قرآن اور ہماری زندگی (سورہ فاتحہ )

تمہید

قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جو انسانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ یہ کتاب نہ صرف عبادات کا ضابطہ پیش کرتی ہے، بلکہ اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، سائنس، اور روحانیت جیسے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ قرآن کی تعلیمات میں ایسی گہرائی اور ہم آہنگی ہے کہ یہ ہر دور اور ہر قوم کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتی ہیں۔ قرآن کی حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ ایک عالمی دستور اور رہنمائی کا منبع ہے، جو انسانیت کو راہِ راست پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے۔

اس تفسیری اسلوب کا مقصد:

یہ تفسیر قرآن کے پیغامات کو ایک نئے، جدید، اور عملی اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش ہے۔ آج کا دور علمی، ثقافتی، سائنسی، اور سماجی اعتبار سے تیز تر ترقی کر رہا ہے، اور ان ترقیات کے ساتھ ساتھ نئے مسائل اور چیلنجز بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس تفسیر کا مقصد یہی ہے کہ قرآن کی تعلیمات کو موجودہ دور کی ضروریات اور مسائل کے تناظر میں سمجھا جائے اور اس کی ہدایات کو عملی زندگی میں اپنانا آسان ہو۔

یہ تفسیر روایتی تفاسیر سے ہٹ کر اس بات پر زور دیتی ہے کہ قرآن کا پیغام صرف مذہبی عمل تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں ایک رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہم اس تفسیر میں قرآن کے پیغامات کو معاشرتی، اخلاقی، سیاسی، معاشی، اور سائنسی مسائل کے حل کے طور پر پیش کریں گے تاکہ قاری ان پیغامات کو نہ صرف سمجھ سکے بلکہ اپنے روزمرہ زندگی میں ان پر عمل کر سکے۔

جدید دور کے مسائل اور قرآن کی رہنمائی:

آج کے دور میں انسانیت کو کئی پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے: ذہنی دباؤ، معاشی بحران، فرقہ واریت، سائنس اور مذہب کا تصادم، اور گمراہی کے مختلف راستے۔ ان مسائل کا حل صرف دنیاوی تدابیر یا نظریات میں نہیں، بلکہ اللہ کی کتاب قرآن میں ہے۔ یہ تفسیر قرآن کو ان مسائل کے حل کے طور پر پیش کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کیسے قرآن کی تعلیمات انسانیت کی رہنمائی کرتی ہیں۔ قرآن نہ صرف روحانی سکون کی بات کرتا ہے، بلکہ انسانوں کو ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں کامیابی کے لیے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔

اس تفسیر کا اسلوب:

اس تفسیر میں ہم قرآن کے ہر پیغام کو اس کی اصل لغوی، اصطلاحی، اور فنی وضاحت کے ساتھ ساتھ اس کے موجودہ دور سے تعلق کو بھی اجاگر کریں گے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ہر سورہ اور آیت کی تفسیر اس دور کے جدید مسائل اور چیلنجز کے حوالے سے ہو تاکہ قاری قرآن کی رہنمائی کو اپنے موجودہ حالات میں لاگو کر سکے۔ یہ تفسیر محض الفاظ کی تشریح نہیں، بلکہ قرآن کی تعلیمات کو عملی زندگی میں کس طرح نافذ کیا جا سکتا ہے، اس پر تفصیل سے روشنی ڈالے گی۔

روایتی اور جدید تفاسیر میں فرق:

روایتی تفاسیر قرآن کی تفسیر میں زیادہ تر مذہبی عقائد، عبادات اور افعال پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، جبکہ ہم اس تفسیر میں قرآن کے پیغامات کو عملی زندگی کے مسائل سے جوڑتے ہوئے ان کے اطلاق کو واضح کریں گے۔ یہ تفسیر اس بات پر زور دے گی کہ قرآن کے پیغامات کا مقصد انسانوں کو صرف عبادات کی طرف نہیں، بلکہ معاشرتی، اخلاقی، اور سماجی سطح پر بھی درست رہنمائی فراہم کرنا ہے۔

قرآن کی عالمگیر نوعیت:

قرآن کا پیغام عالمی ہے اور اس کی تعلیمات ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے ہیں۔ اس تفسیر میں ہم قرآن کی تعلیمات کو اس طرح پیش کریں گے کہ وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا باعث بنیں۔ قرآن کے پیغامات کا تعلق صرف مذہبی روایات سے نہیں بلکہ عالمی سطح پر انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی ہے۔

عملی تطبیق:

ہم اس تفسیر میں قرآن کے پیغامات کو اس طرح پیش کریں گے کہ قاری نہ صرف ان کو سمجھے بلکہ ان پر عمل بھی کرے۔ ہم یہ ثابت کریں گے کہ قرآن کی تعلیمات ہر پہلو میں انسان کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں، چاہے وہ ذہنی سکون کی بات ہو، معاشی انصاف ہو، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہو یا عالمی سطح پر امن و سلامتی کا قیام ہو۔

خلاصہ :

یہ تفسیر قرآن کی تعلیمات کو جدید دور کے مسائل کے حل کے طور پر پیش کرے گی اور قاری کو اس بات کی ترغیب دے گی کہ وہ قرآن کے پیغامات کو اپنی روزمرہ زندگی میں نافذ کرے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ صرف ایک علمی تفسیر پیش کی جائے، بلکہ ایک ایسی عملی رہنمائی فراہم کی جائے جس سے قاری اپنی زندگی میں حقیقی سکون، کامیابی، اور فلاح حاصل کر سکے۔

اس تمہید  کا مقصد قاری کو اس تفسیر کے اسلوب سے آگاہ کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ یہ تفسیر قرآن کے پیغامات کو موجودہ دور کے تناظر میں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ایک جامع رہنمائی فراہم کرے گی۔ اس سے ہر قاری کی دلچسپی بڑھے گی اور وہ قرآن کے پیغامات کو نہ صرف سمجھ سکے گا بلکہ انہیں عملی زندگی میں نافذ کرنے کے قابل ہوگا۔


سورہ فاتحہ اور معاصر مسائل کا حل  

سورہ فاتحہ کا تعارف

سورہ فاتحہ قرآن مجید کی پہلی سورۃ ہے اور یہ دین اسلام کے بنیادی اصولوں کی وضاحت کرتی ہے۔ اس سورہ کو "ام الکتاب" یعنی کتاب کا ماں اور "السبع المثانی" یعنی سات دفعہ دہرائی جانے والی آیات کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سورۃ اللہ کی توحید، عبادت، اور روز قیامت کی حقیقت پر زور دیتی ہے اور انسانوں کی رہنمائی کے لیے ایک جامع پیغام پیش کرتی ہے۔

عربی متن اور اردو ترجمہ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان، نہایت رحم والا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

جو بے حد مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔

مٰلِكِ یَوْمِ الدِّيْنِ

جو روزِ جزا کا مالک ہے۔

اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِیْنُ

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ

ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ

ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، نہ کہ ان لوگوں کا جن پر غضب ہوا اور نہ ہی جو گمراہ ہوئے۔


الفاظ اور آیات کی لغوی وضاحت

1. بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

  • "بِسْمِ": لفظ "بِسْمِ" کا مطلب ہے "کے نام سے"۔ یہ کسی بھی کام کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کی ترغیب دیتی ہے تاکہ اس عمل میں برکت اور کامیابی ہو۔

  • "اللہ": اللہ کا یہ نام عربی میں سب سے عظیم ترین نام ہے، جو اس کی تمام صفات کا جامع ہے۔ یہ واحد ذات ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے۔

  • "الرحمن": اللہ کی بے انتہاء مہربانی اور رحمت کو ظاہر کرتا ہے۔

  • "الرحیم": اللہ کی مخصوص، دائمی اور گہری رحم دلی، جو ہر مسلمان کے لیے خصوصی طور پر ہے۔

2. اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

  • "الحمد": اس کا مطلب ہے "سب تعریفیں"۔ یہ لفظ اللہ کی تعریف میں استعمال ہوتا ہے۔

  • "لِلّٰہِ": اللہ کا مطلب ہے وہ ہستی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو تمام کائنات کا خالق اور مالک ہے۔

  • "رب": رب کا مطلب ہے "پالنے والا"، جو کائنات کے تمام موجودات کی تخلیق، پرورش اور تدبیر کرتا ہے۔

  • "العالمین": اس کا مطلب ہے "تمام جہان"، یعنی کائنات کی تمام مخلوقات۔

3. الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

  • "الرحمن": یہ اللہ کی بے انتہاء مہربانی اور عمومی رحمت کو ظاہر کرتا ہے، جو تمام مخلوقات پر ہے۔

  • "الرحیم": یہ اللہ کی خاص رحمت کو ظاہر کرتا ہے، جو مسلمانوں اور خاص طور پر ایمان والوں پر ہے۔

4. مٰلِكِ یَوْمِ الدِّيْنِ

  • "مالک": "مالک" کا مطلب ہے "مالکیت کا حقدار"، یعنی قیامت کے دن کی مکمل حاکمیت اور اقتدار اللہ کے پاس ہے۔

  • "یوم": اس کا مطلب ہے "دن"۔

  • "الدین": "دین" کا مفہوم ہے "بدلہ" یا "جزا"، یعنی قیامت کا دن جب انسانوں کو ان کے اعمال کا حساب دیا جائے گا۔

5. اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِیْنُ

  • "ایاک": "تجھ ہی کو"، اللہ سے صرف اور صرف عبادت کی امید اور درخواست ہے۔

  • "نعبد": "ہم عبادت کرتے ہیں"، اس کا مطلب ہے اللہ کی عبادت کرنا، جو زندگی کا اصل مقصد ہے۔

  • "نستعین": "ہم مدد مانگتے ہیں"، یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کو ہر کام میں اللہ کی مدد کی ضرورت ہے۔

6. اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ

  • "اہدنا": "ہمیں ہدایت دے"، یہ ایک دعا ہے جو انسان اللہ سے راستہ کی رہنمائی مانگتا ہے۔

  • "الصراط": "راستہ"، یہ لفظ "صراط" ایک سیدھا راستہ ہے جو اللہ کے احکام اور رضا کے مطابق ہو۔

  • "المستقیم": "سیدھا"، یعنی وہ راستہ جو کسی بھی جھکاؤ یا انحراف سے پاک ہو۔

7. صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ

  • "صراط": دوبارہ یہاں "راستہ" کا ذکر ہے۔

  • "الذین": "جو لوگ"۔

  • "أنعمت": "تُو نے انعام کیا"، یہ اللہ کی طرف سے اپنی نعمتوں کی بات کر رہا ہے۔

  • "غیر المغضوب": "غضب والے نہیں"، یعنی وہ لوگ جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہو، جیسے کافروں اور ظالموں پر۔

  • "علیہم": "ان پر"۔

  • "ولا الضالین": "اور نہ گمراہوں"، یعنی وہ لوگ جو ہدایت سے بھٹک گئے ہیں، جیسے وہ جو علم کی کمی کے باعث حق سے گمراہ ہوگئے۔


عقیدے اور ایمان کے حوالے سے پیغام

1. توحید کی بنیاد

سورۃ فاتحہ توحید کے تین اقسام پر مشتمل ہے:

  • توحید الربوبیہ: "رب العالمین" میں اللہ کی خالقیت، پرورش اور حکمرانی۔

  • توحید الوہیہ: "ایاک نعبد" میں صرف اللہ کی عبادت اور اُس کے ساتھ کسی کا شریک نہ کرنا۔

  • توحید الاسماء والصفات: "الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین" میں اللہ کی صفات کی تفصیل۔

2. قیامت کا تصور

سورہ فاتحہ ہمیں روزِ قیامت کی حقیقت بتاتی ہے۔ "مالک یوم الدین" کا مفہوم ہے کہ ہر انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن دیا جائے گا۔

3. دعا اور عبادت کا حقیقی مفہوم

"ایاک نعبد و ایاک نستعین" میں عبادت اور توکل کا مفہوم بہت جامع ہے، یہ ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی مدد اور انحصار کا سبق دیتا ہے۔


معاصر مسائل کا حل

1. الحاد اور سیکولرازم

آج کے دور میں الحاد اور سیکولرازم کے نظریات بہت پھیل چکے ہیں، جو اللہ کی حاکمیت کو رد کرتے ہیں۔ سورہ فاتحہ میں "مالک یوم الدین" ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کا ہی دن ہے، اور یہ کہ انسان کا ہر عمل اُس کے سامنے پیش ہوگا۔ یہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ دنیا کی عارضیت کے مقابلے میں آخرت کی حقیقت اہم ہے۔

2. سائنسی ترقی اور دینی عقائد

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو یکسر بدل دیا ہے، لیکن سورہ فاتحہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ "رب العالمین" کی صفات ہر چیز کو کنٹرول کرتی ہیں۔ سائنس اللہ کی تخلیق کردہ کائنات کے قوانین کا صرف ادراک کرتی ہے، نہ کہ اللہ کی حکمت کی حقیقت کو بدل سکتی ہے۔

3. ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل

موجودہ دور میں ذہنی دباؤ اور اضطراب بہت عام ہو چکے ہیں۔ سورہ فاتحہ میں "ایاک نعبد و ایاک نستعین" کے ذریعے ہمیں توکل اور اللہ پر انحصار کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ انسان کو سکون اور ذہنی سکونت فراہم کرتا ہے، جو نفسیاتی مسائل کا مؤثر حل ہو سکتا ہے۔

4. فرقہ واریت اور امت مسلمہ کی وحدت

سورہ فاتحہ ہمیں "صراط المستقیم" کی طرف ہدایت دیتی ہے، جو کہ ایک ہی راستہ ہے جو قرآن اور سنت کے مطابق ہے۔ اس میں کسی قسم کی فرقہ واریت یا اختلافات کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی پیغام ہمیں امت مسلمہ کی وحدت کی طرف رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

5. معاشی مسائل اور غربت

"رب العالمین" کا تصور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ رزق کا مالک صرف اللہ ہے۔ اسی بنیاد پر اسلام میں زکٰوۃ، صدقات اور سوشل ویلفیئر کے ذریعے معاشی انصاف کو فروغ دیا گیا ہے، جو غربت اور عدم مساوات کو کم کر سکتا ہے۔

6. گمراہی اور مغربی افکار کی یلغار

آج کے دور میں نوجوان نسل مغربی افکار اور ثقافت سے متاثر ہو رہی ہے۔ سورہ فاتحہ کے آخر میں "غیر المغضوب علیہم ولا الضالین" ہمیں ان گمراہ کن راستوں سے خبردار کرتی ہے، جو ہلاکت اور گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں۔


عملی زندگی میں اطلاق

  1. ہر کام کا آغاز "بِسْمِ اللّٰہِ" سے کریں: یہ ہمارے ہر عمل میں اللہ کی برکت کی طلب ہے۔

  2. اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کریں: "الحمد للہ" ہمیں اللہ کے ہر انعام پر شکر ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

  3. صراط المستقیم پر چلنے کی کوشش کریں: زندگی کے ہر پہلو میں انصاف، صداقت اور سچائی کا راستہ اختیار کریں۔

  4. زندگی کے ہر معاملے میں توکل کریں: "ایاک نعبد و ایاک نستعین" ہمیں اللہ پر انحصار کی اہمیت سکھاتا ہے۔

  5. فرقہ واریت سے بچیں اور اتحاد کی کوشش کریں: اللہ کے راستے پر چلنے کی کوشش کریں اور امت میں اتحاد پیدا کریں۔


خلاصہ

سورہ فاتحہ ایک جامع سورہ ہے جو نہ صرف عقیدہ، عبادت اور اخلاقی اصولوں کی رہنمائی کرتی ہے، بلکہ معاصر مسائل کا حل بھی پیش کرتی ہے۔ اس سورہ کے پیغام کو سمجھ کر ہم اپنی زندگیوں میں بہتری لا سکتے ہیں اور دنیا کے موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔