ترجمہ:
اور ہم نے جس بستی میں بھی کوئی رسول بھیجا، اس کے باشندوں کو مالی اور جسمانی مصائب سے آزمایا کہ وہ رجوع کریں۔پھر ہم نے دکھ کو سکھ سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ دکھ اور سکھ تو ہمارے باپ دادوں کو بھی پہنچے ہیں۔ پھر ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ اس کا کوئی گمان نہیں رکھتے تھے۔اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انھوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کی کرتوتوں کی پاداش میں ان کو پکڑ لیا۔تو کیا بستیوں والے نچنت ( بے خوف) رہ سکے اس بات سے کہ آ دھمکے ان پر ہمارا عذاب راتوں رات اور وہ سوئے پڑے ہوں۔ اور کیا بستیوں والے نچنت رہ سکے اس بات سے کہ ان پر آ دھمکے ہمارا عذاب دن دہاڑے اور وہ کھیل کود میں ہوں۔ تو کیا وہ اللہ کی تدبیر سے بچ سکے۔ تو یاد رکھو کہ خدا کی تدبیر سے وہی لوگ نچنت ہوتے ہیں جو نامراد ہونے والے ہوں۔کیا سبق نہیں ملا ان کو جو ملک کے وارث بنے ہیں اس کے اگلے باشندوں کے بعد کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ابھی آ پکڑیں اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیں تو وہ سننے سمجھنے سے رہ جائیں۔ یہ بستیاں ہیں جن کی سرگزشتوں کا کچھ حصہ ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ ایمان لانے والے نہ بنے بوجہ اس کے کہ وہ پہلے سے جھٹلاتے رہے تھے۔ اسی طرح اللہ ٹھپہ لگا دیا کرتا ہے کافروں کے دلوں پر۔اور ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد کی استواری نہیں پائی۔ ان میں سے اکثر بدعہد ہی نکلے۔ ( سورۃ الاعراف : 94-102)
---------
------تفسیر :
’بَاسَاء‘ اور ’ضَرَّآء‘ کا مفہوم: ’بَاسَاء‘ اور ’ضَرَّآء‘ کی تحقیق ۴۲۔ انعام کے تحت بیان ہو چکی ہے۔ یہ دونوں لفظ، جب ایک دوسرے کے بالمقابل استعمال ہوتے ہیں تو پہلے سے مالی آفتیں مراد ہوتی ہیں۔ مثلاً قحط، گرانی، کساد بازاری وغیرہ اور دوسرے سے جسمانی آفتیں مثلاً بیماریاں اور وبائیں وغیرہ۔ لیکن جب ’ضَرَّآء‘ کا لفظ ’سرَّاء‘ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو یہ دونوں الفاظ ہر قسم کی بدحالی و خوش حالی کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں۔ ’عَفَا الشَّیْء‘ ’کَثُرَ وطَالَ‘۔ فلاں چیز خوب بڑھی، خوب اُپجی۔ ’عفت الارض، غطاما النبات‘ زمین سبزہ اور نباتات سے ڈھک گئی۔
یہ اس سنت الٰہی کا بیان ہے جو انبیاء کی بعثت کے ساتھ لازماً ظاہر ہوتی ہے اور ان تمام انبیاء کے زمانوں میں ظاہر ہوئی جن کی سرگزشتیں اوپر بیان ہوئیں۔ وہ سنت یہ ہے کہ جب نبی توبہ و استغفار اور جزا و سزا کی منادی شروع کرتا ہے تو اس کے محرکات و مویدات اس کائنات میں بھی ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔ ایک طرف پیغمبر لوگوں کو غفلت و خدا فراموشی کے انجام، فساد فی الارض کے نتائج اور دنیا اور آخرت میں خدا کی پکڑ سے ڈراتا ہے، دوسری طرف اللہ تعالیٰ لوگوں کو سیلاب، قحط، وبا، طوفان کی آزمائشوں میں بھی مبتلا کرتا ہے تاکہ لوگ آنکھوں سے بھی، اگر ان کے پاس دیدۂ عبرت نگاہ ہو، دیکھیں کہ اس طرح اللہ جب چاہے اور جہاں سے چاہے ان کو پکڑ سکتا ہے اور پھر خدا کے سوا کوئی ان کو بچانے والا نہیں بن سکتا۔ اس طرح گویا دعوت کے ساتھ واقعات کی تائید اور عقل و فطرت کی شہادت کے ساتھ مشاہدہ کی اثرانگیزی بھی جمع ہو جاتی ہے۔ نبی جو کچھ کہتا ہے، آسمان و زمین دونوں مل کر اپنے اسٹیج پر گویا اس کے مناظر دکھا بھی دیتے ہیں تاکہ جن کے اندر اثرپزیری کی کچھ بھی رمق ہو وہ خدا کے آگے جھکیں اور توبہ و اصلاح کریں۔
آزمائش کی ایک اور کروٹ:
جن کے پاس دیکھنے والی آنکھیں اور اثر قبول کرنے والے دل ہوتے ہیں وہ ان آزمائشوں سے فائدہ اٹھاتے اور خدا کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ ان کو گویا نبی کی دعوت کی بازگشت تمام عناصر کائنات سے سنائی دیتی ہے اور وہ صرف کانوں سے سنتے ہی نہیں بلکہ آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں لیکن جن کے دل پتھر اور کان بہرے ہو چکتے ہیں ان کے لیے یہ سنت الٰہی ایک دوسری شکل اختیار کر لیتی ہے۔ وہ یہ کہ پھر اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دے دیتا ہے۔ بدحالی کی جگہ خوش حالی آ جاتی ہے، دنیوی اسباب و وسائل کے ہر گوشے میں ترقی و فراخی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، آزمائشوں اور تکلیفوں کے دن ذہنوں سے نکل جاتے ہیں۔ پھر سرکش لوگ چہکنا اور نبی اور اس کے ساتھیوں کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) یہ عقل کے کوتاہ لوگ، پچھلے قحط یا گزشتہ سیلاب یا فلاں آفت کو ہمارے اعمال و عقاید کی خرابی پر خدا کی تنبیہ سمجھتے تھے اور اپنے وعظوں میں طرح طرح سے ہم کو ڈراتے اور پست ہمت کرتے رہے۔ حالانکہ ان باتوں کو ایمان و اخلاق سے کیا تعلق؟ اس قسم کی گردشیں قوموں کی زندگی میں آیا ہی کرتی ہیں۔ ایسے دن کچھ ہمارے ہی اوپر تو نہیں گزرے ہیں۔ ہمارے باپ دادوں پر بھی گزرے ہیں جو بڑے اچھے اور نیک نہاد لوگ تھے۔ یہ تو زمانے کے اتفاقات ہیں۔ کبھی تنگی ہے کبھی فراخی، کبھی فصل اچھی ہوئی، کبھی ماری گئی، کبھی سیلاب آ گیا، کبھی قحط پڑ گیا، ان چیزوں کو اعمال و اخلاق سے باندھ دینا محض خردباختگی اور وہمی پن ہے۔
جس طرح آفات و مصائب کے ظہور کا مقصد لوگوں کو جھنجھوڑنا اور بیدار کرنا بتایا گیا ہے (لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَ) اسی طرح اس امہال اور ڈھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ان تنبیہات سے نہیں جاگے ہیں وہ بدمست ہو کر گہری نیند سو جائیں تاکہ خدا کا عذاب ان کو ایسی حالت میں دبوچے کہ ان کو خبر نہ ہو کہ کب آیا اور کہاں سے آیا۔ ’فَاَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً وَّھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ‘۔
نیک و بد کے لیے مشترک تنبیہی آفتیں:
یہ بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ جو آزمائشیں اور آفتیں لوگوں کے اندر توجہ الی اللہ یا قرآن کے الفاظ میں تضرع پیدا کرنے کے لیے آتی ہیں وہ عام اور مشترک ہوتی ہیں۔ ان میں نیک و بد دونوں ہی تپائے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال نادانوں اور سرکشوں کے لیے ایک وجۂ فتنہ و مغالطہ بن جاتی ہے۔ وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جب اس قحط یا وبا نے عقیدہ اور عقیدہ، کردار اور کردار میں کوئی فرق نہیں کیا، اس کا نشانہ جس طرح ہم بنے اسی طرح ہمارے ملامت گر اور ناصح بھی بنے تو یہ کس طرح تسلیم کیا جائے کہ اس کا کوئی رشتہ کفر و ایمان اور عقائد و اعمال سے ہے، یہ بات تو اس صورت میں صحیح ہوتی جب نبی اور اس کے ساتھی اس قحط یا آفت سے اس طرح بچا لیے گئے ہوتے کہ ان کے لیے تو آسمان سے من و سلویٰ اترتا ہوتا اور ہم سوکھے چمڑے چابتے ہوتے۔ جب یوں نہیں ہوا بلکہ ہم اور وہ دونوں اپنی اپنی جگہ گرفتار مصائب رہے تو یہ کس طرح مانا جائے کہ ان مصائب کا کوئی علاقہ لوگوں کی نیکی و بدی سے ہے۔ درحقیقت یہی مغالطہ ہے جو انبیا کے مخالفین کی طرح آج کے بدمستوں کو بھی اندھا بنائے ہوئے ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ سائیکلون اٹھا وہ بلاامتیاز نیک و بد سب کو بہا لے گیا۔ زلزلہ آیا اس نے مندر، مسجد، کلیسا سب ڈھا دیے، قحط آیا اورا س کی زد میں نمازی اور غیر نمازی، فاسق اور مومن سب آئے۔ یہ چیز ان کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔
اول تو وہ ان چیزوں سے کوئی صحیح اثر لیتے ہی نہیں اور اگر وقتی طور پر دلوں میں کچھ گداز پیدا ہوتا بھی ہے تواس کا اثر دیرپا نہیں ہوتا۔ بہت جلد خواہشیں ان کو اسی غفلت و سرمستی میں مبتلا کر دیتی ہیں جس میں وہ اب تک مبتلا رہے تھے اور ان کا مرشد شیطان ان کو وہی جاہلی فلسفہ ازسرنو پڑھا دیتا ہے جس کا ذکر اوپر گزرا کہ ’قَدْ مَسَّ اٰبَآءَ نَا الضَّرَّآءُ وَالسَّرَّآءُ‘ اس قسم کے سرد و گرم دن تو قوموں پر آتے ہی رہتے ہیں۔
اس ابلیسی مغالطہ سے محفوظ رہنے کے لیے اس حقیقت کو ہمیشہ مستحضر رکھنا چاہیے کہ تنبیہی مصائب میں اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے نیک و بد میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا اس لیے کہ ان کا مقصود سزا دینا نہیں بلکہ لوگوں میں تضرع پیدا کرنا ہوتا ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے بڑا فرق ہوتا ہے۔ اہل ایمان اگر ان مصائب میں کوئی حصہ پاتے ہیں تو اس سے ان کے تضرع میں مزید اضافہ ہوتا ہے جس سے ان کی کوتاہیوں کی تلافی اور ان کے مراتب و مدارج میں ترقی ہوتی ہے۔ برعکس اس کے جن لوگوں کے اندر ان سے تضرع پیدا نہیں ہوتا ان پر اللہ کی حجت تمام ہو جاتی ہے اور اس کے بعد جب ان پر فیصلہ کن عذاب آتا ہے تو وہ ان کا استیصال کر دیتا ہے۔ پھر اس کی زد سے ان کے اندر کے وہی لوگ بچتے ہیں جو اصلاح منکر کا فرض ادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ ________ (اس سنت الٰہی کی وضاحت ہم انعام کی آیات ۴۲۔۴۶ کے تحت کر چکے ہیں۔ نیز اعراف کی آیت ۱۳۰ کے تحت بھی اس کے بعض پہلو واضح ہوں گے۔)
دو اہم حقیقتیں:
’وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰى اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا الایۃ‘۔ ’اَھْلَ الْقُرٰى‘ سے مراد وہی قومیں ہیں جن کی تکذیب کی داستان ( اسی سورت میں ) اوپر بیان ہوئی ہے۔ فرمایا کہ اگر یہ لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ یہ معاملہ نہ کرتا کہ ایک مہلت دینے کے بعد ان کو عذاب میں پکڑ لیتا بلکہ ان کے لیے آسمان و زمین دونوں طرف سے اپنی بے پایاں برکتوں کے دروازے کھول دیتا۔ یہاں دو حقیقتیں واضح ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ کسی قوم کو ڈھیل کے طور پر اسباب و مال کی جو فراخی حاصل ہوتی ہے وہ خدا کی رحمت و برکت نہیں ہوتی بلکہ اس کی نوعیت مریض کے آخری سنبھالے کی ہوتی ہے جس کے بعد ایک آخری ہچکی کی کسر باقی رہ جاتی ہے جو مریض کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ جس طرح شمع بجھنے سے پہلے ایک مرتبہ بھڑکتی ہے پھر بجھ جاتی ہے اسی طرح یہ قوم آخری بار بھڑک کر بجھ جاتی ہے۔
دوسری یہ کہ ایمان و تقویٰ کی زندگی جس طرح آخرت میں خدا کی رحمتوں کی ضامن ہے اسی طرح دنیا میں بھی اگر کوئی قوم اس کو اختیار کرے تو یہ آسمان و زمین کی تمام برکتوں اور فیروز مندیوں کی کلید ہے۔ نادان ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی کامیابیوں کی راہ میں خدا پرستی اور خدا ترسی کوئی رکاوٹ ہے۔
خدائی پکڑ بے امان ہوتی ہے:
’اَھْلُ الْقُرٰٓی‘ سے اشارہ انہی قوموں کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر گزرا۔ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قریش کو توجہ دلائی کہ بتاؤ وہ خدا کے عذاب کے مقابل میں اپنے بچاؤ کے لیے کوئی بند باندھ سکے؟ ہمارا عذاب ان پر رات کی تاریکیوں میں دبے پاؤں بھی آیا جب کہ وہ سو رہے تھے اور دن دہاڑے ڈنکے کی چوٹ بھی آیا جب کہ وہ اپنی دلچسپیوں اور سرگرمیوں میں مصروف تھے لیکن نہ رات میں وہ اس سے اپنے آپ کو بچا سکے نہ دن میں۔ خدا کی تدبیر بے امان ہے۔ کسی کی طاقت نہیں کہ اس سے اپنے کو بچا سکے۔ اس وجہ سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ اس سے نچنت اور بے خوف رہے۔ اس سے نچنت اور بے خوف صرف وہی رہتے ہیں جن کی شامت آئی ہوئی ہو اور وہ نامراد ہونے والے ہوں۔ ’مکر‘ جیسا کہ دوسرے مقام میں ہم واضح کر چکے ہیں، خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں۔ خفیہ تدبیر کا مطلب یہ ہے کہ خدا وہاں سے پکڑتا ہے جہاں سے کسی کو پکڑے جانے کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ اوپر تنبیہ کے بعد ڈھیل کی جو سنت بیان ہوئی وہ اس خفیہ تدبیر الٰہی کی ایک مثال ہے۔ قوم تو سمجھتی ہے کہ اب اُس نے پالا مار لیا لیکن درحقیقت وہیں اس کی ہلاکت کا کھڈ ہوتا ہے۔
خدا کی تدبیر بے امان ہے۔ کسی کی طاقت نہیں کہ اس سے اپنے کو بچا سکے۔ اس وجہ سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ اس سے نچنت اور بے خوف رہے۔ اس سے نچنت اور بے خوف صرف وہی رہتے ہیں جن کی شامت آئی ہوئی ہو اور وہ نامراد ہونے والے ہوں۔ ’مکر‘ جیسا کہ دوسرے مقام میں ہم واضح کر چکے ہیں، خفیہ تدبیر کس کو کہتے ہیں۔ خفیہ تدبیر کا مطلب یہ ہے کہ خدا وہاں سے پکڑتا ہے جہاں سے کسی کو پکڑے جانے کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ اوپر تنبیہ کے بعد ڈھیل کی جو سنت بیان ہوئی وہ اس خفیہ تدبیر الٰہی کی ایک مثال ہے۔ قوم تو سمجھتی ہے کہ اب اُس نے پالا مار لیا لیکن درحقیقت وہیں اس کی ہلاکت کا کھڈ ہوتا ہے۔
’اَلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ‘ سے مراد یہاں قریش ہیں۔ فرمایا کہ جو لوگ انھی قوموں کے بعد جن کا ذکر اوپر گزرا اس ملک میں حکومت و اقتدار کے وارث ہوئے ہیں آخر وہ اپنے مورثوں کی تاریخ سے سبق کیوں نہیں لیتے، خدا نے جس ترازو اور جس باٹ سے ان کو تولا وہ اسی باٹ اور ترازو سے ان کو کیوں نہیں تولے گا؟ فرمایا کہ آخر وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جس طرح ہم نے ان کو ان کے جرموں کی پاداش میں ہلاک کر دیا اسی طرح، جب چاہیں، ان کو بھی ہلاک کر دیں۔ دلوں پر مہر قہرالٰہی کی تمہید ہے: ’وَنَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ‘ بالکل اسی محل میں ہے جس محل میں سورۂ انعام میں فرمایا ہے: ’قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰہُ سَمْعَکُمْ وَاَبْصَارَکُمْ وَخَتَمَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ مَّنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِہٖ‘۔(۴۶) (ان سے پوچھو اگر اللہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں سلب کر لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ کے سوا کون ہے جو تمہیں یہ چیزیں واپس دے سکے)
یہ امر ملحوظ رہے کہ دلوں پر مہر عذاب الٰہی کا مقدمہ ہے۔ کسی قوم پر عذاب الٰہی نازل ہونے سے پہلے اس کے دلوں پر مہر لگتی ہے۔ اس باب میں خدا کا جو قانون ہے اس کی وضاحت ہم متعدد مقامات میں کر چکے ہیں۔ اسی کی دھمکی یہاں قریش کو دی ہے کہ ابھی تو ہم نے ان کے دلوں پر مہر نہیں کی ہے لیکن یہ ضد اور ہٹ دھرمی کی جس روش پر بڑھتے چلے جا رہے ہیں وہ وقت دور نہیں کہ ہم ان کے دلوں پر مہر کر دیں اور یہ سننے سمجھنے سے بالکل ہی رہ جائیں۔ یہ ہمارے عذاب کا مقدمہ ہو گا جس کے بعد لازماً ہمارا فیصلہ کن عذاب نازل ہو جائے گا۔
دلوں پر مہر کب لگتی ہے؟
کس طرح کے لوگوں کے دلوں پر لگتی ہے اور بالآخر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اس آیت میں ان سوالوں کا جواب ہے۔ فرمایا کہ ہم نے قوموں کی جو سرگزشت تمہیں سنائی ہے لوگوں کو چاہیے کہ اس سے سبق لیں۔ فرمایا کہ ان کے پاس خدا کے رسول نہایت واضح نشانیاں لے کر آئے لیکن وہ ان پر ایمان لانے والے نہ بنے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے خدا کی آیتوں اور نشانیوں کو جھٹلاتے رہے تھے۔ آدمی کا قاعدہ ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی عام آیات سے روگردانی کا عادی ہو جاتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا دل ایسا پتھر ہو جاتا ہے کہ رسولوں کے ذریعہ سے خاص نشانیاں بھی ظاہر ہوتی ہیں تو وہ بھی اس پر کارگر نہیں ہوتیں۔ فرمایا کہ یہ طریقہ ہے ہمارے ہاں دلوں پرمہر لگانے کا۔ دل کا کام عبرت پذیری، تفکر اور تعقل ہے۔ اگر کوئی گروہ اس طرح اپنی خواہشوں کا اندھا بہرا مرید بن جاتا ہے کہ تذکیر و تنبیہ کے بعد بھی وہ دل کی آنکھیں نہیں کھولتا تو ایسے لوگوں کے دل بالآخر بالکل جپاٹ ہو کے رہ جاتے ہیں۔
یہ ملحوظ رہے کہ ’بِمَا کَذَّبُوْا‘ یہاں ’یُؤْمِنُوْا‘ کا مفعول نہیں ہے بلکہ ’ب‘ بیان سبب کے لیے ہے۔ یہ دلوں پر مہر لگنے کا نتیجہ اور اثر بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی گروہ کے دلوں پر مہر کر دیا کرتا ہے تو ان کی مت اس طرح ماری جاتی ہے کہ کوئی نشانی بھی ان کو دکھاؤ وہ اپنی جگہ سے کھسکنے کا نام نہیں لیتے۔ باربار قسمیں کھا کھا کے عہد کریں گے کہ اگر فلاں معجزہ دکھا دو تو ہم مان لیں گے لیکن وہ معجزہ بھی دکھا دیا جائے تو پھر کسی نئے معجزے کا مطالبہ شروع کر دیں گے اور اپنے عہد سے پھر جائیں گے۔ لفظ ’فاسق‘ یہاں عہد شکن کے مفہوم میں ہے۔ یہی مضمون زیادہ وضاحت سے سورۂ انعام میں یوں بیان ہوا ہے۔ ’وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَءِنْ جَآءَ تْھُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِھَا قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ اَنَّھَآ اِذَا جَآءَ تْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ۵ وَنُقَلِّبُ اَفْءِدَتَھُمْ وَاَبْصَارَھُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّنَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ‘(۱۰۹۔۱۱۰) (اور وہ بڑی پکی پکی قسمیں کھا کے یقین دلاتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ ان کو دکھایا جائے تو وہ ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے۔ کہہ دو کہ معجزے تو اللہ ہی کے پاس ہیں۔ اور تمہیں کیا پتہ کہ اگر معجزہ بھی آ جائے گا جب بھی وہ ایمان لانے والے نہیں اور ہم ان کے دلوں اور ان کی بصیرتوں کو اسی طرح الٹ دیں گے جس طرح وہ پہلی بار ایمان نہیں لائے اور ان کی سرکشی میں ان کو بھٹکتا چھوڑ دیں گے)
آگے حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی سرگزشت میں بھی یہی حقیقت ان الفاظ میں واضح کی گئی ہے۔
’وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَھِدَ عِنْدَکَ لَءِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ۵ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْھُمُ الرِّجْزَ اِآٰی اَجَلٍ ھُمْ بٰلِغُوْہُ اِذَا ھُمْ یَنْکُثُوْنَ‘(۱۳۴۔۱۳۵) (جب ان پر کوئی آفت آتی وہ کہتے، اے موسیٰ، ہمارے واسطے اپنے رب سے، اس وعدے کی بنا پر جو اس نے تم سے کر رکھا ہے، دعا کرو۔ اگر تم نے یہ بلا ہمارے سر سے ٹال دی تو ہم تمہاری بات ضرور مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ جانے دیں گے۔ پھر جب ہم اس آفت کو کچھ دیر کے لیے، جس تک لازماً ان کو پہنچنا ہوتا، ٹال دیتے تو وہ دفعۃً اپنا عہد توڑ دیتے)