سورۃ الرحمٰن کا ادبی تجزیہ

تمہید: قرآن مجید کی ہر سورۃ اپنے اندر ایک الگ ادبی، روحانی اور فکری کائنات سموئے ہوئے ہے، مگر سورۃ الرحمٰن ان میں ایک نمایاں ادبی مقام رکھتی ہے۔ اس سورۃ کا اسلوب ایسا دلنشین اور پر اثر ہے کہ دلوں میں لرزہ طاری کر دیتا ہے اور روح کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ یہ سورۃ جہاں رحمتِ الٰہی کا اعلان ہے، وہیں انسان و جنّ کے لیے ایک وجدانی دعوت بھی ہے کہ وہ اپنے خالق کے احسانات کا شعور حاصل کریں۔

1۔ صوتی آہنگ اور تکرار کا جمال: سورۃ الرحمٰن کی سب سے نمایاں ادبی خصوصیت "فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ" کی تکرار ہے، جو 31 بار آتی ہے۔ یہ تکرار صرف اعادہ نہیں بلکہ ہر نعمت کے بعد ایک فکری، جذباتی اور روحانی جھٹکا دیتی ہے: "فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ" ہر بار قاری کو احساس دلاتی ہے کہ نعمت کا انکار ممکن ہی نہیں۔ یہ سوالیہ اسلوب درحقیقت اثبات کی شدت ہے۔

2۔ تقابل کا اسلوب: سورۃ الرحمٰن میں بار بار جنّ و انس دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ اسلوب اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کلامِ الٰہی کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں، بلکہ جنّات بھی اس کے مخاطب ہیں: "سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ" یہاں تقابل اور دوہرا خطاب قاری کے ذہن پر ایک بوجھ اور عظمت کا احساس پیدا کرتا ہے۔

3۔ امتیازی ترتیب اور معنی خیز تنوع: سورۃ الرحمٰن میں نعمتوں کا بیان ایک خاص ترتیب سے کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے قرآن کی تعلیم اور انسان کی تخلیق کا ذکر: "الرَّحْمَٰنُ * عَلَّمَ الْقُرْآنَ * خَلَقَ الْإِنسَانَ * عَلَّمَهُ الْبَيَانَ" یہ ترتیب بتاتی ہے کہ انسان کی روحانی و عقلی تربیت اس کی جسمانی تخلیق سے مقدم ہے۔ یہ نکتہ ادبی اور فکری گہرائی رکھتا ہے۔

4۔ بصری اور جمالیاتی پیکر نگاری: قرآن مجید کا اسلوب بصری تاثرات سے بھرپور ہوتا ہے، اور سورۃ الرحمٰن میں یہ خوبی کمال درجے پر موجود ہے: "فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ"، "فِيهِمَا مِن كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ"، "مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ" یہ تمام منظر نگاریاں نہایت لطافت، رنگ، خوشبو اور حسن کے ایسے مناظر پیش کرتی ہیں جو قاری کے دل میں جنت کا ایک خواب بُن دیتی ہیں۔

5۔ تضاد کا فن: سورۃ الرحمٰن میں تضاد کا استعمال بھی قابلِ غور ہے۔ ایک طرف نعمتوں کا تذکرہ، دوسری طرف جہنم کی شدت: "هَٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ" پھر اگلے ہی لمحے: "وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ" یہ اسلوبی تضاد قاری کے اندر خوف و رجاء کی کیفیات کو یکجا کرتا ہے۔

6۔ خطیبانہ جلال: سورۃ الرحمٰن کا لہجہ ایک عظیم خطیب کی مانند ہے، جو کبھی نرمی سے قائل کرتا ہے، کبھی دلیل سے، اور کبھی تکرار سے ذہن و دل کو بیدار کرتا ہے۔ یہ جلالی خطابت قاری کے دل میں خالق کی عظمت اور اپنی بندگی کا شعور جگاتی ہے۔

7۔ صوتی توازن اور قوافی: اس سورۃ کی آیات قافیہ دار اور صوتی لحاظ سے نہایت ہم آہنگ ہیں: "يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ * فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ" یہ قوافی نہ صرف سمعی حسن کا ذریعہ ہیں بلکہ جذبات کو بھی جھنجھوڑتے ہیں۔

8۔ جذباتی اور وجدانی اسلوب: سورۃ الرحمٰن کا مجموعی اسلوب وجدانی اور جذباتی ہے۔ یہ سورۃ کسی عقلی فلسفے سے زیادہ قلبی بیداری پیدا کرتی ہے۔ قاری خود کو اللہ کی نعمتوں میں گھرا ہوا محسوس کرتا ہے اور دل بے ساختہ جھک جاتا ہے۔

خلاصہ کلام : سورۃ الرحمٰن قرآن کے جمالیاتی معجزے کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اس کا ادبی اسلوب، اس کی صوتی لَے، تکرار کا جادو، منظر نگاری، تقابل، اور جلالی و جمالی انداز قاری کو ایک ایسے وجدانی سفر پر لے جاتا ہے جہاں صرف بندگی، شکر، اور محبت کی زبان باقی رہ جاتی ہے۔ یہ صرف ایک سورۃ نہیں، یہ ایک وجدانی دعوت ہے: اللہ کی پہچان، اس کی نعمتوں کا اعتراف، اور اپنے فانی وجود کی عاجزی۔