آیت "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کا تعارف :
تفسیر : (1)۔ اس آیت کی تاریخی حیثیت :۔
قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا مضمون بہت قدیم زمانہ سے اہل مذاہب میں نقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہ فصیح و بلیغ الفاظ تو ممکن ہے پہلی مرتبہ قرآن مجید ہی میں نازل ہوئے ہوں، لیکن جہاں تک اس کے مضمون کا تعلق ہے یہ کسی کام کے آغاز و افتتاح کے لیے اس قدر موزونیت و مناسبت رکھتا ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعلیم انسان کو بالکل شروع ہی میں دی ہوگی۔ چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق خود قرآن مجید میں یہ نقل ہے کہ انہوں نے اپنے باایمان متعلقین اور اپنے ساتھیوں کو جب کشتی میں سوار کرایا تو اس وقت اسی سے ملتے جلتے الفاظ کہے ’’ وَقَالَ ارْكَبُوْا فِيْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖۓىهَا وَمُرْسٰىهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ‘‘ (ھود :41)، اور اس نے کہا کہ اس میں سوار ہوجاؤ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا، بے شک میرا رب بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکۂ سبا کو جو نامہ کھا، اس کا آغاز بھی انہی مبارک کلمات سے کیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے :’’ اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘ (نمل :30): یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور اس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوا ہے۔ (2)۔ یہ آیت دعا ہے۔ یہ کلام خبریہ نہیں ہے بلکہ سورۂ فاتحہ کی طرح، جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا۔ یہ دعا ہے۔ ایک سلیم الفطرت آدمی کے دل کی یہ ایک فطری صدا ہے جو ہر قابل ذکر کام کرتے وقت اس کی زبان سے نکلنی چاہئے۔ اسی فطری صدا کو وحیِ الٰہی نے الفاظ کا جامہ پہنا دیا ہے اور ایسا خوبصورت جامہ پہنایا ہے کہ اس سے زیادہ خوبصورت جامہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی کام کرنے سے پہلے جب یہ دعا ارادہ اور شعور کے ساتھ زبان سے نکلتی ہے تو اول تو پہلے ہی قدم پر انسان کو متنبہ کردیتی ہے کہ جو کام وہ کرنے جا رہا ہے وہ کام بہرحال خدا کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کی پسند کے مطابق اور اس کے احکام کے تحت ہونا چاہئے۔ ثانیاً وہ اس دعا کی برکت سے خدا کی دو عظیم صفتوں۔ رحمن اور رحیم۔ کا سہارا حاصل کرلیتا ہے۔ یہ دونوں صفتیں اس بات کی ضمانت ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کام میں اس کو برکت عطا فرمائے، اس کے اختیار کرنے میں اگر اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہے تو اس کے وبال سے اس کو محفوظ رکھے۔ اس کو نباہنے اور تکمیل تک پہنچانے کی اس کو قوت وہ ہمت دے، شیطان کی چالوں اور فریبوں سے اس کو امان میں رکھے اور دنیا میں بھی اس کام کو اس کے لیے نافع اور بابرکت بنائے اور آخرت میں بھی یہ اس کے لیے رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ بنے جو کام اس دعا کے بغیر کیا جاتا ہے وہ ان تمام برکتوں سے خالی ہوتا ہے اس وجہ سے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو کام ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت ہے ۔
بسم اللہ کی یہ برکتیں تو ہر کام کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں لیکن خاص قرآن کی تلاوت کا آغاز اس دعا سے کرنے میں کچھ اور پہلو بھی ہیں جو پیش نظر رکھنے چاہئیں۔ ایک یہ کہ ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘ سے قرآن مجید کی تلاوت کا آغاز کر کے بندہ اس حکم کی تعمیل کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بالکل ابتدائی وحی نازل کرتے وقت ہی دیا تھا ’’ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَق‘‘ (العلق :1) (اپنے خداوند کے نام سے پڑھ، جس نے پیدا کیا)۔ دوسرا یہ کہ یہ مبارک کلمہ اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے اس کو نطق اور گویائی کی نعمت عطا فرمائی جس کی بدولت وہ قرآن کی نعمت کا مستحق بن سکا۔ اس حقیقت کی طرف اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمان اشارہ کر رہی ہے جس کا اس آیت میں حوالہ ہے۔ ایک دوسری جگہ یہ بات تصریح کے ساتھ کہی گئی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا، اس کو نطق کی قابلیت عطا فرمائی اور اس کو قرآن کی تعلیم دی۔ فرمایا ہے : ’’اَلرَّحْمٰنُعَلَّمَ الْقُرْاٰنَخَلَقَ الْاِنْسَانَعَلَّمَهُ الْبَيَانَ‘‘ (الرحمن :1-4)۔ (خدائے رحمان نے قرآن سکھایا، اس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو گویائی کی تعلیم دی)۔ تیسرا یہ کہ یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید سے متعلق ایک خاص پیشین گوئی کی تصدیق کر رہی ہے جس کی سند پچھلے آسمانی صحیفوں میں موجود ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ خلقِ خدا کو جو تعلیم دیں گے وہ اللہ کا نام لے کر دیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پانچویں کتاب باب 18-19 میں یہ الفاظ وارد ہیں ’’ میں ان کے لیے انہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا‘‘۔ چوتھا یہ کہ جس طرح قرآن مجید خدا کی صفت رحمانیت کا مظہر ہے اسی طرح اس کی صفت رحمانیت ہی ہے جو قرآن کے فتح باب کی کلید ہے، اسی سے اس کے بند دروازے کھلیں گے، اسی سے اس کی مشکلیں آسان ہوں گی، اسی منبعِ فیض سے قاری پر معانی وحقائق کا فیضان ہوگا اور اسی کے سہارے وہ کجی و گمراہی اور نفس اور شیطان کی آفتوں سے محفوظ رہے گا۔ (3)۔ آیت کے اسمائے حسنی :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے تین ناموں کا ذکر آیا ہے۔ ’’ اللہ۔ رحمان۔ رحیم‘‘۔ مختصراً ان کے مفہوم بھی سمجھ لینے چاہئیں۔ ’’ اللہ‘‘: اللہ کا نام لفظ ’’ اِلٰہ‘‘ پر الف لام تعریف داخل کر کے بنا ہے۔ یہ نام ابتداء سے صرف اس خدائے برتر کے لیے خاص رہا ہے جو آسمان و زمین اور تمام مخلوقات کا خالق ہے۔ نزول قرآن سے پہلے عرب جاہلیت میں بھی اس کا یہی مفہوم تھا۔ اہل عرب مشرک ہونے کے باوجود اپنے دیوتاؤں میں سے کسی کو بھی خدا کے برابر قرار نہیں دیتے تھے۔ ان کو اس بات کا اقرار تھا کہ آسمان و زمین اور تمام مخلوقات کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، اسی نے سورج اور چاند بنائے ہیں، اسی نے ان کو مسخر کیا ہے اور وہی پانی برسانے والا اور روزی دینے والا ہے۔ دوسرے دیوتاؤں کی پرستش وہ محض اس غلط گمان کی بنا پر کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں اور اس کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے یہ خیالات نہایت تفصیل کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔ ہم اختصا کے خیال سے یہاں صرف دو تین آیتیں نقل کرتے ہیں۔ ’’ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى‘‘ (زمر :3) (ہم نہیں پوجتے ان کو مگر اس لیے کہ یہ اللہ سے ہم کو قریب کریں)۔ ’’ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۔ اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم۔ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ‘‘ (عنکبوت :61-63): (اگر تم ان سے پوچھو کس نے بنایا آسمانوں اور زمین کو اور مسخر کیا سورج اور چاند کو ؟ کہیں گے، اللہ نے۔ پھر کہا ان کی عقل الٹ جاتی ہے ! اللہ ہی روزی میں وسعت دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور تنگ کردیتا ہے اس کے لیے۔ اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ اور اگر ان سے پوچھو کس نے اتارا بادل سے پانی، پھر زندہ کی اس سے زمین اس کے خشک ہونے کے بعد، کہیں گے، اللہ نے)۔ اسی طرح تمام قوتوں اور قابلیتوں، تمام زندگی اور موت اور کائنات کے تمام انتظام و انصرام کا حقیقی منبع اور مرکز بھی وہ اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ ’’ قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ‘‘ (یونس :31): (ان سے پوچھو تم کو کون روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے یا کون اختیار رکھتا ہے تمہارے سمع و بصر پر اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے اور کون سارے معاملہ کا انتظام کرتا ہے ؟ جواب دیں گے، اللہ، پھر پوچھو تو اس اللہ سے ڈرتے نہیں ؟ ) ۔
رحمان اور رحیم :۔ اسم رحمان، غَضْبَان اور سَکْرَان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اور اسم رحیم، علیم اور کریم کے وزن پر صفت کا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’ رحیم‘ کے مقابل میں ’ رحمان‘ میں زیادہ مبالغہ ہے اس وجہ سے ’ رحمان‘ کے بعد ’ رحیم‘ کا لفظ ان کے خیال میں ایک زائد لفظ ہے جس کی چنداں ضرورت تو نہیں تھی لیکن یہ تاکید مزید کے طور پر آگیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان کے استعمالات کے لحاظ سے فَعْلان کا وزن جوش و خروش اور ہیجان پر دلیل ہوتا ہے اور فعیل کا وزن دوام واستمرار اور پائیداری و استواری پر۔ اس وجہ سے ان دونوں صفتوں میں سے کوئی صفت بھی برائے بیت نہیں ہے بلکہ ان میں سے ایک خدا کی رحمت کے جوش و خروش کو ظاہر کر رہی ہے، دوسری اس کے دوام و تسلسل کو، غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ خدا کی رحمت اس خلق پر ہے بھی اسی نوعیت۔ اس میں جوش ہی جوش نہیں ہے، بلکہ پائیداری اور استقلال بھی ہے۔ اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ اپنی رحمانیت کے جوش میں دنیا پیدا تو کر ڈالی ہو لیکن پیدا کر کے پھر اس کی خبر گیری اور نگہداشت سے غافل ہوگیا ہو بلکہ اس کو پیدا کرنے کے بعد وہ اپنی پوری شان رحیمیت کے ساتھ اس کی پرورش اور نگہداشت بھی فرما رہا ہے۔ بندہ جب بھی اسے پکارتا ہے وہ اس کی پکار سنتا ہے اور اس کی دعاؤں اور التجاؤں کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔ پھر اس کی رحمتیں اسی چند روزہ زندگی ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ جو لوگ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے ان پر اس کی رحمت ایک ایسی ابدی اور لازوال زندگی میں بھی ہوگی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ ساری حقیقت اس وقت تک ظاہر نہیں ہوسکتی جب تک یہ دونوں لفظ مل کر اس کو ظاہر نہ کریں ۔
(4)۔ قرآن میں اس آیت کی جگہ :۔
اس آیت سے متعلق ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں اس کی اصل جگہ کہاں ہے ؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ یوں تو یہ ہر سورۃ کے شروع میں (سورۂ توبہ کے سوا) ایک مستقل آیت کی حیثیت سے لکھی ہوئی ہے لیکن کسی سورۃ میں بھی (سوائے سورۂ نمل) بظاہر اس کے ایک جزو کی حیثیت سے یہ شامل نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ یہ کسی خاص سورۃ کا حصہ بھی ہے یا ہر سورۃ کے اوپر یہ صرف بطور ایک متبرک آغاز اور ایک علامت امتیاز کے ثبت ہے۔ مدینہ، بصرہ اور شام کے قراء اور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ یہ قرآن کی سورتوں میں سے کسی سورۃ کی بھی (بشمول سورۂ فاتحہ) آیت نہیں ہے بلکہ ہر سورۃ کے شروع میں اس کو محض تبرک اور ایک علامتِ فصل کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اس سے ایک سورۃ دوسری سورۃ سے ممتاز بھی ہوتی ہے اور قاری جب اس سے کسی سورۃ کا افتتاح کرتا ہے تو اس سے برکت بھی حاصل کرتا ہے۔ یہی مذہب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ اس کے برعکس مکہ اور کوفہ کے فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ یہ سورۂ فاتحہ کی بھی ایک آیت ہے اور دوسری سورتوں کی بھی ایک آیت ہے۔ یہ مذہب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب کا ہے۔ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ اس کو سورۂ فاتحہ کی ایک آیت اور دوسری سورتوں کے لیے بمنزلہ فاتحہ مانتے ہیں۔ مجھے قوی مذہب قرائے مدینہ کا معلوم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصحف کی موجودہ ترتیب تمام تر وحی الٰہی کی رہنمائی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات کے تحت عمل میں آئی ہے اور بسم اللہ کی کتابت بھی اسی ترتیب کا ایک حصہ ہے۔ اس ترتیب میں جہاں تک بسم اللہ کے لکھے جانے کی نوعیت کا تعلق ہے سورۂ فاتحہ اور غیر سورۂ فاتحہ میں کسی قسم کا فرق نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہر سورۃ کے آغاز میں اس کو ایک ہی طرح درج کیا گیا ہے۔ اس کی حیثیت سورۃ سے الگ ایک مستقل آیت کی نظر آتی ہے ۔
-----------------------------------------------
(تدبر قرآن جلد اول ۔ از مولانا امین احسن اصلاحی )