حصول مقاصد کے قرآنی اصول

کامیابی کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ کہ انسان اپنی زندگی کے مقاصد واہداف ہمیشہ ذہن میں تازہ رکھے کسی بھی لمحہ اس سے غافل نہ رہے ۔ 

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید ایک ہی بات کو باربار دہراتا ہے۔ مکی دور سے لیکر مدنی دور کی آخری وحی تک چند اہم اصول زندگی جن کا تذکر ہ قرآن مجید میں بار بار کیا جا تاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم انسانی فطرت کا جائزہ لیں تو اس میں تین فطری کمزوریاں پائی جا تی ہیں ۔ ایک ہے عدم علم یا جہالت۔ دوسرا ہے نسیان یعنی اگر علم ہو بھی جائے توجلد اس کو بھول جا نا ۔ تیسری بڑی کمزوری ہے غفلت ۔ ان تینوں کمزوریوں کا علاج یہ ہے کہ اگرکسی انسان کو علم نہیں تو صاحب علم سے معلوم کریں ۔یا اگر معلوم ہے تو اس کو تازہ رکھیں ۔اور غفلت سے چٹکا ر ا علم پر فوری عمل پیرا ہو نے سے ممکن ہے ۔ کا میابی کے لے یہ سب سے بنیادی اور اہم شرط ہے ۔

ہماری زندگی میں ایسا ہی ہو تا ہے کہ جب ہم ایک مقصد متعین کرلیتے ہیں تو وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ ہم اور مقاصد میں الجھ کر اصل مقصد کو بھول جا تے ہیں یا اصل مقصد لاشعور میں چھپ جا تا ہے ۔پھر عملی زندگی میں بھی اس اصل مقصد سے لا تعلق ہو جا تے ہیں ۔حالت آہستہ آہستہ یہ ہو جا تی ہے کہ جانا کہیں اور تھا نکل کہیں اور گئے جس طرح راستہ بھٹکا ہو ا انسان کے ساتھ ہو تا ہے ۔ گویا فارسی کے اس مقولہ کا مصداق بن جا تے ہیں " راہ رو پشت بہ منزل " یعنی اس مسافر کی طرح جس کی پشت منزل طرف ہے ۔

عمل کی تین اہم بنیا دہیں: سب سے پہلی یہ ہے کہ اس کے سامنے ایک واضح ، متعین مقصد ہو۔ دوسری بنیا د کہ اس کا تعلق عام معاشرتی زندگی کے ساتھ ہو، محض کوئی خیالی تصو ر نہ ہو ۔ تیسری یہ ہے کہ وہ ایسا مقصد ہو جو کسی واضح نظریہ حیات((Ideology سے جنم لیا ہو ۔ جب عمل ان تین بنیاد وں پر استوار ہو گا تو اس کے نتائج نہایت واضح اور مفید ہو ں گے ۔ ورنہ اس عمل کی نہ کوئی قدر وقیمت ہو گی نہ اس کا تعلق معاشرہ سے ہو گا، نہ اس کے نتائج سے لو گوں کو  کو ئی فائد ہ ہو گا ۔

اگر ہم ان بنیادی باتوں کو قرآن پاک کی روشنی میں سمجھنا چاہیں تو قرآن ہماری رہنمائی کر تا ہے قرآن میں کئی کامیاب انسانوں کے ماڈل موجود ہیں ،قرآن نے ان کامیاب شخصیا ت کی زندگیوں کو ماڈل ( اسوہ ) کہا ہے ۔ ان میں سے ایک ماڈل پر ہم غور کر تے ہیں ۔

وہ حضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت ہے ۔ان کی شخصیت قرآن میں بہت نمایا ہے ۔ بلکہ اللہ تعالی نے ان کی شخصیت ان کے بعد آنے والی تمام امتوں کے لیے ماڈل قرار دیا ۔ اگر ان کی سیرت پر ہم غور کریں تو سب سے پہلے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی پوری زندگی کا رخ اللہ تعالی کی طرف ہو گئی تھی ۔

اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ  (سورہ انعام : 79)

میں اپنا رخ یکسو ہوکر اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‏


یہ سب بنیا دی چیز جو ایک مؤمن کی زندگی کا رخ متعین کر تا ہے اس توحید کا اقرار کہے یا ایمان کہے بہر صورت میں اس کے لے اس بات کا اقرار ضروری ہے ۔


دوسری بات حضرت ابراہیم ؑ نے سارے غلط اور بے مقصد تعلقات کو چھوڑکر اللہ تعالی سے تعلق کو جوڑا ۔ اور اس وقت تک ان تعلقات سے بے تعلق رہنے کا فیصلہ کیا یعنی ہر تعلق پر  اللہ کا تعلق غالب ہے ہر دوستی پر اللہ کی دوستی غالب ہے کہ جب تک وہ سب خدائے یکتا پر ایمان نہیں لے آتے ۔ انسانی زندگی تعلقات کا نام ہے، انسان کے تعلقات خاندان سے ، معاشرے سے یا مادی سازوسامان سے اور مفادات سے ہو تے ہیں ۔ اگر یہ تعلقات درست سمت میں نہ ہو تو انسان کی زندگی خسارے میں رہتی ۔


قَدۡ کَانَتۡ لَکُمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ ۚ اِذۡ قَالُوۡا لِقَوۡمِہِمۡ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنۡکُمۡ وَ مِمَّا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۫ کَفَرۡنَا بِکُمۡ وَ بَدَا بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃُ وَ الۡبَغۡضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَحۡدَہٗۤ اِلَّا قَوۡلَ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ لَاَسۡتَغۡفِرَنَّ لَکَ وَ مَاۤ اَمۡلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ رَبَّنَا عَلَیۡکَ تَوَکَّلۡنَا وَ اِلَیۡکَ اَنَبۡنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۴﴾ الممتحنۃ )

‏ مسلمانو! تمہارے لئے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے (١) جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں (٢) ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہوگئی (٣) لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی (٤) کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے (۵) اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔


اس سے معلوم ہو ا کہ زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لے اللہ کی بندگی اختیا ر کرنا اس کی طرف دوسروں کو بھی راغب کرنا ۔ یہی اصل مقصد زندگی ہے ۔ اسلام کی آئیڈیل شخصیات کی زندگی میں ہمیں یہ دونوں باتیں مشترکہ نظر آتے ہیں ۔ قرآن ہم سے مطالبہ کر تا ہے کہ کسی مسرفین کی اطاعت نہ کریں جو فسادی ہیں اور تعمیری و اصلاحی عمل سے باغی ہیں ۔

وَ لَا تُطِیۡعُوۡۤا اَمۡرَ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿۱۵۱﴾ۙالَّذِیۡنَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا یُصۡلِحُوۡنَ ﴿۱۵۲﴾

بے باک حد سے گزر جانے والوں کی (١) اطاعت سے باز آجاؤ۔‏‏ جو ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔‏(الشعراء: 151-152)


یہ ہمیں قرآن کریم میں نظر آتاہے کہ انبیاء کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ جو کچھ آپ کو دیا وہ لوگوں تک پہنچائیں ۔ اس لے کامیابی میں یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ کے پیغام اور عمل سے لوگ آشنا ہوں تاکہ لوگ آپ کی کامیابی سے فائدہ اٹھا ئیں ۔


یہ بات یا د رکھنا چاہئے کہ انبیا کی دعوت کا جہاں ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ کی بندگی قائم ہو وہان اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی کہ انسانوں کی زندگی انصا ف کے اوپر قائم ہو دراصل انبیا کی تما م تر جد وجہد اسی مقصد کے لے ہے ۔ اس بات کو سورۃ الحدید میں بڑے واضح انداز میں بیان فرما یا :


لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ ۔۔۔۔۔﴿٪۲۵﴾ (سورہ الحدید)


ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان پر کتابیں نازل کیں اور ترازو (یعنی قواعد عدل) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ۔

اسلام میں زبا ن کو تقدس کا درجہ حاصل نہیں ( یا زبان کی پرستش نہیں کی جا تی ) مسلمانوں نے دین کی تفہیم اور تشریح کے لے ہمیشہ نئے الفاط کا استعمال کیا ہے ۔ جب بھی ان کو نئے معنی اور مفہوم کی ضرورت پڑی انہوں نے نئے الفاظ استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ۔ بلکہ اللہ تعالی نے تو یہاں تک فرمایا کہ ہم نے ہر نبی کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ اللہ کے پیغام کو واضح کر سکے ۔


وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴﴾ (ابراہیم )


‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام خدا) کھول کھول کر بتا دے۔ پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ ‏


یعنی ہم جس قوم سے، جس معاشرے سے، جس دور میں بات کریں اس کی زبان ہی میں بات کو بہتر طور پر کہی اور سمجھا ئی جا سکتی ہے ۔مسلمان ایران گئے وہا ں اللہ کے ساتھ ساتھ خدا کا لفظ استعمال ہو تا تھا انہوں نے اس پر اصرار نہیں کیا کہ ہم لازما (اللہ ) کا لفظ استعمال کریں گے ۔ بلکہ خدا کا لفظ اختیار کرلیا ۔ اسی طرح " صلوۃ" کے لے" نماز" کا لفظ ۔ جیسے جیسے ضرورت پڑی تو شریعت اور تصوف اور فقہ کے الفاظ استعمال کیے گے ۔ اگرچہ یہ الفاظ دوسری زبان کے ہیں ۔اس کے باجود علماء اسلام نے ان کو وضع کیا تاکہ دین کی بات پھیل سکے ۔


اسی لے انبیاء کی دعوت کا جہاں ایک جز یہ رہا ہے کہ صر ف اللہ کی بندگی اختیار کرو اور صرف میری اطاعت کر و وہاں دوسرا جز ہمیشہ معاشرے کے بنیادی مسائل سے متعلق رہا اگر بنی اسرئیل سیاسی غلامی کے شکار تھے توموسی ؑ نے فرعون سے سیاسی آزادی کا مطالبہ کیا۔ اگر قوم عاد تھی تو اس کی جہاں گیر ی (imperialism) کے خلاف آواز اٹھا ئی ۔ اگر نوح علیہ السلام کی قوم تھی تو اس کی طبقاتی کش مکش کے خلاف سخت پکار بلند کی گی ۔ اور اگر قوم لوط تھی تو اخلاقی اباحیت کے خلاف دعوت دی گی ۔ گویا ہر دعوت معاشرے کے زندہ مسائل اور دل چسپیوں سے متعلق تھی ۔ اس کی حیثیت رد عمل کی سی نہیں تھی ۔ وہ دعوت الی اللہ تھی لیکن معاشرے اور انسان سے غیر متعلق نہیں تھی ۔ 

اس وقت دنیا کے تمام ادارو ں ،ریا ستوں، تنظیموں میں یہ ایک بڑا بنیا دی مسئلہ ہےکہ فرد اور جماعت کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟ اور کس کو کس پر فوقیت اور اہمیت حاصل ہے ؟ بعض لو گ کہتے ہیں اصل چیز فرد ہے اس لے کہ پوری جماعت اور معاشرہ فرد کو آگے بڑھا نے کے لے وجود میں آتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل چیز جماعت ہے چونکہ جماعت اور معاشرہ فرد کی تشکیل کر تے ہیں اس لے فرد کو اپنی شخصیت اجتماعیت کی خاطر قربان کر دینا چاہئے ۔ اسلام نے ان دونوں کے درمیان توازن پید کیا آخرت کی کامیاب کے لحاظ سے فرد ہی اصل ہے اس لے جماعت ریاست معاشرہ کی سب تگ ودو فرد کی لے لیے ہو تا ہے کہ فر د اپنے مقصد میں کا میاب ہو خواہ اس کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے ۔

ایک مسلم فرد کی زندگی کا کیا مقصد ہو نا چاہئے جب ہم اس سے مطالبہ کر تے ہیں کہ وہ نبی کی سنت کی پیروی کرے تو اس سنت سے کیا مراد ہے ؟ آج کل المیہ یہ ہے کہ سنت کا لفظ سنتے ہی ایک مخصوص حلیہ یا لباس کھانے پینے اور چلنے پھر نے کے آداب ہما رے سامنے آتے ہیں ۔صرف اسی کو سنت سمجھ تے ہیں حالانکہ معاملہ اس طرح نہیں ۔ اگر ہم غار حرا سے حضرت عائشہ کے حجرے تک جہاں حضور ﷺ نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی حضور ﷺ زندگی پر غور کر یں کہ آپ ﷺ نے عمر بھر کیا کیا اور کیا کہا آپ کے ساتھی کیا کرتے رہے اور کیا کہتے رہے جس کو آپ نے منظور کیا قبول کیا تو ہمارے سامنے سنت کی کیا تصویر بنتی ہے ؟ وہ تصوریر یہ بنتی ہے کہ آپ ﷺ ہر لمحہ دعوت وجہاد اور غلبہ دین کے کام میں مصروف رہے ، مکہ کی گلیاں ہوں یا طائف کی وادی ، یا بدر کا میدان ہو یا مسجد نبوی ہر جگہ آپ کی تعلیم ، تزکیہ اور دعوت میں مصروف نظر آتے ہیں یہ آپ کی سب سے بڑی سنت تھی ۔ اس امت کےلیے سب سی بڑی سنت دعوت الی اللہ جہاد اور تعلیم وتزکیہ کی سنت ہے ۔ 


اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ (الحجرات )


مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے لڑے یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں ‏


وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾ (الانفال)


‏ اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے۔ اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لئے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔ ‏

یہ سنت ایسی سنت نہیں کہ اس کے بارے میں کہا جا سکے کہ وقت ہو گا تو کریں گے یا ماحول ساز گار ہو گا تو کریں گے بلکہ اس سنت پر عمل ایمان لاتے ہی ضروری ہو جا تاہے اور عمر بھر عائد رہتاہے اس کو نہ ملتوی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ٹالی جا سکتی ہے ۔


یہ بھی پڑھئے :