قصہ آدم علیہ السلام

آدم علیہ السلام  :
یہی سب سے پہلے بشر تھے، اسی لیے ابوالبشر کہلاتے ہیں۔ اور خلیفۃ اللہ کے اولین مصداق۔ جنت سے جب زمین پر آئے، تو غالبا دجلہ وفرات کے دو آبہ میں آباد ہوئے، جو اب ملک عراق کہلاتا ہے، توریت میں تین صاحبزادوں کا نام آتا ہے۔ ہابیل ،، قابیل، شیث (علیہ السلام)۔ توریت ہی کی حسب روایت عمر 930 سال کی پائی۔ عربی میں ان کا یہ نام کس مناسبت سے پڑا ؟ کسی نے کہا کہ زمین کی جلد (ادیم) سے پیدا ہوئے، اس لیے آدم کہلائے۔ کسی نے کہا کہ اپنی جلد کی سرخی کی بنا پر۔ خلق ادم من ادیم الارض فتسمی ادم (ابن جریر۔ عن سعید بن جبیر) قیل سمی بذلک لکونہ جسدہ من ادیم الارض وقیل بسمرۃ فی لونہ (راغب)

وعلم آدم الاسماء کلھا سے کیا مراد ہے ؟

 اسماء۔ اسم کا مفہوم عربی میں اردو کے نام سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ ا سم وہ ہے جس کے ذریعہ سے کوئی چیز جانی جائے، پہچانی جائے۔ اسم الشیء علامتہ (قاموس) الاسم مایعرف بہ ذات الشیء (راغب) اور یہ شناخت ممکن نہیں جب تک اعراض، خواص، آثار، کا علم بھی ساتھ ساتھ نہ ہو۔ اسی طرح اہل لغت نے بھی تشریح میں اس کا لحاظ رکھ لیا ہے۔ قال ابن سیدہ الاسم ھو اللفظ الموضوع علی الجوھر اوالعرض للتمییز اے لیفصل بہ بعضہ عن بعض (تاج)

 اسم کے ساتھ اگر مسمی کا علم نہ ہوا تو اسم محض ایک آواز کانوں تک رہے گی۔ اور ذہن کے سامنے کوئی مفہوم نہ پیدا ہوگا۔ علامہ راغب نے اسی لیے اس پر شرح وبسط سے کلام کرکے آخر میں کہا ہے، ان معرفۃ الاسماء لاتحصیل الا بمعرفۃ المسمی وحصول ؔ صورتہ فی الضمیر (کہ اسم کی معرفت بغیر مسمی کی معرفت اور ذہن میں اس کی تصویر کے ہو نہیں سکتی)۔  اور ایک دوسرے امام لغت نے اس کی داد، ان الفاظ میں دی ہے۔ ھو کلام نفیس (تاج) اور بعضوں نے کہا ہے کہ اسم مرادف ہے ذات شے اور عین شے کے۔ یقال ذات ونفس وعین واسم بمعنی (قرطبی) یہ تو لفظی معنی ہوئے۔ 

آیت کی تفسیر میں محققین نے مراد معلومات اشیا سے لی ہے۔ اور اسما کے ساتھ مسمیات اور ذوات وخواص واشیاء کو شامل کیا ہے۔ اور اشیاء کے اسماء سے مرادان کے آثار وخواص کا علم لیا ہے۔ فالمراد الانواع الثلاثۃ من الکلام وصورۃ المسمیات فی ذواتھا (راغب) علم ادم مسمیات الاسماء (کشاف) الھمہ معرفۃ ذوات الاشیاء وخواصھا واسماءھا واصول العلوم وقوانین الصناعات وکیفیۃ الاتھا (بیضاوی) علمہ صفات الاشیاء ونعوتھا وخواصھا (کبیر) صاحب تفسیر مظہری نے کہا کہ مراد اسماء سے اسماء الہی ہیں۔ انہیں کا علم اجمالی کا مل آپ کو مل گیا تھا، اور ہر اسم وصفت کے ساتھ ایسی مناسبت تامہ آپ کو پیدا ہوگئی تھی کہ آپ جس کسی اسم یا صفت کی طرف توجہ کرتے وہ اسم یا صفت فورا آپ پر متجلی ہوجاتی۔ مثلا جب اسم پاک الاول کی تجلی آپ پر ہوئی تو ہرگز ری ہوئی چیز آپ پر منکشف ہوگئی۔ اسی طرح جب اسم پاک الاخر کی تجلی ہوئی تو ہر آنے والی چیز معلوم ہوگئی، اور اسی پر قیاس سارے اسماء الہی کا کیا جاسکتا ہے۔ اللہ اکبر ! یہ مقام ہے انسان کی فضیلت کبری کا۔ حیف ہے کہ یہ خلیفۃ اللہ دیوتا پرستی، ملائکہ پرستی میں مبتلا ہوجائے !

(حوالہ : تفسیر ماجدی : سورہ بقرہ آیت: 31 ، از مولانا عبدا لماجد دریا بادی )