حق و باطل کا قرآنی میزان

امتِ مسلمہ کی تاریخ پر اگر تدبر کی نظر ڈالی جائے تو ہمیں ایک عجیب مگر سبق آموز حقیقت سامنے آتی ہے۔ ہر دور میں دین کی خدمت کے نام پر مختلف تحریکیں، جماعتیں، ادارے اور افراد نمودار ہوئے۔ ہر ایک نے اپنی تعبیر، اپنا زاویہ نظر، اور اپنا راستہ چنا۔ کچھ نے سچائی کے کچھ گوشے پالئے، کچھ نے اخلاص سے سفر کا آغاز کیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ تحریکیں تاریخ کی دھول میں دفن ہوگئیں، کچھ کے صرف نام رہ گئے، اور کچھ حقیقتاً تاریخ کی نفع بخش وراثت بن گئیں۔ سوال یہ ہے: کیا قرآن نے حق و باطل کی پہچان اور ان کی تاریخی حیثیت کے بارے میں کوئی اصول بیان کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ سورہ رعد میں ایک نہایت پراثر تمثیل کے ذریعے حق و باطل کے فرق کو واضح کرتا ہے:
"فَأَمَّا ٱلزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَآءًۭ ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ ٱللَّهُ ٱلْأَمْثَـٰلَ" (الرعد: 17)
"جو جھاگ ہے وہ تو زائل ہو جاتا ہے، اور جو لوگوں کو نفع دیتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے۔ اسی طرح اللہ مثالیں بیان کرتا ہے۔"

یہ آیت محض ایک فطری مشاہدہ نہیں بلکہ ایک الہیٰ قانون بیان کرتی ہے:
 باطل عارضی ہوتا ہے، وہ جھاگ کی طرح ابھرتا ہے، مگر جلدی ہی مٹ جاتا ہے۔
حق وہ ہے جو لوگوں کے لیے نفع مند ہو، وہی زمین میں باقی رہتا ہے، تاریخ اسی کو محفوظ رکھتی ہے۔

"لا إله إلا الله محمد رسول الله" دینِ اسلام کا بنیادی کلمہ قرآن مجید کے مختلف سیاق وسباق میں

 "لا إله إلا الله محمد رسول الله" دینِ اسلام کا بنیادی کلمہ ہے، جو توحید (اللہ کی وحدانیت) اور رسالت (محمد ﷺ کی رسالت) پر ایمان کا اعلان ہے۔ اس کلمہ کے دو بڑے اجزاء ہیں:

  1. لا إله إلا الله – اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

  2. محمد رسول الله – محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

قرآن مجید میں یہ دونوں اجزاء مختلف سیاق و سباق میں بہت مرتبہ آئے ہیں۔ ذیل میں ان سے متعلقہ آیات کی ایک اشاریہ (index) یا فہرست پیش کی جا رہی ہے، تاکہ ان دونوں حصوں کی تفہیم قرآن کی روشنی میں کی جا سکے:

حصہ اول: لا إله إلا الله (توحید - اللہ کی وحدانیت)

1. سورہ البقرہ (2:255) – آیت الکرسی

اللَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ...
اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، قائم رکھنے والا ہے۔

2. سورہ آل عمران (3:18)

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ...
اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

3. سورہ طہ (20:14)

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي...
میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو۔

4. سورہ الانبیاء (21:25)

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ
ہر رسول کو یہی وحی کی گئی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو۔

5. سورہ الصافات (37:35)

إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ
جب ان سے کہا جاتا "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں" تو وہ تکبر کرتے۔

حصہ دوم: محمد رسول الله (رسالتِ محمد ﷺ)

1. سورہ الفتح (48:29)

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ...
محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو ان کے ساتھ ہیں...

2. سورہ محمد (47:2)

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ...
اور جنہوں نے ایمان لایا اور نیک عمل کیے اور اس پر ایمان لائے جو محمد پر نازل کیا گیا...

3. سورہ آل عمران (3:144)

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ...
محمد تو ایک رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں۔

4. سورہ احزاب (33:40)

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ...
محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔

عنوان : قرآن حکیم اور ہماری زندگی

آج ہمارا ملک اور معاشرہ ایک عجیب دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ہم دشمن کی سازشوں، ستم ظریفیوں اور بیرونی دباؤ کا شکار ہیں، تو دوسری طرف ہم خود اپنے کردار کی پستی، اخلاقی انحطاط، اور اجتماعی بداعمالیوں سے اس وطن کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ گویا ہم بیرونی دشمن سے زیادہ اپنے اندر چھپے ہوئے دشمن ، یعنی نفس، حرص، جھوٹ، ظلم اور ناانصافی کے ہاتھوں شکست کھا رہے ہیں۔

یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ کیا ہماری بربادی کا سبب صرف بیرونی سازشیں ہیں؟ نہیں! اصل زوال تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب قومیں اپنے اخلاق، عدل، دیانت، حیاء اور امانت کو کھو بیٹھتی ہیں۔ اور یہی کچھ آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔

ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں، وہاں جھوٹ، فریب، حسد، حرص، بےحیائی، رشوت، ظلم، ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی، غیبت، بدگمانی، اور نفس پرستی جیسی بیماریاں جڑیں پکڑ چکی ہیں۔ یہ برائیاں صرف انفرادی اخلاق کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی زوال کی علامت بن چکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب جاگیں گے؟ اور کس روشنی سے اپنی راہوں کو منور کریں گے؟

قرآن مجید، جو سراسر ہدایت ہے، ہمیں ان تمام برائیوں سے بچنے اور ایک صالح معاشرہ قائم کرنے کے لیے واضح رہنمائی دیتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیات 22 تا 39 کو اگر ہم غور سے پڑھیں، تو ہمیں ایک مکمل ضابطۂ حیات ملتا ہے — ایک ایسا اخلاقی آئین جو کسی بھی معاشرے کو امن، عدل اور خیر کی بنیادوں پر استوار کر سکتا ہے۔

آیات کی تلاوت کریں

کیا فہم، ترجمہ اور تفسیر قرآن میں مداخلت ہے؟ ایک فتنہ انگیز مغالطے کا علمی رد

قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی ہے، جس میں کسی تحریف یا تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ اس بات پر ایمان ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ تاہم بعض افراد یہ فتنہ انگیز دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر، ترجمہ یا فہم پیش کرنا "قرآن میں مداخلت" ہے، اور اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔ اس دعوے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ خود قرآن کو "مہجور" کرنے کے مترادف ہے، نہ کہ اس کا دفاع۔

فہمِ قرآن کا انکار، قرآن کے مقصد کا انکار ہے

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ذکر، ہدایت، نور، فرقان اور "بیان للناس" کے طور پر نازل فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ" (ص: 29)

اگر قرآن صرف تلاوت کے لیے ہوتا، اور اس کا مفہوم سمجھنا "مداخلت" ہوتا، تو یہ آیت تدبر کی دعوت کیوں دیتی؟ کیا اللہ نے اپنی کتاب کو فقط غیرسمجھ دار مخلوق کے لیے نازل فرمایا؟ ہرگز نہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا فریضہ صرف تلاوت نہ تھا، بلکہ "تبیین" بھی تھا

قرآن فرماتا ہے:

"وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ" (النحل: 44)

یہ آیت واضح طور پر رسول ﷺ کے فہم، بیان، اور تفسیر کو اللہ کا مأمور عمل قرار دیتی ہے۔ اور یہ عمل رسول کے بعد صحابہ، تابعین اور امت کے علماء کے ذریعے جاری رہا، جنہوں نے اصولوں کے ساتھ تفسیر کا علم مدون کیا۔

قرآن کی تفسیر کے لیے عمدہ اصول ( قاعدہ ۔ ۱۵)

قاعدہ : ۱۵ اللہ تعالیٰ نے جو اسباب بلند مطالب (یعنی بڑی نعمتوں اور عظیم کامیابیوں) کے لیے مقرر فرمائے ہیں، وہ دراصل "بشارتیں" ہیں، تاکہ دلوں کو اطمینان حاصل ہو، اور ایمان میں اضافہ ہو۔

یہ اصول قرآن کریم کی مختلف آیات میں واضح طور پر بیان ہوا ہے۔

نصرت (مدد) کی بشارت:

اللہ تعالیٰ نے جب ملائکہ کو مومنین کی مدد کے لیے نازل فرمایا، تو اس کا مقصد یوں بیان فرمایا:

وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ  (الأنفال: 10)

"اور اللہ نے اسے صرف ایک خوشخبری بنایا، اور تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں۔"

رزق اور بارش کی بشارت:

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ  (الروم: 46)

"اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ ہواؤں کو خوشخبریاں دے کر بھیجتا ہے، تاکہ تمہیں اپنی رحمت کا ذائقہ چکھائے۔"

قرآن کی تفسیر کے جامع اصول

قرآنِ مجید، ہدایت، نور، فرقان اور شفا کی کتاب ہے۔ اس کا ہر لفظ حکمت سے لبریز اور ہر آیت روشنی کا منبع ہے۔ مگر اس نورانی کلام کو سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کے لیے نہایت ذمہ داری، دیانت، علم، اور روحانی شعور کی ضرورت ہے۔ چودہ صدیوں سے مفسرینِ کرام نے قرآن کی تفہیم کے لیے اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں تاکہ کوئی شخص ذاتی خواہشات، باطل نظریات، یا بے بنیاد تاویلات کے ساتھ قرآن کی تفسیر نہ کرے۔

اس مضمون میں ہم ان اصولوں کو مختصر مگر جامع انداز میں پیش کرتے ہیں جو قرآن کی تفسیر کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں:

1. تفسیر القرآن بالقرآن

قرآن خود اپنی بہترین تفسیر کرتا ہے۔ بعض آیات کا مفہوم دیگر آیات سے واضح ہوتا ہے۔ قرآن ایک مربوط اور مکمل کتاب ہے، جس کی کئی آیات ایک دوسرے کی وضاحت کرتی ہیں۔

مثال:
"صراطَ الّذین أنعمتَ علیہم" (الفاتحہ:7)
کی تفسیر خود قرآن میں موجود ہے:
"من یطع اللّٰہ والرّسول فاولٰئک مع الّذین أنعم اللّٰہ علیہم من النّبیین…" (النساء:69)

2. تفسیر القرآن بالسنۃ النبویہ

رسول اللہ ﷺ قرآن کے پہلے معلم، مبین اور عملی نمونہ تھے۔ آپ کی احادیث، اقوال، اعمال، اور تقریری سنت قرآن کی تشریح میں رہنما حیثیت رکھتی ہے۔ اگر قرآن کا کوئی مفہوم سنت سے واضح ہو جائے تو کسی اور تاویل کی گنجائش نہیں رہتی۔

3. اقوالِ صحابہؓ کی روشنی میں تفسیر

صحابہ کرامؓ نے براہِ راست قرآن نبی ﷺ سے سیکھا، وہ نزولِ قرآن کے وقت کے حالات و سیاق کو جانتے تھے، اور ان کی فہم و تفسیر حجت کی حیثیت رکھتی ہے، خصوصاً ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ، علیؓ، اور زیدؓ بن ثابت جیسے اکابر صحابہؓ۔

سورۃ الزلزال: قیامت کا ایک لرزہ خیز منظرنامہ

 سورہ الزلزال   قرآن مجید کی 99 ویں سورت ہے، جس کا نزول مدینہ منورہ میں ہوا۔ یہ سورت صرف 8 آیات پر مشتمل ہے، مگر اپنی فصاحت، اختصار اور اثر انگیزی میں ایک عظیم الشان پیغام سموئے ہوئے ہے۔ اس سورت کا مرکزی موضوع قیامت کا منظر اور اعمال کا محاسبہ ہے۔

لفظ "الزلزال" کا مطلب ہے "زلزلہ"، اور اسی زلزلے کا ذکر سورہ کے آغاز میں کیا گیا ہے، جو قیامت کے دن زمین کی سب سے بڑی اور آخری جنبش کو بیان کرتا ہے—ایسا لرزہ کہ زمین اپنے تمام بوجھ باہر نکال دے گی: لاشیں، راز، جرائم، نیکیوں اور سب کچھ۔

یہ سورت انسان کے اس گمان کو توڑتی ہے کہ اُس کے اعمال معمولی ہیں یا بے حساب گزر جائیں گے۔ یہاں ہر چھوٹے بڑے عمل کا اندراج ہے، اور قیامت کے دن وہ سب ظاہر ہوگا۔

اہم نکات:

  • زمین کی گواہی: انسان جو کچھ کرتا ہے، وہ زمین کی چھاتی پر نقش ہوتا ہے، اور قیامت کے دن یہی زمین اس کا گواہ بنے گی۔
  • اعمال کا وزن: یہاں تک کہ "ذرہ برابر" بھی نیکی یا بدی، سب شمار کی جائے گی۔
  • خدا کا عدل: یہ سورت اللہ تعالیٰ کے عدل کامل اور حساب کی باریکی کو واضح کرتی ہے۔

سورہ الزلزال انسان کو ایک جھنجھوڑ دینے والا انتباہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو محاسبے کی روشنی میں دیکھے۔ ہر قدم، ہر لفظ، ہر نیت اور ہر عمل ایک دن اس کے سامنے کھڑا ہوگا۔ یہ سورت ہمیں متوجہ کرتی ہے کہ دنیا فانی اور آخرت باقی ہے، اور ہر انسان کو اپنے اعمال کا بوجھ خود اٹھانا ہوگا۔

سورۃ العصر: انسان اور وقت کے درمیان مکالمہ

سورۃ العصر قرآن مجید کی مختصر ترین سورتوں میں سے ہے، مگر اپنے معنی و مفہوم میں اتنی جامع اور عمیق ہے کہ سیدنا امام شافعیؒ نے فرمایا:

"اگر لوگ صرف اسی سورت پر غور کرلیں تو یہ ان کی ہدایت کے لیے کافی ہو جائے۔"

یہ سورت گویا وقت (عصر) کو گواہ بنا کر انسان کو اس کی سب سے بڑی حقیقت سے روشناس کراتی ہے—یعنی خسارہ۔
دنیا کی سب سے قیمتی شے اگر کوئی ہے تو وہ وقت ہے، اور انسان کی سب سے بڑی غفلت یہ ہے کہ وہ وقت کو ضائع کر دیتا ہے۔

ترجمہ سورۃ العصر:


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالْعَصْرِ
إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ

ترجمہ:
قسم ہے زمانے کی!
بے شک انسان خسارے میں ہے،
سوائے ان کے جو ایمان لائے،
نیک عمل کیے،
اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی
اور صبر کی نصیحت کی۔

زمانے کی حقیقت:


سورۃ العصر کا آغاز اللہ تعالیٰ کی قسم سے ہوتا ہے:

"وَالْعَصْرِ"
یعنی "قسم ہے زمانے کی"۔

یہ ایک بیدار کرنے والا اعلان ہے۔
"عصر" یہاں صرف وقت نہیں بلکہ تاریخ، لمحہ، تغیر، اور انسانی زندگی کی گردش کا استعارہ ہے۔
اللہ زمانے کو گواہ بنا کر یہ بتاتا ہے کہ وقت کی شہادت کافی ہے کہ:

انسان بے مقصد بھاگ رہا ہے؛

وہ اپنی اصل منزل بھول چکا ہے؛

وہ کامیابی کے سراب میں خسارے کی حقیقت کو بھلا بیٹھا ہے۔

جنت : قرآن کے آئینے میں

قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے جب انسان جنت کے تذکروں سے گزرتا ہے تو ایک نرمی، ایک امید، اور ایک عجیب سی کشش دل پر طاری ہو جاتی ہے۔ جنت، وہ ابدی مقام ہے جو انسان کے اعمالِ صالحہ کا بہترین انعام ہے۔ لیکن قرآن جنت کو صرف ایک مادی مقام کے طور پر نہیں پیش کرتا بلکہ یہ روح، عقل، قلب اور خواہشات کے ہر گوشے کو سیراب کرنے والی حقیقت ہے۔ یہ مضمون قرآن کے آئینے میں جنت کی حقیقت، اس کی نعمتیں، اس کے مکین، اور سب سے بڑی نعمت یعنی دیدارِ الٰہی پر روشنی ڈالے گا۔

1. جنت کا تعارف قرآن کی زبانی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ آمَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّـٰتُ ٱلْفِرْدَوْسِ نُزُلًۭا﴾  (الکہف: 107)
ترجمہ: "یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، ان کے لیے فردوس کے باغات مہمانی کے طور پر ہوں گے۔"

یہ آیت بتاتی ہے کہ جنت کوئی عمومی انعام نہیں، بلکہ ایک خصوصی "نزُل" ہے، یعنی مہمان نوازی ہے رب کی طرف سے۔ ایمان اور عمل صالح کی قیمت پر یہ وہ مقام ہے جہاں سے اللہ تعالیٰ اپنے مہمانوں کی ضیافت کریں گے۔

2. جنت کے باغات اور نہریں

﴿وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ﴾  (البقرۃ: 25)
ترجمہ: "اور خوشخبری دے دو ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔"

نہریں جنت کا ایسا استعارہ ہیں جو تسلسل، روانی اور اطمینان کا نشان ہیں۔ قرآن میں بار بار اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ ان باغات میں نہ صرف پانی بلکہ دودھ، شہد، اور شراب طہور کی نہریں ہوں گی۔

جہنم: قرآن کے آئینے میں

قرآنِ مجید ہدایت کی کتاب ہے۔ وہ انسان کو صرف اچھائی کی دعوت نہیں دیتا بلکہ برائی کے انجام سے خبردار بھی کرتا ہے۔ ان انجاموں میں سب سے خوفناک انجام "جہنم" ہے — ایک ایسی جگہ جہاں بندہ اپنے اعمال کے حساب کا تلخ پھل چکھتا ہے۔ قرآن مجید نے بارہا جہنم کا ذکر کیا ہے، نہ صرف ڈرانے کے لیے بلکہ انسان کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے۔

1. جہنم کا مفہوم اور اس کے نام

"جہنم" کا لفظ عربی میں "گہرے، اندھیرے، اور بھڑکتی آگ" کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن نے اس کی کئی صورتیں اور نام ذکر کیے ہیں:

  • جہنم: عمومی نام، ہر نافرمان کے لیے

  • سعیر: بھڑکتی آگ

  • سقر: ایسی آگ جو جِلد کو جلا کر رکھ دے

  • لظیٰ: دہکتی ہوئی، شعلہ زن آگ

  • ہاویہ: گہرائیوں میں گرنے والی آگ

  • جحیم: تیز شعلوں والی آگ

”كَلَّا إِنَّهَا لَظَىٰ، نَزَّاعَةً لِّلشَّوَىٰ“
"ہرگز نہیں! وہ تو دہکتی ہوئی آگ ہے، جو کھال اتار لینے والی ہے۔" (الماعون: 15-16)

2. جہنم کے دروازے اور درجات

قرآن کے مطابق جہنم کے سات دروازے ہیں:

"وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ، لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ، لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ"
"اور یقیناً جہنم ان سب کا وعدہ کیا گیا مقام ہے۔ اس کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک حصہ مقرر ہے۔" (الحجر: 43-44)

یہ دروازے مختلف گناہوں کے اعتبار سے تقسیم ہیں — کچھ منافقین کے لیے، کچھ کفار کے لیے، اور کچھ ان ظالموں کے لیے جنہوں نے دین کی روشنی کے باوجود ظلم کا راستہ اپنایا۔