خلافت اور اس کے تقاضے

 خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی کے بعد اس کے معاملات سر انجام دینے کے لیے اس کی جگہ لے۔ اس وجہ سے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے زمین میں کس کا خلیفہ بنانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ اپنا یا زمین میں بسنے والی کسی پیشرو مخلوق کا ؟ ایک رائے یہ ہے کہ انسان سے پہلے زمین میں جنات آباد تھے، جب انہوں نے اس میں فساد مچایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پراگندہ و منتشر کردیا اور ان کی خلافت بنی نوع انسان کے سپرد فرمائی۔

 دوسری رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں خود اپنا خلیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ پہلی رائے اگرچہ بالکل بے بنیاد تو نہیں کہی جا سکتی لیکن قرآن یا تورات یا کسی قابل اعتماد حدیث میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ انسان سے پہلے زمین میں جنات کی حکمرانی تھی، اس کی تائید میں اگر کوئی چیز پیش کی جاسکتی ہے تو اس کی حیثیت اشارہ و کنایہ سے زیادہ نہیں ہے اور محض کسی اشارہ و کنایہ پر ایک حقیقت کی بنیاد رکھ دینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ دوسری رائے مختلف اعتبارات سے قوی معلوم ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے انسان کی فضیلت کے بہت سے پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی ہیں، فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں، نیز اس کے بارے میں فرمایا کہ جو امانت آسمان اور زمین اٹھانے سے قاصر رہے اس کو انسان نے اٹھا لیا۔ 

یہ ساری باتیں اس امر کے حق میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہو۔ لیکن ان تمام دلائل کے باوجود ایک سوال اس رائے سے متعلق بھی پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ خلیفہ تو اس کو مقرر کرنے کی ضرورت پیش آیا کرتی ہے جو غائب یا غیر حاضر ہوتا ہو، خدا تو نہ کبھی غائب ہوتا ہے نہ غیر حاضر، آسمان و زمین ہر جگہ اس کی حکومت ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ پھر اس کے کسی کو خلیفہ مقرر کرنے کے کیا معنی ؟ یہ سوال ہمارے نزدیک کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلیفہ بنانے کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو زمین کے انتظام و انصرام کے معاملہ میں کچھ اختیارات دے کر یہ دیکھے گا کہ انسان ان اختیارات کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے یا خلافت پا کر وہ مطلق العنان بن جاتا ہے اور اپنی من مانی کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ گویا اصل حکمران کی طرف سے ایک نائب مقرر کیے جانے کی شکل ہوئی اور اس نائب کے تقرر کی ضرورت یہ نہیں تھی کہ اصل حکمران کو غائب یا غیر حاضر ہونا تھا بلکہ اس نائب کو کچھ اختیارات دے کر مقصود اس کی اطاعت و وفاداری کا امتحان کرنا تھا۔

خلافت اور اس کے مقتضیات 

 ان آیات (سورہ البقرہ : 30 تا 39 ) سے پہلی حقیقت تو یہ واضح ہوتی ہے کہ انسان کی حیثیت اس دنیا میں خدا کے خلیفہ اور نائب کی ہے۔ یہ بات قرآن مجید کے الفاظ میں نہایت واضح طور پر کہی گئی ہے۔ اس خلافت و نیابت کی حقیقت پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس کے کچھ لازمی تقاضے ہیں جن کے پورے ہوئے بغیر خلافت کا تصور مکمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے نزدیک یہ تقاضے بالاجمال یہ ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو ایک خاص دائرے کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار تفویض ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ذات خود ہر جگہ حاضر و ناظر ہو، جو ہر قسم کے تصرف پر خود پوری پوری قدرت رکھتی ہو، جو کسی کی مدد اور کسی کی اعانت کی محتاج نہ ہو، جس کو ایک پل کے لیے بھی اپنی مملکت کے امور و معاملات سے دستکش یا غیر حاضر ہونے کی ضرورت پیش نہ آتی ہو، اس کی طرف سے کسی کو اپنا خلیفہ یا نائب بنانے کے معنی اس کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتے کہ وہ اپنے خلیفہ کو کچھ اختیارات دے کر یہ امتحان کرنا چاہتی ہے کہ یہ ان اختیارات کو کس طرح استعمال کرتا ہے، ان کو اپنے مُستَخلِف کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے یا اس کی مرضی سے بے پروا ہو کر اپنی من مانی کرنے لگ جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جب انسان خلیفہ اور نائب ہے تو یہ عین اس کی خلافت اور نیابت کا اقتضا ہے کہ مستخلف کی طرف سے اس کی آزادی کے حدود معین و معلوم ہوں، اس کو واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہو کہ کن امور میں اس کو مستخلف کے مقرر کردہ حدود کی پابندی کرنی ہے اور کن امور میں اس کو اپنی صوابدید پر عمل کرنے کی آزادی بخشی گئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی تعبیر اگر کی جائے تو یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ عین خلافت و نیابت کی فطرت کا اقتضا ہے کہ انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے خدا کی طرف سے شریعت و ہدایت نازل ہو۔ تیسرا یہ کہ جب انسان خدا کا خلیفہ اور نائب ہے تو اس کے مطلق العنان اور غیر مسئول ہونے کا تصور بنیادی طور پر غلط ہے۔ کوئی صاحب قدرت اور علیم وخبیر مستخلف اپنے خلیفہ کو شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ لازما اپنے خلیفہ کی ایک ایک بد دیانتی اور ایک ایک خیانت پر اس سے مواخذہ بھی کرے گا اور اگر اس نے اپنے فرائض صحیح طور پر انجام دیے ہوں گے تو اس کو اس کی خدمات کا بھر پور صلہ بھی دے گا۔ چوتھا یہ کہ عین منصب خلافت کی فطرت کا تقاضا ہے کہ یہ منصب صفات کے ساتھ مشروط ہو۔ غیر مشروط نہ ہو۔ یعنی منشائے خلقت کے لحاظ سے تو یہ منصب تمام بنی نوع انسان کے لیے عام ہے۔ ہر انسان خدا کا خلیفہ ہے، لیکن یہ اس منصب کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کے جائز حقدار وہی ہوں جو خدا کی خلافت کے حق کو وفاداری کے ساتھ ادا کریں، جو اس حق کو ادا نہ کریں وہ خدا کے خلیفہ نہیں بلکہ اس کے باغی اور غدار ہیں۔  پانچواں یہ کہ یہ منصب اپنے مزاج کے لحاظ سے صرف ایک انفرادی منصب نہیں ہے بلکہ ایک اجتماعی اور سیاسی منصب بھی ہے۔ تمام انسانوں کو یا کم از کم ان سارے لوگوں کو جو اس منصب کی ذمہ داریوں پر ایمان رکھتے ہیں، انفرادی طور پر بھی اس منصب کے فرائض پورے کرنے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی اس کے مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے ایک نظام قائم کرنا ہے کیونکہ اس نظام کے بغیر اس کے مقاصد پورے نہیں ہوسکتے۔ چھٹا یہ کہ یہ خلافت خیر وفلاح کی ضامن اس وقت تک رہ سکتی ہے جب تک یہ اصل مستخلف کے احکام و ہدایات کے مطابق چلائی جائے۔ اگر اس کے احکام کو پس پشت ڈال کر انسان اس کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانے کی کوشش کرے گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس زمین میں خونریزی اور فساد برپا ہو۔

دوسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ انسان کو جب اللہ تعالیٰ نے یہ درجہ دیا ہے کہ فر شتوں نے اس کو سجدہ کیا اور ابلیس اس کو سجدہ نہ کرنے ہی کے سبب سے ملعون ہوا تو یہ بات کسی طرح اس کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ جنات یا فرشتوں میں سے کسی کو خدا شریک سمجھ کر ان  کی پرستش کرے۔ جہاں تک خدا کا تعلق ہے اس کے آگے جس طرح انسان عاجز و بے بس ہے اسی طرح فرشتے اور جنات بھی عاجز و بے بس ہیں۔ ان کے پاس جو علم ہے وہ بھی خود ان کا اپنا ذاتی نہیں بلکہ تمام تر اللہ ہی کا عطا کردہ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انسان علم میں فرشتوں سے بھی بازی لے جا سکتا ہے اس وجہ سے بندگی اور پرستش کا حقیقی حق دار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ انسان اگر حق میں جنوں اور فرشتوں کو بھی شریک کرتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی توہین نہیں کرتا بلکہ خود اپنی بھی توہین کرتا ہے ۔

تیسری حقیقت ان آیات سے یہ واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے کوئی مجرم اور فسادی وجود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو نہایت اچھی صلاحیتوں اور نہایت اعلی قابلیتوں کے ساتھ پیدا کیا یہ اگر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ یہ کوئی ازلی و ابدی گناہگار ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اختیار کی اس نعمت کو جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو مشرف فرمایا ہے، غلط استعمال کرنے کے فتنہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس فتنہ میں اس کو شیطان مبتلا کرتا ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی وسیع آزادی پر جو پابندیاں عائد کردی ہیں، شیطان انسان کو ورغلاتا ہے کہ پس یہی پابندیاں ہیں جو اس کے سارے عیش وآرام کو کرکرا کیے ہوئے ہیں، اگر وہ ان کو جرات کر کے توڑ ڈالے تو بس اس کے لیے ترقی و کمال اور عیش و آرام کے تمام دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ شیطان کے ان مشوروں کا فائدہ چوں کہ انسان کو نقد نقد نظر آتا ہے اس وجہ سے وہ اس کے چکمے میں آجاتا ہے اور اپنی فطرت کے اعلی تقاضوں کے خلاف گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس گناہ سے اس کو پاک کرنے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے توبہ اور اصلاح کی راہ کھولی ہے۔ چناچہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے جو لغزش صادر ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ کے بعد وہ معاف کردی۔ اس کے بعد ان کو اس دنیا میں جو بھیجا تو اس کی وجہ حضرت آدم کو معتوب ہونا نہیں ہے بلکہ محض ان کا امتحان ہے تاکہ وہ شیطان کے مقابل میں اپنی اعلی صلاحیتوں کا ثبوت دیں اور اس کے صلہ میں اس جنت کو پھر حاصل کریں جس سے وہ نکالے گئے۔

قرآن کے اس بیان سے عیسائیوں کے اس خیال کی پوری پوری تردید ہوجاتی ہے جو آدم کے ازلی و ابدی گنہگار ہونے سے متعلق ان کے ہاں پایا جاتا ہے اور جس کے حل کے لیے انہوں نے کفارہ کا عقیدہ گھڑا ہے۔

چوتھی حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ خدا کی ہر بات کے اندر نہایت گہری حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہے لیکن ان تمام حکمتوں اور مصلحتوں سے جب تک اللہ تعالیٰ ہی واقف نہ کرے نہ ان سے جنات واقف ہو سکتے ہیں نہ فرشتے اور نہ انسان۔ اللہ تعالیٰ کے کاموں کے بارے میں صحیح روش انسان کے لیے یہ ہے کہ ان کی حکمتیں معلوم کرنے کی کوشش تو برابر کرتا رہے لیکن اگر کسی چیز کی حکمت اس کی سمجھ میں نہ آئے تو اس کو ہدف اعتراض و مخالفت نہ بنا لے بلکہ یہ حسن ظن رکھے کہ اس کے اندر ضرور کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی لیکن اپنے علم کی کمی کے سبب سے وہ اس حکمت کو سمجھ نہیں سکا ہے۔ یہی روش اختیار کر کے انسان ایمان واسلام کے جادہ پر استوار رہ سکتا ہے اور یہی روش فرشتوں کی روش ہے۔ رہے وہ لوگ جو اپنے نہایت قلیل اور محدود علم کو خدا کے علم اور اس کی حکمتوں کے ناپنے کا پیمانہ بنا بیٹھے ہیں تو وہ اسی قسم کی خود سری اور انانیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس قسم کی خود سری اور انانیت میں ابلیس مبتلا ہوگیا۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے ایمان ومعرفت کے راستے کھلتے نہیں بلکہ جو راستے کھلے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھی بند ہوجایا کرتے ہیں۔ 

 پانچویں حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ جو گناہ انسان کے محض ارادہ کی کمزوری سے صادر ہوتا ہے اس کا مزاج اس گناہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے جس کا سرچشمہ حسد اور تکبر ہوتا ہے۔ ضعف ارادہ سے صادر ہوجانے والے گناہ کے بعد بعد توبہ اور اصلاح حال کی توقع بہت غالب ہوتی، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو، اگر وہ بالکل ہی اپنے آپ کو چھوڑ نہیں بیٹھتے ہیں، سنبھالتا ہے اور ان کی رہنمائی صراط مستقیم کی طرف کرتا ہے۔ برعکس اس کے جو لوگ حسد اور تکبر کی بنا پر خدا کی نافرمانی کرتے ہیں ان کی بیماری بہت ہی سخت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اصلاح پذیر ہونے کے بجائے بالعموم اپنے مرشد۔ ابلیس۔ ہی کی راہ پر جیتے اور اسی پر مرتے ہیں۔ حضرت آدم کا گناہ پہلی قسم کا تھا اس وجہ سے وہ توبہ اور اصلاح سے محروم رہا اور اس پر اللہ کی لعنت ہوئی۔

 چھٹی حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ چوں کہ اللہ تعالی نے شیطان کو انسان کے بہکانے کی مہلت دے کر انسان کو اس دنیا میں ایک سخت امتحان میں ڈالا ہے اس وجہ سے اس کی رحمت مقتضی ہوئی کہ وہ انسان کی ہدایت اور اصلاح کے معاملہ کو تنہا اس کی عقل و فطرت ہی پر نہ چھورے بلکہ اس کی فطرت کو بیدار رکھنے اور اس کی عقل کو کجرویوں اور گمراہیوں سے بچانے کا بھی سامان کرے تاکہ جو ہدایت کی راہ اختیار کرنا چاہیں وہ بھی علی وجہ البصیرۃ اختیار کریں اور جو گمراہی کی راہ پر جانا چاہیں وہ بھی پوری طرح اتمام حجت کے بعد جائیں۔ نبوت ورسالت کے قیام سے اصل مقصود یہی چیز ہے اور اس امتحان گاہ عالم میں انسان کے لیے اصلی سرمایہ تسکین و تسلی در حقیقت یہی انبیا علیہم السلام کی تعلیمات ہیں۔ اگر یہ چیز انسان سے چھن جائے تو پھر انسان ہر فتنہ کا بڑی آسانی سے شکار ہوسکتا ہے کیوں کہ اس کی فطرت کے اندر جو خلا ہیں وہ صرف انبیا علیہم السلام کی تعلیم کی پیروی سے ہی بھر سکتے ہیں۔ اس کے بغیر انسان کے لیے شیطان کے فتنوں سے مامون ہونا ممکن نہیں ہے ۔

(حوالہ : تدبر قرآن  سورہ بقرہ آیات : 30-39 از مولانا امین احسن اصلاحی )