آرتھر جیفری کی کتاب "Materials for the History of the Text of the Qur'an" قرآنی متن کی تدوین اور اس کی تاریخ پر ایک مستشرقانہ تحقیق ہے۔ اس کتاب میں جیفری نے قرآن کی قراءات، مختلف مصاحفِ صحابہ، اور متنی اختلافات کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کیا کہ قرآن تدریجی ارتقاء (Textual Evolution) کے مراحل سے گزرا ہے اور اس کی موجودہ شکل میں ممکنہ تغیرات (Changes) رونما ہوئے ہیں۔
مسلم
اسکالرز اور محققین نے اس کتاب پر سخت علمی نقد کیا ہے اور اس میں پیش کیے گئے
دعووں کو ناقص استدلال اور غیر مستند حوالہ جات پر مبنی قرار دیا ہے۔
1.
مسلم اسکالرز کا عمومی موقف
مسلم
محققین اور علما کا اس کتاب پر عمومی رد ان نکات پر مشتمل ہے:
جیفری
کا استدلال مغربی متنی تنقید (Textual Criticism) کے اصولوں پر مبنی ہے، جو اسلامی روایت سے
ہم آہنگ نہیں ۔
اسلامی
روایت کے مطابق، قرآن زبانی اور تحریری دونوں صورتوں میں محفوظ کیا گیا، جبکہ
مستشرقین عمومی طور پر صرف تحریری متون پر انحصار کرتے ہیں۔
اسلامی
علوم میں "تواتر" کا تصور بہت مضبوط ہے، جو کسی بھی مستند متن کے محفوظ
ہونے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
قراءاتِ
قرآن، تحریف نہیں بلکہ تلفظ اور ادائیگی کا فرق ہے۔
جیفری نے قرآنی قراءات کو تحریف کے مترادف سمجھا، جبکہ مسلم علماء کے مطابق قراءات وحی کے مختلف اسالیب ہیں، جو خود نبی کریم ﷺ نے مختلف قبائل کے لیے اجازت دی تھیں۔
قراءات
میں فرق کا مطلب قرآن میں تحریف یا تبدیلی نہیں بلکہ یہ ایک "قرآنی
اعجاز" کا حصہ ہے۔
مصاحفِ
صحابہ پر مبنی استدلال کمزور ہے ۔ جیفری نے حضرت ابن مسعود، ابی بن کعب، اور دیگر
صحابہ کے مصاحف کا حوالہ دے کر کہا کہ قرآن کے مختلف نسخے موجود تھے، لیکن مسلم
علماء کے مطابق یہ ذاتی یادداشت (Personal Notes) یا تفسیراتی تشریحات (Explanatory
Annotations) تھیں، نہ کہ مکمل اور مستند قرآنی متون۔
حضرت
عثمانؓ کا مصحف "توحیدِ قراءت" کے لیے تھا، نہ کہ کسی متن کو منسوخ یا
بدلنے کے لیے۔
جیفری
کے مصادر کمزور اور غیر مستند ہیں۔
اس
نے اپنی تحقیق میں اکثر ضعیف اور کمزور روایات پر انحصار کیا، جبکہ مسلم محدثین حدیث
و تفسیر کے ذخیرے کو مضبوط اور ضعیف درجہ بندی میں تقسیم کرتے ہیں۔
مسلم
علماء کے مطابق، کسی تاریخی دعوے کی بنیاد ضعیف اور شاذ روایات پر رکھنا ناقابلِ
قبول ہے۔
2. مسلم اسکالرز کی تفصیلی آراء
1. ڈاکٹر مصطفی سباعی (مؤرخ و مفسر، شام)
کتاب:
"الاستشراق والمستشرقون ما لهم وما عليهم"
ڈاکٹر
مصطفی سباعی نے آرتھر جیفری اور دیگر مستشرقین کی قرآن پر تحقیق کا تنقیدی جائزہ لیا
ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"مستشرقین
کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ قرآن کو بائبل کی تاریخ پر قیاس کرتے ہیں،
حالانکہ دونوں کے محفوظ ہونے کے ذرائع اور طریقے بالکل مختلف ہیں۔ جیفری نے اسلامی
اصولِ روایت کو نظرانداز کر کے قرآن پر اعتراضات کیے، جو علمی دیانت کے خلاف
ہے۔"
2.
ڈاکٹر محمد حمید اللہ (عالمِ حدیث و قرآن، پاکستان/فرانس)
کتاب:
"Introduction
to the Study of the Holy Quran"
ڈاکٹر
محمد حمید اللہ نے جیفری کی تحقیق پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ:
"آرتھر
جیفری کا کام صرف تاریخی مواد کو اکٹھا کرنے کی حد تک اہمیت رکھتا ہے، لیکن اس کے
استدلال میں سنجیدگی کی کمی ہے۔ وہ قرآنی قراءات کو نبی اکرم ﷺ کی اجازت یافتہ
مختلف ادائیگیوں کے بجائے تحریف کا نتیجہ قرار دیتا ہے، جو ایک بنیادی غلط فہمی
ہے۔"
3. ڈاکٹر فواد سیزگین (اسلامی علوم کے ماہر، ترکی/جرمنی)
کتاب:
"Geschichte
des arabischen Schrifttums"
ڈاکٹر
فواد سیزگین نے اپنی تحقیق میں واضح کیا کہ جیفری نے جس انداز سے قرآنی مخطوطات کا
تجزیہ کیا، وہ سائنسی طریقۂ تحقیق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ لکھتے ہیں:
"جیفری
نے قرآن کے ابتدائی نسخوں کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، وہ کسی مستند
اسلامی یا عربی ماخذ پر نہیں بلکہ مشکوک اور کمزور بنیادوں پر قائم ہیں۔"
4.
ڈاکٹر یاسر قاضی (امریکی مسلم اسکالر)
لیکچرز:
"The
History of the Quranic Text"
یاسر
قاضی نے اپنی تحقیقات میں واضح کیا کہ جیفری جیسے مستشرقین نے قرآن پر تنقید کے لیے
جو طریقہ اختیار کیا، وہ جدید علمی معیارات پر بھی پورا نہیں اترتا۔ ان کے مطابق:
"اگر
ہم جیفری کے اصولوں کو بائبل یا دیگر مذہبی متون پر لاگو کریں، تو وہ بھی اپنی اصل
حالت میں نہیں رہیں گے۔ قرآن کی تدوین پر اعتراضات کسی بھی مستند اسلامی روایت سے
ثابت نہیں ہوتے۔"
3. خلاصہ اور نتیجہ
آرتھر
جیفری کے اعتراضات کی حقیقت
✅ مسلم علماء نے ثابت کیا کہ قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی اور یہ
تواتر کے ذریعے محفوظ ہے۔
✅ جیفری کی تحقیق میں ضعیف روایات اور غیر مستند ذرائع کا زیادہ
استعمال کیا گیا۔
✅ قرآنی قراءات تحریف نہیں بلکہ وحی کے مختلف لہجے اور طرزِ ادا ہیں۔
✅ مستشرقین کا قرآن پر اعتراض، بائبل کی تاریخ پر قیاس کرنے کی غلطی
کی وجہ سے پیدا ہوا۔
نتیجہ
آرتھر
جیفری کی کتاب "Materials for the History of the Text of the Qur'an"
علمی لحاظ سے قرآن کی تدوین پر ایک یکطرفہ (biased) تحقیق
ہے، جس میں اسلامی روایت کو مسترد کر کے مستشرقین کے متنی تنقیدی اصولوں کو زبردستی
لاگو کرنے کی کوشش کی گئی۔ مسلم اسکالرز نے اس کتاب پر مضبوط علمی رد پیش کیا ہے
اور اس کے نظریات کو کمزور اور غیر مستند ثابت کیا ہے۔
آرتھر جیفری کی کتاب
"Materials for the History of the Text of the Qur'an"
مقدمے
کا اردو ترجمہ
مقدمہ
قرآن، جو اسلام کا مقدس ترین صحیفہ ہے، دنیا کے عظیم الہامی متون میں سے ایک ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق، یہ وحی کا مکمل اور محفوظ کلام ہے، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور چودہ صدیوں سے بلا تبدیلی محفوظ ہے۔ تاہم، جب ہم تاریخی اور متنی تنقید (Textual Criticism) کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں مختلف قراءات (Variant Readings)، قدیم مصاحف (Codices)، اور روایات کی شکل میں ایسی معلومات ملتی ہیں، جو اس کے تدریجی ارتقاء (Gradual Development) کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یہ کتاب ان تمام مواد (Materials) کو یکجا کرنے کی ایک کوشش ہے، جو قرآنی متن کی تاریخ پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ اس تحقیق میں ہم ان مختلف قرآنی نسخوں اور قراءات کا جائزہ لیتے ہیں، جو ابتدائی اسلامی صدیوں میں موجود تھیں اور جو بعد میں تدوینِ قرآن کے عمل میں یا تو حذف کر دی گئیں یا نظر انداز کر دی گئیں۔
اس تحقیق کا مقصد یہ نہیں کہ کسی مخصوص مذہبی عقیدے کو چیلنج کیا جائے، بلکہ خالصتاً ایک علمی اور تاریخی مطالعہ پیش کرنا ہے، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ قرآن کے متن نے کس طرح ایک مخصوص شکل اختیار کی۔ چنانچہ، ہم قدیم تفاسیر، اسلامی تاریخی مصادر، اور قرآنی نسخوں سے متعلق موجودہ علمی ذخیرے کو کھنگال کر یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ قرآن اپنی موجودہ صورت میں کس طرح پہنچا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قدیم اسلامی روایات میں خود صحابہ کے مابین بعض قرآنی آیات کے الفاظ اور قراءات پر اختلاف کا ذکر ملتا ہے، اور انہی اختلافات کو بنیاد بنا کر اسلامی تاریخ میں مختلف مکاتبِ فکر (Schools of Thought) نے قرآن کی قراءت اور اس کی تدوین پر اپنے مخصوص نظریات قائم کیے ہیں۔ ان اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس کتاب میں ان تمام تاریخی شواہد کو جمع کیا گیا ہے، جو قرآن کے ابتدائی متنی ارتقاء (Textual Evolution) پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
یہ
تحقیق مستشرقین (Orientalists) اور
اسلامی علوم کے ماہرین کے لیے یکساں طور پر مفید ہوگی، کیونکہ یہ قرآنی متن کی تاریخ
کے بارے میں ایک مستند اور محققانہ جائزہ فراہم کرتی ہے۔
(آرتھر
جیفری)
تبصرہ:
آرتھر جیفری نے اس مقدمے میں قرآن کی تدوین اور تاریخی حیثیت پر سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، اس کے پیش کردہ دلائل کا تفصیلی علمی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے قرآنی علوم اور اسلامی روایات کو درست سیاق و سباق میں نہیں سمجھا۔