جہنم: قرآن کے آئینے میں

قرآنِ مجید ہدایت کی کتاب ہے۔ وہ انسان کو صرف اچھائی کی دعوت نہیں دیتا بلکہ برائی کے انجام سے خبردار بھی کرتا ہے۔ ان انجاموں میں سب سے خوفناک انجام "جہنم" ہے — ایک ایسی جگہ جہاں بندہ اپنے اعمال کے حساب کا تلخ پھل چکھتا ہے۔ قرآن مجید نے بارہا جہنم کا ذکر کیا ہے، نہ صرف ڈرانے کے لیے بلکہ انسان کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے۔

1. جہنم کا مفہوم اور اس کے نام

"جہنم" کا لفظ عربی میں "گہرے، اندھیرے، اور بھڑکتی آگ" کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن نے اس کی کئی صورتیں اور نام ذکر کیے ہیں:

  • جہنم: عمومی نام، ہر نافرمان کے لیے

  • سعیر: بھڑکتی آگ

  • سقر: ایسی آگ جو جِلد کو جلا کر رکھ دے

  • لظیٰ: دہکتی ہوئی، شعلہ زن آگ

  • ہاویہ: گہرائیوں میں گرنے والی آگ

  • جحیم: تیز شعلوں والی آگ

”كَلَّا إِنَّهَا لَظَىٰ، نَزَّاعَةً لِّلشَّوَىٰ“
"ہرگز نہیں! وہ تو دہکتی ہوئی آگ ہے، جو کھال اتار لینے والی ہے۔" (الماعون: 15-16)

2. جہنم کے دروازے اور درجات

قرآن کے مطابق جہنم کے سات دروازے ہیں:

"وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ، لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ، لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ"
"اور یقیناً جہنم ان سب کا وعدہ کیا گیا مقام ہے۔ اس کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک حصہ مقرر ہے۔" (الحجر: 43-44)

یہ دروازے مختلف گناہوں کے اعتبار سے تقسیم ہیں — کچھ منافقین کے لیے، کچھ کفار کے لیے، اور کچھ ان ظالموں کے لیے جنہوں نے دین کی روشنی کے باوجود ظلم کا راستہ اپنایا۔

3. جہنم میں موجود اذیتیں

قرآن جہنم کو صرف ایک "آگ" نہیں کہتا، بلکہ اسے ایک جاندار، حسّاس، اور غضبناک وجود کی طرح بیان کرتا ہے:

"إِذَا رَأَتْهُم مِّن مَّكَانٍۢ بَعِيدٍۢ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًۭا وَزَفِيرًۭا"
"جب وہ (جہنم) انہیں دور سے دیکھے گی، تو وہ اس کا غصے اور چنگھاڑ کا شور سنیں گے۔" (الفرقان: 12)

جہنم چیخے گی، بولے گی، اور سوال کرے گی:

"يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ ٱمْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍۢ"
"جس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے: 'کیا تُو بھر گئی؟' وہ کہے گی: 'کیا کچھ اور ہے؟'" (ق: 30)

اہلِ جہنم کو پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی، کھانے کو زقوم کا درخت، اور سایہ بھی ایسا کہ جو دھوئیں سے بھرا ہوا ہوگا۔

"إِنَّ شَجَرَتَ ٱلزَّقُّومِ، طَعَامُ ٱلْأَثِيمِ"
"یقیناً زقوم کا درخت، گناہگاروں کا کھانا ہے۔" (الدخان: 43-44)

4. اہلِ جہنم کے نفسیاتی اور روحانی عذاب

قرآن صرف جسمانی اذیتوں کا ذکر نہیں کرتا، بلکہ جہنم میں انسان کی روحانی اور نفسیاتی حالت کو بھی نمایاں کرتا ہے:

  • پچھتاوا

  • شرمندگی

  • حسرت

  • فریاد

  • تنہائی

"رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَٱرْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـٰلِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ"
"اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا، سن لیا؛ اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، بےشک ہم یقین لائے!" (السجدہ: 12)

لیکن جواب آئے گا:

"اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ"
"خاموش ہو جاؤ اس میں، اور مجھ سے بات نہ کرو!" (المؤمنون: 108)

5. جہنم کا سب سے بڑا سبب: تکبر اور حق سے انکار

قرآن کے مطابق جہنم میں جانے کا سب سے بنیادی سبب ہے تکبر اور حق کو جھٹلانا۔

"سَأَصْرِفُ عَنْ ءَايَـٰتِىَ ٱلَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِى ٱلْأَرْضِ"
"میں اپنی آیات سے ان کو پھیر دوں گا جو زمین میں تکبر کرتے ہیں۔" (الاعراف: 146)

ابلیس، فرعون، اور دیگر کردار اس لیے جہنم میں گئے کہ انہوں نے "علم کے باوجود" حق کو جھٹلایا۔

6. اہلِ جہنم کی آپس کی گفتگو

قرآن نے ہمیں جہنم کی "گفتگو" سنائی ہے۔
وہاں قیدی ایک دوسرے پر الزام لگائیں گے:

"رَبَّنَا هَـٰٓؤُلَآءِ أَضَلُّونَا فَـَٔاتِهِمْ عَذَابًۭا ضِعْفًۭا"
"اے ہمارے رب! یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا، تو انہیں دوہرا عذاب دے!" (الاعراف: 38)

اور اہلِ جنت ان پر ہنسیں گے:

"فَٱلْيَوْمَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنَ ٱلْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ"
"آج اہلِ ایمان کفار پر ہنس رہے ہوں گے۔" (المطففین: 34)

7. نجات کا راستہ: جہنم سے بچاؤ کے ذرائع

قرآن ہمیں جہنم سے بچنے کے ذرائع بھی سکھاتا ہے:

  • ایمان:

    "إِلَّا مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ صَـٰلِحًۭا"

  • تقویٰ:

    "وَسَيُجَنَّبُهَا ٱلْأَتْقَى"

  • ذکر و دعا:

    "رَبَّنَا ٱصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ" (الفرقان: 65)

  • حقوق العباد:

    "نماز، روزہ، حج" کافی نہیں — جب تک دل صاف، زبان درست، اور لوگوں کے حق ادا نہ کیے جائیں۔

جہنم کا تصور محض ڈرانے کے لیے نہیں، بیدار کرنے کے لیے ہے۔
قرآن ہمیں بار بار جھنجھوڑتا ہے کہ:

"فَأَنذَرْتُكُمْ نَارًۭا تَلَظَّىٰ"
"میں تمہیں ایک بھڑکتی ہوئی آگ سے خبردار کر رہا ہوں!" (اللیل: 14)

ہم میں سے ہر ایک کے پاس وقت ہے —
توبہ، ندامت، اور اصلاح کا۔

کیونکہ جہنم کا راستہ دل کی اندھیری گلی سے شروع ہوتا ہے —
اور نجات کا راستہ دل کے روشن گوشے سے۔