اسلامی عقائد کے باب میں مسلم فلاسفہ اور متکلمین کی غلطی - ابوالبشر احمد طیب

اسلامی عقائد کے باب میں مسلم فلاسفہ اور متکلمین کی غلطی 
فلسفہ یونان کا اصل موضوع ، ان کے غور و فکر کا اصل میدان طبیعات اور ریاضیات ہے۔ لیکن جس میدان میں ان کو ٹھوکر لگی وہ عقائد یا الہیات ہے۔ لیکن ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو آج بھی عقائد کے مسائل میں ان کو قرآن وحدیث کے مقابل لاتے ہیں ۔ حالانکہ جن غیبی حقائق کی انبیاء علیہ السلام نے خبر دی ان سے یونانی فلاسفر بالکل ناآشنا تھے ۔ 


انسان محدود عقل اور مشاہدات سے ان موجودات کا مشاہدہ کسیے کرسکتا ہے جن تک اس کی رسائی نہیں ہے ۔ ان کا حال تو ایسا تھا جیسے قرآن نے بیان کیا" بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ (یونس : 39) 


انھوں نے ان چیزوں کو جھٹلا دیا جن کا ان کو پورا علم حاصل نہیں تھا حالانکہ ابھی تک ان پر ان کی پوری حقیقت واضح نہیں ہوئی۔اسی طرح ان سے پہلے والوں نے کیا ۔ 

اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں ایمان لا نے حکم تھا اس لئے یہ کسی علمی موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کا مسئلہ نہیں تھا ، اس بارے میں انسانی کا ذریعہ علم صرف انبیاء کرام کی اطلاع اور وحی الہی ہے ۔ اسی سے ہی اللہ کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے ۔ مسلمانوں کے پاس عقائد کی تفصیلات معلوم کرنے کےلئے قرآن و حدیث کی صورت میں سب سے محکم بنیاد موجود ہے ۔ اس باب میں ان کو یونانی فلسفہ کی ذہنی موشگافیوں کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔ صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ کرام ، اور محدثین اسی مسلک پر قائم تھے۔


عباسی دور میں یونان کا جو فلسفہ ترجمہ ہوکر عالم اسلام میں منتقل ہوا، پھر اس کے ذریعے پورپ تک پہنچا ، وہ اپنے قدیم مشرکانہ اعتقادات و تصورات کے ساتھ منطق کی ثقیل فرضی اصطلاحات میں منتقل ہواتھا۔ مسلم فلاسفر اور مترجمین ابتدا میں اس حقیقت سے واقف نہیں تھے۔ پہلی دفعہ دو ٹوک انداز میں امام غزالی اور ابن تیمیہ نے اس نکتہ کو فاش کیا، یونان کے فلسفہ الہیات اور علم الاصنام کے اصل راز سے بردہ اٹھایا ۔



عالم اسلام میں جس فلسفہ یونان کی سرپرستی فارابی،بو علی سینا، ابن رشد اورابوالفتوح شہاب الدین سہروردی مقتول وغیرہ کررہے تھے۔ یہ تمام تر ارسطو سے منقول ہے ۔ جس کو وہ معلم اول کے نام سے یاد کرتے تھے ۔خاص کر عقائد کےباب میں یہ سب ارسطو کے مقلد ہیں، اس لئے عقائد کے مباحث میں ان سے فاش غلطیاں ہوئیں ۔انھوں نے ارسطو کے اتباع میں اسلامی عقائد کی تشریح کی اور اسی کی مدد سے عقائد کے مسائل کو سمجھانا چاہا ۔ پھر جہاں ان کو اپنے خیالات ، قرآن اور نبیﷺ کے فرمودات سے متصادم نظر آئے وہاں تایل کرکے دونوں میں تطبیق کی کوشش کی۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ الفاظ تو قرآن و حدیث رسول ﷺ کے ہوتے اور تشریح اپنے اصول کے مطابق کرتے تھے۔ گویا اپنے مفاہیم اور معانی کو قرآن و حدیث کے الفاظ اور اسلوب میں ادا کرتے تھے ۔جو لوگ ان کے خیالات کا مطالعہ کرتے تھے وہ ان دونوں میں فرق نہیں کرسکتے تھے ان کو گویا قرآن و حدیث اور ان کی مراد ایک ہی معلو م ہوتی تھی ، جو ان مذکورہ فلسفیوں کی کتابوں کا بغور مطالعہ کرے گا ان کو یہ بات صاف نظر آئے گی۔ 


یہ حقیقت ہے کہ متکلمین نے اسلام کا دفاع فلسفہ یونان اور منطق کے ہتھیاروں سے کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے لیے انھوں نے عقائد کے مسائل کی تشریح اور تفہیم میں فلسفہ کے طرز استدلال ، مقدمات اور اصطلاحات کو اختیار کیا ۔ لیکن اس کی اصل خامیوں کا ان کو علم نہیں تھا ۔ امام رازی ؒ نے آخر عمر میں اعتراف کیا کہ" میں نے کلامی طریقوں اور فلسفیانہ مناہج پر بہت غور کیا آخرمیں اس نتیجہ پر پہونچا کہ ان سے نہ کسی بیماری کی شفا ہوتی ہے نہ کسی پیاسے کی پیاس بجھتی ہے۔ میں سب سے قریب تر راستہ قرآن کے راستہ کو پایا ، نفی میں ذرا اس آیت کو پڑھو " لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ (الشوری : 11) " وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا (طہ : 110)" 
اور اثبات میں ان آیات کو پیش نظر رکھو" الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ (طہ: 5) " إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ " ( فاطر : 10) أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ ( الملک : 16) آخرمیں کہتےہیں کہ جو میری طرح تجربہ کرے گا ، وہ میری ہی طرح اس نتیجہ پر پہچے گا ۔ (النبوات ص 118، امام ابن تیمیہ )


عقائد کے باب میں مسلم فلاسفر اور متکلمین دونوں نے ایک ہی طرز کی غلطی کی ہے ان دونوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے عقل و قیاس سے اس چیز کو حاصل کرنا چاہا جو عقلی اور قیاسی استدلال سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔ انھوں نے خدا کی ذات وصفا ت و رسالت پربے کار زور آزمائی کی ۔


اصل غیبی حقائق کی توضیح و تشریح کے لیے قرآن کا اسلوب اور طرز استدلال کافی ہے۔ عقائد کے باب میں قرآن مجید جن دلائل سے انسان کو مخاطب بنا تا ہے ان سے بڑھ کر کوئی اور دلیل نہیں ہو سکتی۔ اس حوالے سے قرآن کےمطالعہ سے واضح ہے کہ جہاں صفات باری تعالی کے اثبات کا ذکر ہے وہاں کلام مفصل ہے اور جہاں نفی ہے وہاں کلام مجمل ہے ۔ جبکہ فلاسفر اور متکلمین کا سارا زور ذات باری تعالی کی نفئی صفات پر ہے ۔ اس طرح انھون نے چندفرضی اصطلاحات کے ذریعے خدا کو ایک ذہنی وجود بنادیا گویا وہ ایک مجبور اور مفلوج ہستی ہے۔ جس کو واجب الوجود ، مبدا اول اور اسی طرح کی دیگر اصطلاحات سے متعین کرتے ہیں ۔


لیکن خدا کیا ہے ؟ اور کیسا ہے ؟ اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں ملتی ۔ اس لیے عام روز مرہ کی زندگی کے معاملات میں فلاسفروں کو خدا سے کوئی حقیقی اور بامعنی تعلق نہیں رہا ۔ ان کا خدا سے تعلق محض ذہنی تھا۔ ان کی عملی زندگی پر خدائی افعال کا کوئی اثر نہ تھا ۔ لیکن اس کے مقابل قرآن میں سب سے زیادہ صفات باری تعالی کے اثبات پر مکمل تفصیل ملتی ہے ۔ اور خدا کی ذات و صفات پر ایمان کو احکام الہی پر عمل کے ساتھ مشروط کردیا ہے ۔ 


اکثر مسلم فلاسفر اور متکلمین جنہوں نے عقائد کے متعلق اپنی تاویل پیش کی ہے وہ سب کے سب یونانی علم الاصنام اور منطق کی روشنی میں کی ہے اس کا قرآنی استدلال اور طرز بیان سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کوئی تعلق ہے تو بہت شاذ و نادر ۔


اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انسانی عقل و علم، غیبی حقائق کا احاطہ اور ادراک کرنے سےقاصر ہے ۔ اس بارے میں علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے:-


" عقل ایک صحیح ترازو ہے، اس کےفیصلے یقینی ہیں، جن میں کوئی جھوٹ نہیں، لیکن تم اس ترازو میں امور توحید، امورآخرت، نبوت، صفاتِ الہٰی اور وہ تمام امور و حقائق جو ماوراء عقل ہیں تول نہیں سکتے، یہ لاحاصل کوشش ہوگی، اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے ایک ترازو دیکھی جو سونے کا وزن کرنے کے لئے ہے، اس کو اس ترازو میں پہاڑوں کے تولنے کا شوق پیدا ہوا، جو ناممکن ہے، اس سے ترازو کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا، لیکن اس کی گنجائش کی ایک حد ہے،اس طرح عقل کےعمل کا بھی ایک دائرہ ہے، جس سے باہر وہ قدم نہیں نکال سکتی، وہ اللہ اور اس کےصفات کااحاطہ نہیں کرسکتی، اس لئے کہ وہ اس کے وجود کا ایک ذرہ ہے۔" (مقدمہ ابن خلدون ص۴۷۳ بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت جلد دوم ص 254) 


یونانی فلسفہ اور منطق کا تعلق علوم عقلیہ سے ہے کیونکہ ان کی بنیاد ہی عقل پر ہے وحی پر نہیں ۔ اس لئے ہر دور میں اہل عقل نے اس پر ناقدانہ نظر ڈالی۔ جو چیز خلاف عقل تھی اس کو رد کیا ۔ ان میں امام غزالی ؒ اور ابن تیمیہ ؒ کے نام سر فہرست ہے ۔ جب بھی معقولات نے منقولات میں دخل دیا تو علماء اسلام نے سخت تنقید کی۔ امام احمد ابن حنبل ؒ نے مسئلہ خلق قرآن جو ایک فلسفیانہ بحث تھا قبول نہیں کیا ۔ بالآخر یہی مسئلہ خلق قرآن مذہب اعتزال کے زوال کا سبب بنا۔ 



جو ں جوں مسلمانوں میں علمی و فکری زوال آیا وہ لکیرکے فقیر بن کر قدیم فلسفہ کی کتابوں کے ناقل اور شارح بن گئے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ متاخرین کی بڑی سے بڑی پرواز یہ تھی کہ متقدمین کی کسی کتاب کی شرح کردیں ۔ جبکہ اسی دور میں پورپ نے فلسفہ یونان ومنطق جو مسلمانوں سے حاصل کیا تھا غور و فکر کے بعد منطق استقراء پر قناعت کرلی ۔ مابعد الطبعیات کے بجائے صرف طبعیات پر زور دیا۔ اس سے پوری دنیا میں ایک نیا فکری انقلاب کا آغاز ہوا۔


اس کے برعکس ہمارے دینی حلقوں میں یونانیوں کے قدیم فلسفہ الہیات اور منطق کے استخراجی مباحث کو ہی سدرۃ المنتہی سمجھا جاتا ہے ۔ اس سے نہ ہمارے دینی عقائد کے مسائل حل ہوئے نہ دنیا کے ۔ ان کا عمل گویا "کوہ کندن و کاہ بر آوردن" کا سا ہے ۔