اذیت کی صداؤں سے پر ہے ، ان کی ہر آہ ، حمد و ثنا کا نغمہ تھی اور ہر پکار صبر و شکر کی تلقین ۔ بالآخر ان کے تین دوست مصیبت کا حال سن ان کے پاس آتے ہیں اور اللہ کے کاموں اورحکمتوں پر ان سے رد وکد کرتے ہیں ، پھر اللہ کی وحی انہیں مخاطب کرتی ہے اس طرح ان کی آزمائش کا دور ختم ہوجاتا ہے ، ان کی حالت بدل جاتی ہے اللہ نے ان کو پہلے کی نسبت دو چند دولت عنایت کی ، ان کے اہل و عیال اور تمام اعزہ و اقربا کو ان کے گرد جمع کردیا ، ان کو آخری عمر میں پہلے کی طرح اولاد ملی ، وہ ایک سو چالیس سال تک جیئے، او ر اپنی نسل کی چار نشأتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔ 

قرآن مجید میں حضرت ایوب ؑ کا واقعہ بہت مختصر شکل میں ہے ، صرف ان کی دعا اور قبولیت دعا کا ذکر ہے ،قرآن مجید نے صحیفہ ایوب میں موجود صبر و شکر کی یہ ساری داستان صرف چند جملوں میں بیان کردی ہے ،اس کا ایجاز بلاغت اتنا ہی مؤثر ہے جتنا صحیفہ ایوب کے پچاس صفحوں کا طویل شاعرانہ کلام ہے ۔ قرآن کا ہر جملہ اپنی جگہ ایک پورا باب ہے ، قرآن اس مختصر قصہ میں ایوب ؑ کو اس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبر وشکر کی مجسم تصویر نظر آتے ہیں ، بیشک اصل حقیقت وہ ہے جس کی طرف قرآن میں اشارہ ہے ۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے انبیاء کےساتھ حضرت ایوب ؑ کا بھی ایک ساتھ ذکر آیا ہے قرآن کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے دیگر انبیاء کی طرح ان کو بھی اللہ تعالی نے علم و حکمت سے نوازا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک اسرائیلی پیغمبر تھے جو غالبا نویں صدی قبل مسیح میں کسی وقت بنی اسرائیل کے نبی بنے ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے ایک نیک بندہ ، اور اللہ کی طرف رجوع کرنےوالے تھے اور اللہ کی طرف سے جو آزمائشیں ان پر آئیں انہوں نے ان پر خوب صبر کیا ۔ سب سے پہلے ان کی مال و دولت ختم ہوگئی ، پھر صحت چلی گئی ، یہاں تک کہ اہل و عیال بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ مگر حضر ت ایوب ؑ کو اللہ پر کامل بھروسہ و یقین تھا ، وہ اس کی رحمت سے کسی حال میں بھی مایوس نہیں ہوئے ۔ دوسری طرف قرآن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ شیطان ان کے اور اعزہ و اقربا کے دلوں میں مسلسل وسوسہ ڈالتا رہا ، جب ایوب ؑ ان کی باتیں سنتے تو ان کو اپنی جسمانی تکلیف سے زیادہ شیطانی وسوسہ سے اذیت ہوتی تھی ، اس طرح ایک مرتبہ کسی بات پر خود سے غضبناک ہوکر انہوں نے قسم اٹھائی کہ اگر وہ صحت یاب ہوگئے تو خود کو کوڑے لگائیں گے ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ قسم ان کی بیوی کےلیے اٹھائی تھی ، لیکن قرآن میں اس کی کوئی صراحت نہیں ہے ۔ 

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی آزمائش کے کئی انداز ہیں ، کبھی وہ انعامات و احسانات کا مینہ برساکر آزماتا ہے ، اور کبھی آلام و مصائب میں مبتلا کر کے امتحان لیتا ہے ، حضرت ایوب ؑ ان انبیاء میں سے ہیں جنہیں سخت آزمائشوں میں ڈالاگیا ، حضرت ایوب ؑ کو جان و مال کے نقصان کے ساتھ آزمایا گیا ۔ بطور آزمائش اللہ تعالی نے ان سے سب نعمتیں چھین لیں ، حتی کہ جسمانی صحت بھی خراب ہوگئی ۔ اس کے باوجود انہوں نے صبرو شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ، اس کے صلہ میں اللہ تعالی نے انہیں دوبارہ مال و دولت اور اولاد سے خوب نوازا ،  رب العالمین نے حضرت ایوب ؑ کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : 

اِنَّا وَجَدۡنٰہُ صَابِرًا ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿ ص : ۴۴ ﴾ 

ہم نے اسے صابر پایا، کیاہی خوب بندہ تھا ! بیشک وہ اپنے پرور دگا ر کی طرف بڑاہی رجوع کرنے والا تھا ۔
 یہی اللہ کی سنت ہے ۔ 

قرآن کریم میں کئی مقامات میں اللہ تعالی نے انساوں کی آزمائش کا ذکر فرمایا ، مثلا ایک جگہ  ارشاد فرمایا  ہے: 

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ، الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ، اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ ( البقرۃ : 155- 157 ) 

اور ہم ضرور تمہیں خوف وخطر ، فاقہ کشی ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے ، تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جا نا ہے انھیں خوشخبری دے دو ۔ ان پر ان کے ر ب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔