میراث کے بارے میں قرآن مجید کے اصولی احکام (سورۃ النساء آیات ۱۱۔۱۲ کی روشنی میں )

        1-        اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا، پھر وصیت پوری کی جائے گی، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہوگی۔  اگر  میت  اپنی وصیت میں کوئی ناجائز کرے، یا اپنے اختیار  کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے وارثین میں سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے  حکم یہ ہے کہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کرلیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیت کو درست کردے۔

       2-         میراث کے معاملہ میں یہ اولین اصولی ہدایت ہے کہ مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہے۔

       3-        اگر   میت کا کوئی بیٹا  نہ ہو بلکہ صرف بیٹیاں  ہوں ، خواہ  دو  بیٹیاں ہوں یا دو سے زیادہ ،  تو میت کے کل ترکہ کے دو تہائی 2/3حصہ ان لڑکیوں میں تقسیم ہوگا، باقی ایک تہائی  1/3 حصہ دوسرے وارثوں میں۔اگر میت کی صرف ایک بیٹی ہو تو اس کو  کل میراث کا آدھا حصہ ملے گا۔  لیکن اگر میت کا صرف ایک بیٹا ہو تو اس پر اجماع ہے کہ دوسرے وارثوں کی غیر موجودگی میں وہ کل مال کا وارث ہوگا، اور دوسرے وارث موجود ہوں تو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی سب مال اسے ملے گا۔

       4-         میت  کے والدین میں سے ہر ایک کو  کل میراث کا  چھٹا  1/6 حصہ ملے گا  اگر میت کی کوئی اولاد  ہو ۔ خواہ میت کی وارث صرف بیٹیاں ہوں، یا صرف بیٹے ہوں، یا بیٹے اور بیٹیاں ہوں، یا ایک بیٹا ہو، یا ایک بیٹی۔اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو  اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کو  ایک تہائی  1/3 حصہ ملے گا  اور باقی  2/3 حصہ  والد کو ملے گا ۔  ہاں اگر اس کے کئی بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا  1/6 حصہ ملے گا۔  ( بھائی بہن ہونے کی صورت میں ماں کا حصہ 1/3 کے بجائے 1/6 کردیا گیا ہے۔ اس طرح ماں کے حصہ میں سے جو حصہ لیا گیا ہے وہ باپ کو ملے گا۔ کیونکہ اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ میت کے والدین اگر زندہ ہوں تو اس کے بہن بھائیوں کو حصہ نہیں پہنچتا۔)

       5-        اگر بیوی   فوت ہوجائے خواہ ایک ہو یا ایک سے زیادہ ،   اگر اس کی یا ان کی کوئی اولاد نہ ہو تو شوہر کو آدھا حصہ ملے گا ۔ اگر  بیوی کی کوئی اولاد ہو تو  شوہر کو  میراث کا چوتھا 1/4  حصہ ملے گا ۔  اور اسی طرح اگر شوہر فوت  ہوجائے تو  چوتھا 1/4  حصہ بیوی کو ملے گا  اگر شوہر کی کوئی  اولاد نہ ہو۔ اگر اولاد ہو تو بیوی کو  آٹھواں  1/8حصہ ملے گا ۔ اگر بیوی  ایک سے زیادہ ہوں تو یہ  1/4 یا 1/8 حصہ سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم ہوگا۔

       6-         اگر میت  خواہ مرد ہو یا عورت ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں اور نہ کوئی اولاد (جس کو کلالہ کہتے ہیں)  اگر اس کا ماں شریک بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک  کو چھٹا 1/6حصہ ملے گا۔  باقی 5/6 یا 2/3جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی  وارث موجود ہو تو اس کو حصہ ملے گا۔ اگر سگے بھائی بہن، یا  وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے  ہوں،   تو جیسے پہلے ذکر ہوا ہے کہ  اس طرح کے بھائی کو  بہن کے مقابلے  میں دوگنا حصہ ملے گا ۔

قرآن مجید کا نام "القرآن" کی لسانی تحقیق



قرآن کے معنی


قرآن مجید میں دونام سب سے زیادہ عام فہم اور مشہور ہیں: الکتاب اورالقرآن۔ پہلا نام " الکتاب" سے مراد اس کی تحریر ، اس کے الفاظ اور سطروں کا مجموعہ ہے، کیونکہ قرآن مجید ایک تحریری مواد کا مجموعہ ہے ، جو حروف اور الفاظ پر مشتمل ہے ۔ اور دوسرا نام القرآن کے معنی پڑھی جانے والی چیز ہے۔ ان دونوں ناموں کی معنوی مطابقت یہ ہے کہ یہ قرآن نہ صرف تحریری طور پر محفوظ ہے بلکہ زبانی تواتر سے لوگوں کے سینوں میں بھی محفوظ ہے ۔ البتہ کچھ جدید علمائے لغت کا کہنا ہے کہ یہ دونوں نام آرامی زبان سے ماخوذ ہیں اس میں الکتاب کے معنی ہیں حروف (یا الفاظ) جبکہ القرآن کے معنی تلاوت کرنا ہے ، اس لے اس آخری وحی کو کتاب اور قرآن کہنا ایک فطری بات ہے۔ کیونکہ نبی ﷺ کو اس آخری وحی کو دونوں طریقے سے محفوظ بنانے کا حکم ہوا۔ سب سے پہلی وحی میں اس طرف اشارہ ہے ، فرمایا:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (العلق: ۱۔۵) پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا

لغوی تحقیق


ہمارے قدیم علماء لغت کے ہاں لفظ" قرآن" کی تحقیق وتحلیل میں شدید اختلاف ہے ۔ ان میں سے ایک ایک گروہ نے کہا کہ قرآن کا لفظ اسم جامد ہے یعنی یہ قواعد کی روسے مشتق نہیں ہے ۔ اس رائی کی تائید کرنے والوں میں ابوعبیدہؒ ، ابنِ اوسؒ اور امام شافعی ؒ بھی ہیں ۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ چونکہ قرآن مجید بھی تورات اور انجیل کی طرح ایک الہامی کتاب ہے، اس لئے یہ لفظ اسی طرح رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ ( تاريخ بغداد للخطيب 2/ 62 )۔ علما، کے دوسرے گروہ نے کہا ہے کہ لفظ قرآن مشتق ہے ۔ پھر ا س گروہ میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ لفظ مشتق کی کون سی قسم ہے یعنی مادے کے اعتبار سے اس کے اصلی حروف کیا ہیں ؟ ایک گروہ کا کہنا کہ اس کے حروف (ق رن) ہیں ۔ اس میں معروف امام اشعری اور ان کےکے ماننے والے شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ لفظ قرآن : قَرَنَ یَقرُنُ مصدر قَرۡن سے ماخوز ہے (یعنی کسی چیز کو کسی چیز کے ساتھ ملانا)، کیونکہ اس میں سورتیں اور آیات ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ (کتاب البرهان للزرکشی 1 / 278) جبکہ امام فراء کہتے ہیں: یہ لفظ قرائن سے ماخوذ ہے، جو قرينة کی جمع ہے، اس کے معنی ہیں مشابہ ہونا ۔ کیونکہ اس کی آیات ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہیں گویا ہر آیت اور سورت دوسری آیت اور سورت کے لیے قرینہ ہے ۔ ( الإتقان للسیوطی 1 / 87)۔

قدیم عرب کا جغرافیہ

 عرب کو "عرب" کیوں کہتے ہیں ؟ اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ، "عرب" اعراب سے مشتق ہے جس کے معنی زبان آوری اور اظہار مافی الضمیر کے ہیں ، چونکہ عرب کی قوم نہایت زباں آور اور فصیح اللسان تھی اس لئے اس نے اپنا نام عرب رکھا ، اور اپنے سوا تمام دنیا کو اس نے عجم یعنی " بے زبان " کے نام سے پکارا، لیکن حقیقت میں یہ صرف نکتہ آفرینی اور دقّت رسی ہے ، دنیا میں ہر قوم اپنی زبان کی اسی طرح جوہری ہے جس طرح عرب ۔

علمائے انساب کہتے ہیں کہ اس ملک کا پہلا باشندہ یعرب بن قحطان ، جو یمنی عربوں کا پدر اعلی ہے ، اس لئے اس ملک کے باشندوں کو اور نیز اس ملک کو عرب کہنے لگے ، لیکن یہ بالکل خلاف قیاس اور معلومات تاریخی کے مخالف ہے ، نہ یعرب اس ملک کا پہلا باشندہ تھا اور نہ لفظ عرب کسی قاعدہ لسانی یمن تھا۔اس لئے سب سے پہلے خود یمن یعنی  جنوبی عرب کو عرب کہنا چاہیئے ، لیکن اس کے برخلاف "عرب " کا لفظ پہلے شمالی عرب کے لئے مستعمل ہوا ۔۔۔۔ ۔

اہل جغرافیہ کہتے ہیں اور بالکل صحیح کہتے ہیں کہ "عرب " کا پہلا نام " عربۃ " تھا جو ۔۔ بعد کو عموما " عرب " بولا جانے لگا ، اور اس کے بعد ملک کے نام سے خود قوم کا نام بھی قرار پاگیا چنانچہ شعرائے عرب کے اشعار سے بھی جو عرب کی تنہائی ڈکشنری ہے ، اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔

اسد بن جاحل کہتا ہے۔
وعربۃ ارض جدّ فی الشر اھلھا     کما جدّ فی شرب النقاخ ظماء
ابن منقذ ثوری کا شعر ہے ۔
لنا ابل  لم  یطمث  الذُّل  بینھا        بعربۃ ماواھا بقرن فابطھا
ولوا ن قومی طاوعتنی سراتۃ       امرتھم الامر الذی  کان اریحا
اسلام کے بعد بھی یہ نام باقی رہا ، ابو سفیان کلبی رسول اللہ ﷺ کی مدح میں کہتے ہیں۔
ابونا رسول اللہ و ابن  خلیلہ          بعربۃ بوَّانا فنعم المرکب
ابوطالب بن عبد المطلب کی طرف جو قصیدہ منسوب ہے ، (گو صحیح نہیں ) اس کا ایک شعر ہے ۔
وعربۃ دار لا یحل  حرامھا          من الناس الا اللوذعی الحلاحل
(ان مذکورہ اشعار کی تفصیل لے لئے دیکھئے معجم البلدان ، یاقوت لفظ" عربۃ ")

اب دوسرا سوال یہ ہے کہ اس ملک کا نام " عربۃ " کیوں قرار پا یا ؟ اصل یہ ہے کہ تمام سامی زبانوں میں " عربۃ " صحرا اور بادیہ کا مفہوم رکھتا ہے ۔ عبرانی میں  "عربا" عرابۃ کے معنی بدویت کے ہیں اور اعراب اہل بادیہ اور صحرا نشینوں کے لئے اب تک مستعمل ہے ۔
چونکہ عرب کا ملک زیادہ تر ایک بیابان بے آب گیاہ ہے اور خصوصا وہ حصہ جو حجاز سے بادیۂ عرب و شام اور سینا تک پھیلا ہواہے ، اس لئے اس کا نام "عربا" قرار پایا ، اور پھر رفتہ رفتہ وہاں کے باشندوں کو " عرب " کہنے لگے ۔

قرآن مجید میں لفظ" عرب " ملک عرب کے لئے کہیں نہیں بولا گیا ہے ، حضرت اسمعیل ؑ کی سکونت کے ذکر میں "واد غیر ذی زرع" یعنی " وادی ناقابل کاشت " اس کو کہا گیا ہے اکثر لوگ اس نام  کو عرب کی حالت طبعی کا بیان سمجھتے ہیں ، لیکن اوپر جو حقیقی بیان ہے اس سے واضح ہے کہ یہ لفظ عرب کا بعینہ لفظی ترجمہ ہے ، چونکہ اس عہد میں اس غیر آباد ملک کا کوئی نام نہ تھا اس لئے خود لفظ " غیر آباد ملک " اس کانام پڑگیا ، توراۃ میں بھی اسمعیل ؑ  کا مسکن  " مدبار " بتایاگیا ہے ، جس کے معنی بیابان اور غیر آباد قطعہ کے ہیں اور جو بالکل عرب کا ترجمہ اور"واد غیر ذی زرع " کے مرادف ہے ۔

تورات میں لفظ " عربا" کے ایک خاص قطع زمین کے معنی میں متعدد بار آیا ہے ، لیکن یقینا اس وسعت کے ساتھ اطلاق نہیں ہواہے جس وسعت کے ساتھ اب یہ کیا جاتاہے ، لفظ " عربا" سے صرف و ہ قطعہ زمین مراد لیا گیا ہے جو حجاز سے شام و سینا تک وسیع ہے ۔ (استثنا ) عام ملک عرب کے لئے زیادہ تر مشرق اور مشرق کی زمین کا استعمال ہوا ہے ، اور کبھی جنوب کا ، کیونکہ عرب فلسطین کے مشرق و جنوب دونوں گوشوں میں ہے ۔

لفظ " عرب " سب سے پہلے 1000ق ،م میں حضرت سلیمان ؑ کے عہد میں سننے میں آتاہے اور پھر اس کے بعد عام طور سے اس کا استعمال عبرانی ، یونانی اور رومانی تاریخوں میں نظر آتاہے اسیریا کے کتبات  میں  800ق ،م  میں عرب کانام " عریبی " لیا گیا ہے ۔ اسلام سے پہلے ہی یہ لفظ پورے ملک کو جو یمن سے شام تک وسیع ہے محیط تھا ۔

عبارت بالا سے ظاہر ہوگا کہ عرب قدیم کے جغرافیہ کے تین ماخذ ہیں ، تورات ، یونان ، و رومان ، اور خود عرب ، اور ایک عجیب اتفاق یہ ہے کہ یہ تین مختلف ماخذتین مختلف زمانوں سے متعلق ہیں ، تورات کا بیان 2500 ق ، م  سے تقریبا 800ء یونان و رومان بیان 500م ، ق (ہیروڈوٹس ) اسے 200ء (بطلیموس ) تک ہے ۔

خود عربوں کے بیانات عرب کے مقامات کے متعلق جو بعہد اسلام مدون ہوئے چند مشہور قبائل کے مقامات سکونت کے سوا (مثلا احقاف  مسکن عاد ،  مدین ،مسکن ثمود ، یمامہ، مسکن طسم و جدیس حجاز مسکن جریم ، یمن مسکن قحطان )عہد مسیح ؑ سے بعد کے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ عرب تصنیف و تالیف آشنا نہ تھے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ "صاحب البیت ادری بمافیہ"۔ عرب کے شعراء کا عام مذاق یہ ہے کہ وہ قصائد میں محبوب کے دیار و مسکن او راپنے سفر کے مقامات و منازل کا تذکرہ  کیا کرتے ہیں ، علمائے اسلام نے ان ہی سے عرب کا جغرافیہ وصفی ترتیب  دیا ہے ۔
( تاریخ  ارض قرآن ، جلد اول ص 66-69،  علامہ سید سلیمان ندویؒ )

آیاتِ قرآن کی ترتیب توقیفی کیا ہے! ۔

محمود الحسن عارف ( محدث میگزین) 
دسمبر ۲۰۰۹ء 

اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ اور دستور ہے کہ وہ قوموں کو خوابِ غفلت سے جگانے اور خلافت سے متعلق اپنے فرائض و واجبات انجام دینے سے متعلق ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لیے اُنہیں طرح طرح کی زمینی اور آسمانی آزمائشوں سے دوچار کرتا ہے تاکہ اس کے بندے خوابِ غفلت سے جاگیں اور اپنی حقیقت اور اصلیت کو جان سکیں ۔
اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ بعض اوقات دوسری قوموں اور دوسری حکومتوں کوبھی اپنے بندوں پر مسلط کردیتا ہے جو ان کا مار مار کر بُرا حال کردیتی ہیں اور اُنہیں خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے سخت ترین آزمائشوں سے گزارتی ہیں ۔
قرآنِ کریم نے اپنے اسی قاعدے کا سورۂ بنی اسرائیل میں ذکر کیا ہے ۔ جہاں بنی اسرائیل پر، جو اسلام سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبوب قوم تھی اور جسے اس نے سارے جہانوں پر فضیلت اور فوقیت عطا فرمائی تھی۔ 1 دو مرتبہ دوسری قوموں کو مسلط کرنے کا ذکر کیا ہے۔2
چنانچہ مفسرین کے مطابق پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ان پر 'بخت ِنصر' کو مسلط کیا اور دوسری بار طیطس رومی کو ان پر حکومت اور حاکمیت عطا فرما دی۔3
اِن دونوں حکمرانوں نے ان کاقتل عام بھی کیا اور اُنہیں ہزاروں کی تعداد میں قید و بند سے بھی گزارا اور ان کی بستیوں اور ان کے شہروں کو بھی تباہ و برباد کیا۔

مسلمانوں کے ساتھ بھی گذشتہ چند صدیوں سے ایسا ہی معاملہ کیا جارہا ہے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ مشرق سے لے کر مغرب تک دنیا کے اکثر ممالک یا تو مسلمانوں کے ماتحت، یا ان کے باج گزار تھے یا ان سے ڈرتے اور دَبتے تھے، مگر پھر وقت بدلا اور تمام اسلامی ملکوں پر مغربی ملکوں کی حکومت اور حاکمیت قائم ہوگئی۔ اور 'ترکی' ودیگر چند ممالک کے سوا کوئی ملک ایسانہ تھا جس نے ان ظالم و جابر غیر ملکی حکمرانوں کی محکومی کا مزہ نہ چکھا ہو۔ اب پھر صور ت حال بدل چکی ہے اور بظاہر اسلامی ممالک غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوچکے ہیں ، لیکن ان پر عملاً ابھی تک انہی کا راج اور انہی کی حکمرانی ہے اور وہ ان پر قبضہ کئے بغیر محض اپنی عیاری اور مکاری کے بل بوتے پر اُنہیں اپنی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں ، لیکن افسوس اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ حالات کی دگرگونی کے باوجود مسلمان خوابِ غفلت سے جاگنے کے لیے تیارنہیں ہیں ۔

علمی ایوانوں کی حاکمیت
اس کے ساتھ ساتھ نہایت تکلیف دہ اور نہایت اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ 'علمی ایوانوں ' پر بھی مغربی اہل علم کی حکومت اور حاکمیت کا سلسلہ چل رہا ہے اور مسلمان محض ان کی طرف سے پیش کی جانے والی تحقیقات اور ان کی طرف سے آنے والے نظریات کی جگالی ہی کو بڑے فخر اور مسرت کی بات سمجھ رہے ہیں ۔ پھرجس طرح ایک سچے مسلمان کے لیے ان کی سیاسی بالادستی انتہائی اَذیت کا باعث ہے، اسی طرح ان کی علمی برتری اور بالادستی بھی اہل علم و فضل کے لیے نہایت تکلیف اور اذیت کا سبب ہے۔

تلاوت قرآن کی سب سے پہلی آڈیوریکارڈنگ کب ہوئی ؟

مصر میں تاریخ اسلام میں پہلی بار تلاوت قرآن کی آڈیو ریکارڈنگ کا آغاز ، ۲۸ محرم الحرام ، بروز ہفتہ ۱۳۸۰ ہجری، بمطابق ​​ ۲۳جولائی ۱۹۶۰  کو ہوا ۔ اور ۱۸ ستمبر ۱۹۶۱ کو صبح چھ بجے قاہرہ ریڈیو پر شیخ الحصری کی آواز میں تلاوت قرآن کی پہلی تلاوت نشر ہوئی۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن کی کتابت کے بعد یہ دنیا میں قرآن کریم کی پہلی آڈیو ریکارڈنگ تھی۔

قرآن کریم کی آڈیو کو یکجا کرنے کے اس بابرکت خیال کے مالک ڈاکٹر لبیب السعید ہیں۔ اس زمانے میں ڈاکٹر لبیب السعید امپورٹ اتھارٹی کے کنٹرولر جنرل کے عہدے پر فائز تھے اور عین شمس یونیورسٹی میں فیکلٹی آف کامرس میں پروفیسر تھے ۔

انہوں نے بڑے قارئین کی مدد سے قرآن کو ریکارڈ کرنے کا خیال پیش کیا، ان کا مقصد تھا کہ قرآن پاک کو سی ڈیز پر ریکارڈ کرنا اور مختلف روایتوں کے ساتھ اسٹیشنوں پر نشر کرنا تھا۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ تلاوت تجوید اور قراء ت کے فن کے ماہرین اور اچھی آواز اور مہارت کے حامل قاریوں کے ذریعہ کی جائے اور ان کا انتخاب ایک کمیٹی کے ذریعہ کیا جائے ۔ قرآن کریم اور اس کے علوم، جس میں الازہر الشریف اور سائنسی، لسانی اور ثقافتی ادارے کے ماہرین بھی شرکت کرے ۔

انہوں نے ایک مرتبہ کہا: "غیر عرب اسلامی ممالک کے لئے اس کام کی فوری ضرورت ہے، کیونکہ یہ قرآن کو اچھی طرح سے سن کر سیکھنے ے میں مدد کرے گا، اس کی بدولت قرآن کا پھیلاؤ وسیع ہوگا اور اس سے مستفید ہونے والے طلبہ بھی زیادہ ہوں گے۔" اور انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انفرادی طور پر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں کئی سال گزارے ہیں، اس لیے وزیر اوقاف نے ان کے خیال سے اتفاق کیا۔

پھر انہوں نے یہ آئیڈیا الازہر کے شیخ شیخ شلتوت کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے اس خیال سے اتفاق کیا اور اسے منظور کر لیا۔ انہوں نے جامعہ پھر اور - تلاوت قرآن پروجیکٹ کے مالک، "قرآن کا آڈیو سینٹر "، وزیر اوقاف احمد طعیمہ کو پورے قرآن کی تلاوت ریکارڈ کرنے کو کہا گیا ۔ اس کے لئے مشہور قاریوں اور علماء کو ریکارڈنگ شروع کرنے کے لئے مدعو کیا، ان میں درج ذیل قراء حضرات شامل تھے :

۱۔ شیخ محمود خلیل الحصری عاصم کی سند پر حفص کی روایت کو ریکارڈ کرنے کے لئے مقرر ہوئے ۔

۲۔ شیخ مصطفیٰ الملوانی نے خلف عن حمزہ کی روایت پر تلاوت ریکارڈ کی ۔

۳۔ شیخ عبدالفتاح القادی، الازہر الشریف میں قرآن ریویو کمیٹی کے سربراہ، ابو جعفر کی قراءت بروایت ابن وردان ۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کوشش سے پہلی بار قرآن کو صوتی طور پر محفوظ اور مرتب کیا گیا تھا، جس طرح ابوبکر اور عثمان کے دور میں تحریری طور پر مرتب کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر لبیب السعید رحمہ اللہ 3 جمادی الآخرہ ۱۴۰۸ھ بمطابق ۲۲جنوری ۱۹۸۸ء کو 74 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔



قرآن حکیم : فلسفہ جبر و اختیار

قرآن حکیم : فلسفہ جبر و اختیار 
انسان نے جب سے زندگی کے مسائل پر غور کرنا شروع کیا اسی وقت سے  اس کے سامنے یہ  سوال بھی رہا ہے کہ کیا انسان غیب کی طرف سے  ایک مقررہ ڈگر پر ہانک دیا گیا ہے کہ اب وہ بالکل بے اختیار ہے، یا وہ اپنے لیے خود راہ عمل اختیار کرتا ہے، اس کے ارادے اور عمل میں  کسی کا کوئی دخل نہیں ، وہ اپنے  فیصلے اور کام خود کرتا ہے۔؟  اس مسئلہ میں اہل دانش کے دو گروہ ہیں : ایک جبر کے قائل ہے کہ غیب کی طرف سے انسان کے لیے ایک راہ مقرر کردی گئی وہ اس پر چلنے پر مجبور ہے  اور دوسرا گروہ  انسان کی آزادی اور اختیار کا قائل ہے ۔

اگر پہلی صورت ہے یعنی جبر تو انسان کے اعمال کے نیک اور بد ہونے کا  سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور انسان کو اس کے اعمال پر  جزا و سزا ملنے کا تصور بے معنی ہوجاتا ہے ۔  اور اگر دوسری صورت ہے یعنی آزادی اور اختیار تو انسان کی آزادی کی نوعیت کیا ہے اور وہ کس حد تک اپنے فیصلے اور عمل میں آزاد ہے؟ ابارے میں فلسفیوں نے مختف رائی ظاہر کی ہے ،  ذیل میں اس فلسفہ جبر اور اختیار کے بارے میں  فلسفیوں کے مختلف دلائل کا تنقیدی جائزہ لیں گے پھر قرآن حکیم کا نقطہ نظر پیش کیا جائے گا ۔

  جو فلسفی جبر کے قائل ہیں ، ان کے دلائل یہ ہیں کہ انسان اس کائنات میں ایک میشن کے پرزہ کی مانند  ہے ، اس لیے کسی پرزے کی آزادی کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ ان کی طرف سے دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جس طرح دنیا کی ہرچیز طبیعات کے بے لچک قوانین کے تحت چل رہی ہے انسان بھی انہی بے لچک قوانین کے تابع ہے اس وجہ سے آزادی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ البتہ کچھ متعدل فلسفیوں کا کہنا ہے کہ ازل سے ابدتک تمام واقعات علت و معلول کی ایک طویل زنجیر کی کڑیاں ہیں ۔ انسان بھی اس زنجیر کی ایک کڑی ہے  اس وجہ سے اس کے اعمال ایسے عوامل کا نتیجہ ہیں جن پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ، اس گروہ کا نمائندہ فلسفی ، زینو (zeno) ہے،  مشہور فلسفی والٹئیر نے یہ کہ کر بات ختم کردی " میں جو چاہوں اگر کرسکوں تو آزاد ہوں لیکن کیا میں یہ چاہنے  میں بھی آزاد ہوں ؟ "  یونان کے ابتدائی عہد کے فلسفیوں کا عقیدہ تھا کہ دنیا پر چند جابر قوتوں کی حکمرانی ہے جن کے سامنے انسان بے بس ہے،  یہی قوتیں انسان کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ یونان اور ہندوستان  کی ساری دیومالائی کہانی اسی تصور پر گھڑی گئی تھی ۔  فلسفیوں کا ایک بڑا گروہ جس میں قدیم یونانی رواقی فلسفی، وحدۃ الوجود کے قائل فلسفی سپنوزا اور پندرھویں صدی اور سولہویں صدی کے سائنسدان اور فرانس کا مشہور فلسفی  والٹیئر اس عقیدہ جبر کے قائل ہیں۔ 

حضرت شعيب عليہ السلام اور ان کى قوم

ابراہیم ؑ کی نسل :  بنی اسماعیل ، بنی اسرائیل اور بنی مدین تین مشہور شاخیں ہیں، اللہ تعالی نے ان کی نسل سے عظیم قومیں پیدا کیں ۔ جن سے نبوت کا سلسلہ آگے چلا ، آپ کے فرزند اسحاق ؑکے بیٹے یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے ، جوشام اور مصر میں آبادہوئے۔ ان میں جلیل القدر انبیاء اور بادشاہ پیدا ہوئے ۔ ابراہیم ؑ کا بیٹا مدین سے بنی مدین وجود میں آئے ، انہیں میں حضرت شعیب ؑ نبی بنے۔ ابراہیم ؑ نے اپنے فرزند اسماعیل ؑکو وادی غیر ذی زرع بکہ ( مکہ ) میں آباد کیا تھا ، جن سےبنی اسماعیل کی نسل چلی ، اسماعیلؑ کے بعد بنی اسماعیل میں کوئی نبی نہیں آیا، اس دوران نبوت کا سلسلہ بنی مدین اور بنی اسرائیل میں جاری رہا ۔ اسماعیل ؑ کے بعد اس سلسلہ نبوت کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اللہ نے جن کی رسالت کوتمام جہاں کے لیے تاقیامت رحمۃ للعالمین اور کافۃ للناس بنادیا ۔ 
آثار مدین 

بنو مدین کا تعلق حضرت ابراہیم ؑ کی ایک تیسری بیوی قطورا سے تھا ، ان کے بطن سے ایک بیٹا مدین پیدا ہوا ، جو سب سے زیادہ مشہور ہو ا ، مدین کے کئی اور بھی بھائی تھے ، ان کی اولادیں بھی تھیں ، تورات میں صرف دو کی اولاد کا ذکر ہے ، بنی دوان اور بنی مدین ، اور شعیب ؑ کا تعلق بنی مدین سے تھا ، دوان کا ذکر قرآن مجید میں اصحاب الایکہ (جنگل والے ) کے نام سے آیا ہے ، جبکہ بنی مدین کو قوم شعیب کہاگیا ۔ یہ دونوں تاجر قوم تھیں ، ان دونوں قوموں اور علاقوں کے بیک وقت شعیب ؑ نبی تھے ۔ حضرت شعیب ؑ کا نام تورات میں جوباب یا ثیرومذکور ہے ، عربی میں بدل کرشعیب مشہور ہوا ۔ مدین اور ایکہ ان دونوں علاقوں کا آپس میں گہرا تعلق تھا ، ان کا زمانہ بھی باہم ایک تھا ، جس کی بنا پر دونوں آبادیوں کے لیے ایک ہی نبی کی بعثت ہوئی ، نیز قرآن مجیدنے دونوں کے اخلاق اور کردار کا نقشہ بھی ایک ہی پیش کیا ۔ 

شق القمر کا واقعہ ۔ سید ابوالاعلی مودودی ؒ

 قرآن مجید کی سورہ قمر میں شق القمر کے واقعہ کا ذکر آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " محدثین و مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے مکہ معظمہ میں منیٰ کے مقام پر پیش آیا تھا۔

شق القمر کا واقعہ 

اس میں کفار مکہ کو اس ہٹ دھرمی پر متنبہ کیا گیا ہے جو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے مقابلہ میں اختیار کر رکھی تھی۔ شق القمر کا حیرت انگیز واقعہ اس بات کا صریح نشان تھا کہ وہ قیامت جس کے آنے کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے تھے، فی الواقع برپا ہو سکتی ہے، اور اس کی آمد کا وقت قریب آ لگا ہے۔ چاند جیسا عظیم الشان کرہ ان کی آنکھوں کے سامنے پھٹا تھا۔ اس کے دونوں ٹکڑے الگ ہو کر ایک دوسرے سے اتنی دور چلے گئے تھے کہ دیکھنے والوں کو ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا تھا۔ پھر آن کی آن میں وہ دونوں پھر مل گئے تھے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ نظام عالم ازلی و ابدی اور غیر فانی نہیں ہے۔ وہ درہم برہم ہوسکتا ہے۔ بڑے بڑے ستارے اور سیارے پھٹ سکتے ہیں۔ بکھر سکتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں۔ اور وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جس کا نقشہ قیامت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے قرآن میں کھینچا گیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ یہ اس امر کا پتا بھی دے رہا تھا کہ نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہوگیا ہے اور وہ وقت قریب ہے جب قیامت برپا ہوگی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی حیثیت سے لوگوں کو اس وقعہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا، دیکھو اور گواہ رہو۔ مگر کفار نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دیا اور اپنے انکار پر جمے رہے۔ اسی ہٹ دھرمی پر اس سورۃ میں انہیں ملامت کی گئی ہے۔ 

کلام کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا گیا کی یہ لوگ نہ سمجھانے سے مانتے ہیں، نہ تاریخ سے عبرت حاصل کرتے ہیں، نہ آنکھوں سے صریح نشانیاں دیکھ کر ایمان لاتے ہیں۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب قیامت فی الواقع برپا ہوجائے گی اور قبروں سے نکل کر یہ داور محشر کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ( سورہ قمر :1)

قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔

یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قیامت کی گھڑی، جس کے آنے کی تم لوگوں کو خبر دی جاتی رہی ہے، قریب آ لگی ہے اور نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہوگیا ہے۔ نیز یہ واقعہ کہ چاند جیسا ایک عظیم کرہ شق ہو کر دو ٹکڑے ہوگیا، اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ جس قیامت کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ برپا ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب چاند پھٹ سکتا ہے تو زمین بھی پھٹ سکتی ہے، تاروں اور سیاروں کے مدار بھی بدل سکتے ہیں اور افلاک کا یہ سارا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی چیز ازلی و ابدی اور دائم و مستقل نہیں ہے کہ قیامت برپا نہ ہو سکے۔ 

قرآن حکیم : فلسفۂ خیر و شر پر ایک نظر

قرآن حکیم : خیر اور شر کے فلسفہ پر ایک نظر 
انسان نے جب سے زندگی کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش شروع کی ہے اس وقت سے خیر اور شر کا موضوع اس کے غور و فکر کا بنیادی مسئلہ رہا ہے ، ہر زمانے کے فلسفیوں نے اس موضوع پر رائی زنی کی ہے ، اہل مذہب نے بھی اس عقدہ کو حل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس موضوع کو چند سوالات نے مزید الجھا دیا وہ یہ ہیں : 

1- کیا خیر اور شر دو الگ الگ چیزیں ہیں یا دونوں کا وجود محض اضافی اور نسبتی  ہے یعنی کیا زمانہ اور حالات کے لحاظ سے خیر اور شر کا معیار بدل جا تا ہے ؟

2- کیا خیر اور شر کا تصور انسان کی فطرت میں لکھا ہوا ہے اگر ایسا ہے تو وہ کون سا معیار اور کسوٹی ہے جن پر پرکھ کر معلوم کیا جاسکے کہ یہ خیر ہے اور یہ شر ہے ؟

3- اگر خیر اور شر کا معیار فطری ہے تو قوموں ، ملتوں اور گروہوں اور افراد کے درمیاں اختلافات کیوں ہیں ؟ 

ان سوالات پر ہرزمانہ کے دانشوروں ، حکیموں اور فلسفیوں نے غور و فکر کے بعد اپنی اپنی رائے ظاہر کی  ہے۔ لیکن قرآن حکیم اس بارے میں  ایک خاص نقطہ نظر پیش کرتا ہے ، یہاں قرآن مجید کا نقطہ نظر اور چند مشہور فلسفیوں کی آراء کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتاہے ۔

کچھ فلسفیوں کا خیال ہے کہ خیر اور شر نغمہ کے زیر و بم اور تصویر کے سرخ اور سیاہ دھبوں کی طرح ہے ۔ ان فلسفیوں کے نمائدے ہیرا قلیطس اور سینٹ آگسٹائن وغیرہ ہیں ، ان کے نزدیک نغمہ کے زیر و بم کی طرح خیر اور شر، نیکی اور بدی دونوں دنیا کے لیے ضروری ہیں ۔ ان سے دنیا کی رنگینی میں اضافہ ہو تا ہے ۔ مادی اشیاء کے متعلق تو یہ کہنا درست ہے کہ کہ گندی سے گندی چیز بھی کام آجا تی ہے گندگی سے بنی کھاد بھی اپنی جگہ بڑی قیمت رکھتی ہے لیکن اخلاقیات کے متعلق یہ معیار درست نہیں ۔ سچ اور جھوٹ ، ایمانداری اور بے ایمانی برابر نہیں ہوسکتی ۔ ارشاد باری تعالی ہے : 

" قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ " (المائدہ : 100)

"اے پیغمبر ؐ ! اِن سے کہہ دو کہ بری چیز اور عمدہ چیز بہرحال یکساں نہیں ہیں خواہ بری چیز کی کثرت تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔ "

قرآن کریم کا اسلوب استدلال - ڈاکٹر اسرار احمد

قرآن مجید کا اسلوب استدلال 
 قرآن کے طالب علم کو جاننا چاہیے کہ قرآن کا اسلوبِ استدلال منطقی نہیں‘ فطری ہے. انسان جس فلسفے سے واقف ہے اس کی بنیاد منطق ہے. چنانچہ ہمارے فلاسفہ اور متکلمین استخراجی منطق(Deductive Logic) سے اعتناء کرتے رہے ہیں‘ جبکہ قرآن مجید نے اسے سرے سے اختیار نہیں کیا. وقتی تقاضے کے تحت ہمارے متکلمین نے اسے اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچ پایا. ایمانی حقائق کو جب استخراجی منطق کے ذریعے سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تو یقین کم اور شک زیادہ پیدا ہوا. اس ضمن میں کانٹ کی بات حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے ‘ لہذا علامہ اقبال نے بھی اپنے خطبات کا آغاز اسی حوالے سے کیا ہے. کانٹ نے حتمی طور پر ثابت کر دیا کہ کسی منطقی دلیل سے خدا کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا. منطق میں اللہ کی ہستی کے اثبات کے لیے ایک دلیل لائیں گے تو منطق کی دوسری دلیل اسے کاٹ دے گی. جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اسی طرح منطق‘ منطق کو کاٹ دے گی. قرآن نے اگرچہ کہیں کہیں منطق کو استعمال توکیا ہے لیکن وہ بھی منطقی اصطلاحات میں نہیں. قرآن مجید کا اسلوبِ استدلال فطری ہے اور اس کا انداز خطابی ہے. جیسے ایک خطیب جب خطبہ دیتا ہے تو جہاں وہ عقلی دلائل دیتا ہے وہاں جذبات سے بھی اپیل کرتا ہے. اس سے اس کے خطبے میں گہرائی و گیرائی پیداہوتی ہے.ایک لیکچر میں زیادہ تر دارومدار منطق پر ہوتا ہے. یعنی ایسی دلیل جو عقل کو قائل کر سکے . لیکن شعلہ بیان خطیب انسان کے جذبات کو اپیل کرتاہے. اس کو خطابی دلیل کہا جاتا ہے. یہی خطابی انداز اور استدلال قرآن نے استعمال کیا ہے.