۱۔ وحی اور نزولِ قرآن کی نوعیت
مولانا مودودی نے نزولِ وحی کو ایک غیرمعمولی اور الہامی عمل قرار دیا
ہے جو عام انسانی علوم کے حصول سے بالکل مختلف ہے۔
وحی کی ابتدا حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے ہوئی۔
نزولِ قرآن کا آغاز غارِ حرا میں پہلی وحی ("اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ" – العلق 1) سے ہوا۔
انسانی ذہن اور معاشرتی حالات کے مطابق احکامات اتارے جائیں۔
صحابہ کرام کے عقائد و اعمال کی اصلاح مرحلہ وار کی جائے۔
امت محمدیہ کے لیے قرآن فہمی آسان ہو۔
کفارِ مکہ کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے۔
صبر و استقامت کی تلقین کی گئی۔
سورتیں زیادہ تر مختصر اور فصاحت و بلاغت سے بھرپور تھیں۔
مشرکین کو شرک کے بطلان اور اخلاقی زوال پر تنبیہ کی گئی۔
جہاد، زکوٰۃ، روزہ، اور دیگر اسلامی احکامات نازل ہوئے۔
یہود و نصاریٰ کے اعتراضات اور ان کی بددیانتی کو بے نقاب کیا گیا۔
منافقین کے کردار اور ان کے فتنوں کا ذکر آیا۔
امت کو ایک سیاسی و سماجی وحدت میں ڈھالا گیا۔
قرآن ایک نظریاتی اور انقلابی منشور ہے جو فرد، معاشرے اور ریاست کو ایک خدائی اصول کے تحت ڈھالتا ہے۔
اس کا اولین ہدف انسان کے عقائد، اخلاق اور ذہن کی اصلاح تھا تاکہ وہ صحیح اسلامی فکر اختیار کرے۔
اس کے بعد معاشرتی اصلاح، قانونی اصول، اور اسلامی حکومت کے بنیادی ڈھانچے کے بارے میں ہدایات دی گئیں۔
پہلے ایمان کی اصلاح، پھر عبادات، پھر معاشرتی اصلاح، پھر قانونی اور سیاسی احکامات۔
ایک ساتھ تمام احکامات دینے کے بجائے تدریجی طور پر لوگوں کو اس کا عادی بنایا گیا۔
قرآن نے بتدریج شراب، جوا، اور دیگر برائیوں کو ختم کیا تاکہ لوگ بغیر کسی سختی کے ان سے نکل سکیں۔
وحی کی ابتدا حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے ہوئی۔
نزولِ قرآن کا آغاز غارِ حرا میں پہلی وحی ("اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ" – العلق 1) سے ہوا۔
وحی کی مختلف صورتیں:
قرآن میں وحی کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں، جن میں:
فرشتے کے ذریعے وحی (جیسے حضرت جبرائیلؑ کے ذریعے نبی اکرم ﷺ پر قرآن کا نزول)
براہِ راست اللہ کی گفتگو (جیسے حضرت موسیٰؑ کے ساتھ کوہِ طور پر)
الہام اور خواب کے ذریعے وحی (جیسے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی قربانی کا خواب)
۲ ۔ نزولِ قرآن کے تدریجی مراحل
مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں واضح کیا ہے کہ قرآن مجید ایک ہی بار نازل نہیں ہوا بلکہ یہ تدریجاً نازل ہوا تاکہ:انسانی ذہن اور معاشرتی حالات کے مطابق احکامات اتارے جائیں۔
صحابہ کرام کے عقائد و اعمال کی اصلاح مرحلہ وار کی جائے۔
امت محمدیہ کے لیے قرآن فہمی آسان ہو۔
۳۔ نزولِ قرآن کے پس منظر میں مکی اور مدنی ادوار
مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں مکی اور مدنی سورتوں کو ان کے حالاتِ نزول کے تناظر میں بیان کیا ہے:(۱) مکی دور کا پس منظر
اس دور میں توحید، رسالت اور آخرت پر زور دیا گیا۔کفارِ مکہ کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے۔
صبر و استقامت کی تلقین کی گئی۔
سورتیں زیادہ تر مختصر اور فصاحت و بلاغت سے بھرپور تھیں۔
مشرکین کو شرک کے بطلان اور اخلاقی زوال پر تنبیہ کی گئی۔
(۲) مدنی دور کا پس منظر
اسلام کی معاشرتی، قانونی اور سیاسی بنیادیں رکھی گئیں۔جہاد، زکوٰۃ، روزہ، اور دیگر اسلامی احکامات نازل ہوئے۔
یہود و نصاریٰ کے اعتراضات اور ان کی بددیانتی کو بے نقاب کیا گیا۔
منافقین کے کردار اور ان کے فتنوں کا ذکر آیا۔
امت کو ایک سیاسی و سماجی وحدت میں ڈھالا گیا۔
۴۔ نزولِ قرآن کا مقصد اور اس کی روشنی میں اسلامی انقلاب
مولانا مودودی کے مطابق قرآن کا نزول صرف عقائد و عبادات کی تعلیم تک محدود نہیں، بلکہ اس کا مقصد ایک مکمل اسلامی انقلاب برپا کرنا تھا۔قرآن ایک نظریاتی اور انقلابی منشور ہے جو فرد، معاشرے اور ریاست کو ایک خدائی اصول کے تحت ڈھالتا ہے۔
اس کا اولین ہدف انسان کے عقائد، اخلاق اور ذہن کی اصلاح تھا تاکہ وہ صحیح اسلامی فکر اختیار کرے۔
اس کے بعد معاشرتی اصلاح، قانونی اصول، اور اسلامی حکومت کے بنیادی ڈھانچے کے بارے میں ہدایات دی گئیں۔
۵۔ قرآن کی تدریجی تعلیمات اور نزول کی حکمتیں
مولانا مودودی نے نزولِ قرآن کو ایک تربیتی نصاب قرار دیا جو مرحلہ وار انسان کو اللہ کی بندگی میں ڈھالتا ہے:پہلے ایمان کی اصلاح، پھر عبادات، پھر معاشرتی اصلاح، پھر قانونی اور سیاسی احکامات۔
ایک ساتھ تمام احکامات دینے کے بجائے تدریجی طور پر لوگوں کو اس کا عادی بنایا گیا۔
قرآن نے بتدریج شراب، جوا، اور دیگر برائیوں کو ختم کیا تاکہ لوگ بغیر کسی سختی کے ان سے نکل سکیں۔
تفہیم القرآن کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا مودودی نے نزولِ قرآن کے پس منظر کو ایک مکمل انقلابی اور تربیتی عمل کے طور پر پیش کیا ہے، جو فرد، معاشرہ اور ریاست کو بدلنے کے لیے اتارا گیا۔