قرآن کے اسلوب کا ادبی تجزیہ

تمہید: قرآن مجید، صرف ایک مذہبی صحیفہ نہیں بلکہ ایک عظیم ادبی شہ پارہ بھی ہے۔ یہ کلامِ الٰہی، انسانی فکر، جذبات، اور شعور پر اس درجہ اثر انداز ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی اور کلام اس کی ہمسری نہیں کر سکتا۔ اس کے الفاظ میں ایسی فصاحت، ایسی بلاغت، اور ایسا روحانی اثر ہے جو دلوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے، عقل کو بیدار کرتا ہے اور روح کو سرشار کرتا ہے۔ 

قرآن کا اسلوب اس قدر منفرد اور دلنشین ہے کہ عرب کے بڑے بڑے فصحاء اور بلغاء بھی اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز رہے۔ یہ وہ کلام ہے جس کے متعلق اللہ نے خود فرمایا:  "لَّوْ أَنزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ" (الحشر: 21) یعنی اگر یہ قرآن پہاڑ پر نازل ہوتا تو وہ بھی اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ کیا انسانی کلام کبھی ایسا اثر پیدا کر سکتا ہے؟ 

قرآن کا اسلوب وہ آسمانی رنگ ہے جو انسانی زبان کے دامن میں سما نہیں سکتا۔ اس کے الفاظ گویا نور کے قطرے ہیں، جو دل کی زمین پر اترتے ہیں اور ایمان کی کونپلیں اگاتے ہیں۔  جو صرف وحی کے دامن میں جلوہ گر ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ" (الزمر: 23) یہی وہ کلام ہے جو قاری کے وجود پر لرزہ طاری کر دیتا ہے، آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، دل جھک جاتے ہیں، اور روح ایک نورانی دنیا میں داخل ہو جاتی ہے۔

1۔ اسلوب کی انفرادیت: قرآن کا اسلوب نہ مکمل نظم ہے نہ نثر، بلکہ یہ ایک ایسا منفرد بیانیہ ہے جو صرف وحی کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔ اس میں ایسی ادبی ندرت ہے جو انسانی کلام سے بلند تر ہے۔ "إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ" (یوسف: 2) یہ آیت نہ صرف قرآن کے لسانی حسن کی طرف اشارہ کرتی ہے، بلکہ اس کے فہم و شعور کو بھی مقصد بناتی ہے۔ 

2۔ براہِ راست تخاطب کا اسلوب: قرآن اپنے قارئین و سامعین کو براہِ راست مخاطب کرتا ہے۔ اس میں ایسا خطیبانہ جلال ہے جو دل پر اثر انداز ہوتا ہے: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ"، "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا" یہ اسلوب قاری کو محض سننے والا نہیں بلکہ مخاطَب بنا دیتا ہے، اور یہی خطاب کا کمال ہے۔

3۔ صوتی حسن، قوافی اور آہنگ: قرآن کی آیات میں ایک خاص صوتی ترتیب اور آہنگ ہے جو قاری و سامع کو وجد میں لے آتی ہے۔ "وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ * وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ" (الطارق: 11-12) ان آیات میں نہ صرف صوتی ہم آہنگی ہے بلکہ ایک تخیلاتی تصویر بھی ابھرتی ہے جو قاری کو قدرت کے رازوں میں لے جاتی ہے۔

4۔ تشبیہات، استعارات اور تمثیلات: قرآن میں تشبیہات اور استعارے صرف فکری تاثر نہیں دیتے بلکہ ایک جمالیاتی تجربہ عطا کرتے ہیں۔ "مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ" (النور: 35) یہ آیت نہ صرف اللہ کے نور کی وضاحت کرتی ہے بلکہ ایک لطیف، تجریدی منظر نگاری بھی پیش کرتی ہے۔

اسی طرح: "وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً" (البقرہ: 171) یہ تشبیہ فکری گمراہی کو اتنے گہرے اسلوب میں بیان کرتی ہے کہ قاری دم بخود رہ جاتا ہے۔

5۔ تکرار کا جمال: تکرار قرآن میں صرف تاکید یا اعادہ نہیں، بلکہ جذباتی، نفسیاتی اور روحانی اثر کو گہرا کرنے کا ہنر ہے: "فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ" (الرحمن) بار بار آنے والا یہ جملہ ہر بار ایک نیا زاویہ، ایک نیا احساس اور شکرگزاری کی ایک نئی سطح پیدا کرتا ہے۔

6۔ ایجاز و اختصار: قرآن کی کئی آیات مختصر ہونے کے باوجود ایک وسیع مفہوم رکھتی ہیں: "وَالْعَصْرِ * إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ" (العصر) یہ دو آیات انسانی تاریخ، وقت کی اہمیت اور اخلاقی انجام کو سمیٹ کر پیش کرتی ہیں۔

7۔ تنوعِ اسلوب: قرآن کا اسلوب مختلف مقامات پر مختلف انداز اختیار کرتا ہے: کبھی نرم لہجہ، کبھی جلالی انداز۔ "قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ" (الزمر: 53) یہاں ایک گناہگار کو امید کی نوید دی گئی ہے۔ جبکہ: "خُذُوهُ فَغُلُّوهُ * ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ" (الحاقہ: 30-31) یہاں گناہگار کا انجام لرزا دینے والے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

8۔ ڈرامائی منظر نگاری اور تاثرات: قرآن کئی مقامات پر ڈرامائی اور بصری انداز میں مناظر پیش کرتا ہے: "فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي" (النمل: 40) یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کا منظر ہے جہاں تخت بلقیس پلک جھپکتے پہنچا دیا جاتا ہے، اور منظر قاری کے ذہن میں مجسم ہو جاتا ہے۔

9۔ سوالیہ اور تجزیاتی انداز: قرآن میں کئی مقامات پر سوالیہ انداز اختیار کیا گیا ہے جو قاری کو غور و فکر پر مائل کرتا ہے: "أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ؟" (محمد: 24) یہ سوال صرف تنقید نہیں، ایک فکری دعوت ہے، کہ قرآن صرف تلاوت کے لیے نہیں، تدبر کے لیے ہے۔

خلاصہ کلام :  قرآن مجید کا ادبی اسلوب ایک ایسا الہامی معجزہ ہے جو انسانی کلام کی حدود سے ماورا ہے۔ اس کی فصاحت، بلاغت، صوتی آہنگ، تشبیہات، جذباتی گہرائی اور فکری وسعت ایک ایسی ادبی کائنات تشکیل دیتی ہیں جس کا ہر حرف قاری کو روحانی ارتقاء کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ کلام ایک معجزہ ہے، ایک جمالیاتی تجربہ، اور ایک لازوال ادبی شاہکار — جو ہمیشہ رہے گا، ہمیشہ چمکے گا۔