قرآن کی تفسیر کے لیے عمدہ اصول ( قاعدہ ۔۶)

 قاعدہ ۶: قرآن مجید میں توحید کے بیان اور اس کے مخالف کو رد کرنے کا طریقہ

پورا قرآن توحید کو ثابت کرنے اور اس کے مخالف کو رد کرنے کے لیے ہے۔ زیادہ تر آیات میں اللہ تعالیٰ توحیدِ الٰہیہ کو ثابت کرتا ہے، یعنی عبادت کو صرف اللہ کے لیے خالص کرنا، اور اس میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ تمام رسولوں کو بھیجنے کا مقصد یہی تھا کہ وہ اپنی قوموں کو اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ تمام کتابیں، تمام رسول اور حتیٰ کہ فطرت اور درست عقلیں بھی اس اصل پر متفق ہیں، جو کہ تمام اصولوں کا اصل ہے۔ اور جو شخص اس دین کو نہیں اپناتا، یعنی عبادت اور عمل کو صرف اللہ کے لیے خالص نہیں کرتا، اس کا عمل باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ} [الزمر: ٦٥] اور {وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} [الأنعام: ٨٨]۔

اللہ تعالیٰ بندوں کو اس بات کی طرف بھی دعوت دیتا ہے جو ان کی فطرت اور عقلوں میں موجود ہے، یعنی اللہ ہی ہے جو تخلیق اور تدبیر میں یکتا ہے، اور وہی ظاہری اور باطنی نعمتوں کا مالک ہے، اور اسی کی عبادت کا حق ہے۔ کسی دوسری ہستی کو عبادت میں شریک کرنا جائز نہیں، اور باقی مخلوق کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ خود کو پیدا کر سکے یا اپنے لیے کسی نفع یا نقصان کو دور کر سکے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کر سکیں۔

اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو ان صفات میں تمجید کے ساتھ ذکر کرتا ہے، جیسے اس کی عظمت، جلال، اور کمال، کہ جس کے پاس یہ کامل صفات ہیں، وہی واحد ہے جس کی عبادت صرف اور صرف اس کے لیے ہونی چاہیے، اور کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا کہ اللہ ہی واحد حکام ہے، اس کا حکم ہی نافذ ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ کسی اور کا حکم نہیں چل سکتا: {إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ} [يوسف: ٤٠]۔

اور کبھی اللہ تعالیٰ توحید کے محاسن ذکر کرکے، اور اس کے فوائد کو واضح کرکے اس کی اہمیت کو ثابت کرتا ہے، کہ یہی دین واحد ہے جو شرعاً، عقلاً اور فطرتاً تمام بندوں پر واجب ہے۔ اس کے مقابلے میں شرک کی برائیوں اور اس کے نقصانات کو بیان کرکے بھی توحید کو مستحکم کرتا ہے۔

اور کبھی اللہ تعالیٰ توحید کی دعوت اس بات سے دیتا ہے کہ اس کے نتیجے میں جو اچھا جزا ہے، وہ دنیا اور آخرت دونوں میں ملتی ہے، اور تینوں جہانوں میں خوشگوار زندگی ملتی ہے۔ جبکہ اس کے مخالف شرک کی سزا، فوری اور مؤخر دونوں صورتوں میں، اور اس کے انجام کی تکالیف کو بیان کرتا ہے، اور بتاتا ہے کہ مشرکین کا انجام سب سے برا اور سب سے بدتر تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہر قسم کی دنیاوی اور آخرت کی بھلا ئی توحید کے نتیجے میں ہے، اور ہر قسم کی دنیاوی اور آخرت کی برائی شرک کے نتیجے میں ہے، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں !

قرآن کی تفسیر کے لیے عمدہ اصول (قاعدہ ۔ ۷ )