کامیابی کا راز- مولانا وحید الدین خاں

اسلام کی روسے انسانی فلاح اور کامیابی دو چیزوں پر ہے ۔ایک ایمان اور دوسری نیک عمل ۔ اسلام میں یہ دونوں لا زم ملزوم اور یکساں اہمیت رکھتے ہیں ۔ لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں میں ایمان کو جو اہمیت حاصل ہے وہ نیک عمل کو نہیں ۔


علماء اسلام نے نیک اعمال کو دو حصوں میں تقسیم کیا :ایک وہ جس کا تعلق خاص اللہ تعالی سے ہے ۔ اس کو وہ عبادت کہتے ہیں ۔ دین اسلام میں عبادت سے مراد ہر وہ کا م جس سے اللہ تعالی کی اطاعت اور بندگی کا اظہا ر ہو ۔ اس لیے بڑی سے بڑ ی نیکی اگر خاص اللہ کی رضا کے لیے نہ ہو تووہ عبادت میں شامل نہیں ۔ دوسرا وہ جس کا تعلق انسان سے ہے ۔اس کی دو قسمیں ہیں ، ایک کی حیثیت ٖصرف انسانی فرض کی ہو تی ہے اس کا نا م اخلاق ہے ۔ اسلام میں اس سے مراد باہم بندوں کے حقوق وفرائض کو اس میں خواہ ماں باپ اہل عیال ہو، عزیز رشتہ دار دوست احباب ہو بلکہ محلہ وطن قومیت جنسیت یا کوئی اور تعلق حتی کہ حیوانات بھی اس میں شامل ہیں ان سب سے تعلق کے فرض کو بحسن وخوبی انجام دینے کا نام اخلاق ہے ۔ اور دوسری وہ جس کی حیثیت قانونی ذمہ داری کی ہو تی ہے اس کا نام معاملات ہے ۔اس سے مراد مسلمانوں کے وہ تما م باہمی اور انسانی معاملات جن کا تعلق معاشرت، معیشت و تجارت اور حکومت کے ملکی اور بین الاقوامی ضابطوں اور قوانین سے ہے ۔ قرآن نے ان تمام نیک اعمال کو" عمل صالح " یا " عملوا الصالحات " سے تعبیر کیا ۔


قرآن پاک میں تھوڑے تھوڑے تغیر سے تقریبا ۴۵ موقعوں پر یہ آیت ہے۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ (جو ایمان لا ئے اور انہوں نے اچھے کا م کئے۔) ہر جگہ ایمان کو پہلی اور نیک عمل کو دوسری مگر ضروری حیثیت دی ہے۔


ان تمام آیا ت سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اسلام کی نظر میں ایمان اورنیک عمل باہم لا زم وملزوم ہیں جو ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے دنیا اور آخرت میں کا میابی اور کامرانی کا مدا ران دونوں پر یکساں ہے ۔البتہ اس قدر فرق ہے کہ رتبہ میں پہلے کو دوسرے پر تقدم حاصل ہے۔ بعض آیتوں میں ایمان کے بجائے اسلام یعنی ا طاعت اور عمل صالح کی جگہ احسان یعنی اچھا کردار کو جگہ دی گئی ہے مثلاً ایک آیت میں یہود ونصاریٰ کے اس دعویٰ کی تر دید میں کہ جنت میں صرف وہی جا ئیں گے فرمایا : 


کیوں نہیں جس نے اپنے آپ کو اللہ کے فرمان کے تابع کیا اور اس کا کر دار اچھاہے۔ تو اس کا اجر اس کے رب کے پا س ہے۔ ان کو نہ کو ئی ڈر ہے نہ کو ئی غم ۔فرمایا :


بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (بقرہ : 112)


"کیوں نہیں جس نے اپنے آپ کو اللہ کے تابع فرمان کیا اور نیکوکا ر ہے تو اس کا اجر اس کے رب کے پا س ہے۔ان کو نہ کوئی ڈر ہے نہ کو ئی غم ۔"


اللہ نے جنت کا حق دار اسکو قرار دیا جو ایمان اور پھر ایمان کے مطابق عمل سے بھی آراستہ ہیں اور جو عمل سے محروم ہیں وہ جنت کے استحقاق سے بھی محروم ہیں ۔ الا ّ یہ کہ اللہ تعالیٰ بخشش فر ما ئے ۔


ایک جگہ فرمایا : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرہ :82 ) 


"اور جو لوگ ایمان لا ئے اور نیک عمل کئے وہی جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ "


بنی اسرائیل کے بد کردار اور نیک لو گوں کے بارے میں فرمایا : 


فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (٥٩)إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلا يُظْلَمُونَ شَيْئًا (٦٠) (مریم:۵۹ ،۶۰ )


"تو ان کے بعد ان کے ایسے جا نشین ہو ئے جنہوں نے نماز کو برباد کیا اور نفسانی خواہشوں کی پیروی کی تو وہ گمراہی سے ملیں گے لیکن جس نے تو بہ کی اور ایمان لایا اور نیک کا م کئے تو وہی لو گ جنت میں داخل ہو ں گے اور ان کا ذرا سا حق بھی مارا نہ جا ئے گا ۔" 


ایک اور جگہ فرمایا کہ جنت کا حصول نسل اور قومیت پرنہیں بلکہ ایمان اور نیک عمل پر ہے ۔جو شخص جنت کی یہ قیمت ادا کر ے گا وہ اسی کی ملکیت ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :


إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَى مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (٦٩) (المائدہ:69 )


"مسلمان ،یہودی ، ستارہ پرست اور نصرانی کوئی ہو ، جو بھی اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان لا ئے اور نیک عمل کر ے وہ محض بے خوف رہے گا اور بالکل بے غم ہو جا ئے گا ۔" 


اس آیت کریمہ کا منشا یہی ہے کہ فلا ح ونجات کا حصول کسی نسل وقومیت پر موقوف نہیں اور نہ کسی مذہب و ملت کی طرف رسمی نسبت پر ہے۔بلکہ احکام الہی پر یقین لا نے اور ان کے مطابق عمل کر نے پر ہے۔ عدم ایمان اور بدکا ری کا نتیجہ دنیا اور آخرت کی تباہی اور ایمان اور نیکوکاری کا نتیجہ دین ودنیا کی بہتری ، یہ اللہ تعالی کا وہ طبعی قانون ہے جس میں نہ کبھی بال برابر فرق ہوا اور نہ کبھی ہوگا۔ چنانچہ ذوالقرنین کی زبانی یہ فرمایا :


قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُكْرًا (٨٧) وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَى (٨٨) (کہف :۸۷، ۸۸ ) 


"اس نے کہا جو کو ئی گناہ کا کام کر ےگا تو ہم اس کو (دنیامیں ) سزا دیں گے پھر وہ اپنے رب کے پا س لو ٹ کر جا ئے گا تو اس کو بری طرح سزادے گا اور جو کو ئی ایمان لا یا اور نیک عمل کئے تو اس کے لئے بھلا ئی کا بدلہ ہے ۔"


جنت الفردوس جو جنت کا سب سے اعلی مقام ہے اس کا حق دار بھی یہی نیک لو گ ہیں :


فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلا ( کہف:۱۰۷ )


"بے شک جو ایمان لا ئے اور نیک عمل کئے ان کی مہمانی کے لئے باغ فردوس ہیں ۔"


پھر آگے چل کر فرمایا: 


قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلا صَالِحًا وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا( کہف:۱۱۰ )


"آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہو ں (ہاں ) میری جا نب وحی کی جا تی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔ تو جسے بھی اپنے پر ور دگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کر ے اور اپنے پر ودگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے ۔ "


ایمان کے ہو تےہو ئے عمل سے محرومی تو محض فر ضی بات ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں عمل کی کمی ہے اسی کے بقدر ایمان میں بھی کمزوری یقینی ہے ۔مثلا آگ کی حقیقت جان لینے بعد پھر کون اس میں اپنے ہا تھ کو ڈالنے کی جرأت کرسکتا ہے ۔ لیکن نا دان بچہ جو ابھی آگ کو جلا نے والی آگ نہیں جا نتا ، وہ بار ہا اس میں ہا تھ ڈالنے کو آمادہ ہو جا تا ہے ۔ اس لئے عمل کا قصور ہمارے یقین کی کمزوری کا راز فاش کر تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنہا ایمان یا تنہا عمل کو نہیں بلکہ ہر جگہ دونوں کو ملا کر نجات کا ذریعہ بتایا ہے ۔


جن مسلمانوں سے اللہ تعالی نے دنیاوی حکومت وسلطنت کا وعدہ فرمایا ہے وہ بھی وہی ہیں جن زندگی میں ایمان کے ساتھ ساتھ نیک عمل کی آمیزش بھی ہو۔


وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (النور:۵۵ ) 


"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لا ئے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالی وعدہ فر ما چکاہے کہ انہیں ٖضرو ر زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جمادے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے ۔ اور ان کے خوف اور خطر کو وہ امن امان سے بدل دے گا وہ میر ی عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر ائیں گے ۔ " 


غرض ان تمام مذکورہ آیتوں سے یہ اصول ثابت ہوتا ہے کہ نجات کا مدار صرف ایمان پر نہیں بلکہ ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی ضروری ہے ۔ اور یہی وہ سب سے بڑی صداقت ہے جس کے متعلق تمام قدیم مذاہب میں افراط اور تفریط نمایا تھی ۔ عیسائیوں میں صرف ایمان پرنجا ت کا مدار ہے ۔ جبکہ بودھ دھرم میں صرف نیکی سے ہی نروان کا درجہ ملتا ہے اور کہیں صرف گیان اور دھیان کو نجات کا راستہ بتایاگیا ہے ۔مگر اسلام نے انسان کی نجات اور کامیابی کا ذریعہ ذہنی یعنی ایمان اور جسمانی یعنی عمل صالح دونوں کو ملاکر قرار دیا ہے ۔


غور کر یں !کہ کوئی مریض صرف کسی اصول طبی کو صحیح ماننے سے بیماریوں سے نجات نہیں پا سکتا جب تک وہ ان اصولوں کے مطابق عمل بھی نہ کرے ۔ اسی طرح صرف اصولِ ایمان کو تسلیم کر لینا دنیا و آخرت کی کامیابی کے لئے کافی نہیں جب تک ان اصولوں کے مطابق پورا پورا عمل بھی نہ کیا جائے ۔ قرآن مجید میں جنت الفردوس کے وارثین اوران کے کر دار کا ذکر ہے ۔ فرمایا: 


قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (١)الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ (٢)وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (٣)وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ (٤)وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (٥)إِلا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (٦)فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (٧)وَالَّذِينَ هُمْ لأمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ (٨)وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (٩)أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ (١٠)الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (١١) (المؤمنون:1-11 )


"وہ ایمان والے مراد کو پہنچے ، جو نماز میں عاجزی کر تے ہیں ، جو نکمی باتوں کی طرف رخ نہیں کر تے ، جو زکوۃ دیتے ہیں ، جو شرم گاہوں کی حفاظت کر تے ہیں ، اور اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا پا س کر تے ہیں۔جو اپنی نمازوں کے پابند ہیں ، یہی جنت کے وارث ہیں۔جوہمیشہ کے لئے جنت الفردوس میں ہو ں گے۔"


اسی طرح اس دنیا میں عمل کے بغیر تنہا ایمان کا میابی کے حصول کے لئے بیکا ر ہے ۔دنیا میں اللہ تعالی نے ہر چیز کو مادی اسباب و زرائع کے تا بع فر ما یا ہے ۔ یہاں کی کا میابی صرف ذہنی عقیدہ اور زبانی اقرار اور ایمان سے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اس کے مطابق عمل نہ کیا جا ئے ۔ صرف اس یقین سے کہ دواء ہماری صحت کیلے ضروری ہے ۔بیماری دور نہی ہو گی بلکہ اس کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے گا جو دواء تجویز کر ے اس کو استعمال کر نا ہو گا ۔یہی صورت ہمارے دوسرے دنیاوی اعمال کی ہے۔ انسانی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے ۔ اللہ تعالی نے زمانہ کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا : 


وَالْعَصْرِ (١)إِنَّ الإنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (٢)إِلا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (٣) (سورۃ العصر)


زمانہ کی قسم انسان درحقیقت خسارے میں ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لا ئے اور نیک اعمال کر تے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کر تے رہے ۔ اسی حقیقت کو دوسری جگہ اس طر ح بیان کیا : 


لَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (٤)ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (٥)إِلا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (٦)فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ (٧)أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ (٨) (التین)


"ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا، پھر اسے الٹا پھیر ا کر ہم نے نیچوں سے نیچ کر دیا ، سوائے ان لو گوں کے جو ایمان لا ئے اور نیک عمل کر تے رہے کہ ان کے لیے کبھی ختم نہ ہو نے والا اجر ہے ۔ پس (اے نبی ﷺ) اس کے بعد کو ن جزا وسزا کے معاملے میں تم کو جھٹلاسکتا ہے ؟ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟"


ان آیات کریمہ میں انسانی فطرت کی بہترین صلا حیت کو پھر خود انسانوں کے ہا تھوں سے اس کی بدترین منزل تک پہنچ جا نے کو بیان کیا گیا ہے ۔ لیکن اس بدترین پستی کی منزل سے کون لوگ بچائے جا تے ہیں ؟ وہ جن کے پا س ایمان کی دولت اورنیک عمل کی شوکت ہے ۔ 

جن حضرات کی انسانی تا ریخ پر نظر ہے وہ جا نتے ہیں کہ پوری انسانی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے۔ وہ لو گ جو اللہ پر ایما ن لائے اور نیک عمل کر تے رہے ان پر کا میابی کے دروازے کھلے ہیں ورنہ تباہی ان کی مقدر بنی ۔

موجودہ دور میں مسلمانوں کی مجموعی پستی اورزوال کی وجہ بھی یہی ہے۔ علامہ اقبال ؒنے بالکل درست کہا : 

                               
                                  عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی       

                                 یہ خاکی اپنی فطر ت میں نہ نوری ہے نہ نا ری




یہ بھی پڑھیئے :

حصول مقاصد کے قرآنی اصول 

ہماری زندگی وقت ہی ہے 

آخرت میں نجات کا ایک ہی اصول ہے ، وہ ہے ایمان اور عمل صالح